ہیجانی کیفیت اور سکون!

 کوئی تین بجے کا عمل تھا، سورج ڈھل رہاتھا، مگر اس کی تپش کے اثرات جوں کے توں موجود تھے۔ میں نے فرصت پا کر ٹی وی آن کر لیا، کہ کوئی اہم خبر کسی وقت بھی منظر پر آسکتی ہے۔ بریکنگ نیوز کا توایسا چکر چلا ہوا ہے کہ اہم خبر کی اہمیت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے، دور دراز کوئی سلنڈر پھٹ گیا تو بریکنگ نیوز وجود میں آگئی، کسی بڑے سیاستدان کے منجھلے بیٹے نے تقریب میں بیٹھے جمائی لے لی تو بریکنگ نیوز برآمد ہو گئی۔ بہرحال رات کے چلنے والے ’ٹاک شو‘ دہرائے جارہے تھے۔ایک چینل آن کیا تو ایک خاتون کہ جن کی صرف تصویر آرہی تھی، جذبات کی رو میں اس قدر بہہ کر گفتگو کر رہی تھیں کہ اینکر کے بار بار مداخلت کے باوجود وہ کچھ سننے کے لئے تیار نہ تھیں، دوسری طرف اینکر تھا کہ وہ بھی اپنی بات کی وضاحت کرنے کے لئے مسلسل بول رہا تھا، یوں دونوں تو اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے تھے ، مگر دیکھنے والوں کے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔ ایشو یہ تھا کہ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے پی ٹی آئی کے لاہور کے جلسہ میں آنے والی خواتین پر مخصوص (منفی) تبصرہ کر دیا تھا۔ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، رانا ثنا ء اﷲ اکثر ایسابیان جاری کرتے رہتے ہیں کہ مخالفین کو احتجاج اور قائدین کو معذرت وغیرہ کرنا پڑتی ہے۔ ان کے بعض بیانات اس قدر متنازع بھی ہوتے ہیں کہ پوری اپوزیشن سراپا احتجاج ہو جاتی ہے۔ یقینا رانا صاحب کے پاس ایسی کوئی گیدڑ سنگھی ضرور ہے، کہ حکومت ان کو نکالنا تو درکنار روکنے سے بھی قاصر ہے۔ یہاں چینل پر دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ جو خاتون نان سٹاپ جذبات کا اظہار کر رہی تھیں، ان کا تعلق بھی خواتین پر الزام لگانے والی پارٹی سے ہی تھا، وہ اپنی پارٹی کے صوبائی وزیر کے قول کی موہوم سی مذمت کے ساتھ مخالفین پر برس رہی تھیں۔

کچھ دیر میں نے یہ منظر برداشت کیا، آخر بات حد سے نکل گئی اور دونوں (اینکر اور مہمان) میں سے کسی نے بھی خاموشی اختیار نہ کی اور ایک دوسرے کی بات کو سننا گوارا نہ کیا، سر چکرانے لگا، چینل تبدیل کیا تو دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ممبرانِ اسمبلی اپنے قائدین کے اقوالِ زریں کی روشنی میں ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے، وہ بھی اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مخالف کو چاروں شانے چت کرنے کے لئے اپنے قائد کی خوبیاں بیان کر رہے تھے، دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے۔ بات طول پکڑتی گئی، یہاں بھی دونوں ہی بولتے گئے، ساتھ ساتھ بیٹھے، بڑھ چڑھ کر بولنے والوں سے یہ بھی بعید نہیں ہوتا کہ زبان کے استعمال کے بعد ہاتھوں کا استعمال ہی شروع کردیں، بعض اوقات تو اینکر بھی دو مخالفوں کو چھیڑ کر تماشا دیکھا کرتے ہیں۔ جو چھوٹا بڑا سیاستدان ٹاک شو میں آگیا، وہ زندگی اور موت کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے، اسے باہر بیٹھے اپنے حامی نظر آرہے ہوتے ہیں کہ واپسی پر عزت اسی صورت میں بچے گی کہ یہاں معرکہ سر کرنا ہے، یوں دوسروں کو شکستِ فاش دینے کا خبط انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔

چینل تبدیل کیا تو اپنے سابق وزیراعظم کی تقاریر کے کچھ حصے دکھائے جارہے تھے۔ ’’کیوں نکالا‘‘ کی تکرار تو تھی ہی، قوم کو بتایا کہ ’خلائی مخلوق‘ ہمارے خلاف سرگرمِ عمل ہے۔ یہ ایک جلسہ کی جھلکیاں تھیں، موصوف بہت ہی زیادہ غصے میں تھے، اسی طرح بیٹی بھی۔ اُدھر اسی بیانئے کو وزیر اعظم نے بھی اپنی گفتگو میں شا مل کرنا ضروری جانتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والے الیکشن حکومت نہیں، خلائی مخلوق ہی کرائے گی۔ گرمی بڑھی ہے تو سیاسی موسم میں بھی شدت آتی جارہی ہے، آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہے ، تو زمین کے یہ باشندے دل و دماغ میں آگ بھڑکا رہے ہیں۔ کام ایسے دکھایا جارہا ہے کہ اگر کوئی غیر جانبدار انسان ٹی وی کے سامنے بیٹھ ہی جائے تو چند ہی منٹ میں سر درد شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرے چینلز بھی اسی طرح ہیجانی کیفیت پیدا کر رہے تھے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا، لینے کے دینے پڑ گئے، سر میں درد تو الگ بات ہے، ذہن ایک صدمے کی کیفیت میں چلا جاتا ہے، غصہ بھی آتا ہے اور خون کی گردش بھی تیز ہو جاتی ہے۔

میں نے سر کو جھٹکا دیا اور ایک مرتبہ پھر چینل تبدیل کرلیا، مگر اب کسی سیاسی خبر یا تجزیہ کے لئے نہیں، روحانی سکون کے لئے۔ مسجد الحرام کی براہِ راست نشریات چوبیس گھنٹے چلتی ہیں۔ تقریباً تین ماہ قبل ہی اﷲ تعالیٰ نے ہمیں حرمین شریفین میں حاضری کی توفیق بخشی تھی، جب سے واپس آئے ہیں، خانہ کعبہ اور مسجدنبویﷺ کے مناظر روح کی تازگی کا ذریعہ ہیں۔ وہاں اس وقت ایک ڈیڑھ کا وقت تھا، سورج سر پر تھا، مگر خانہ کعبہ کے گرد خوش قسمت لوگ پروانوں کی طرح گھوم رہے تھے۔ اﷲ کا یہ گھر تاابد یونہی آباد رہے گا، نہ رات کا فرق ہے اور نہ دن کی تفریق، نہ گرمی کا خیال ہے اور نہ سردی کا لحاظ۔ خالقِ کائنات کے حضور ہمہ وقت رو رو کر دعائیں ہو رہی ہیں، ہر کوئی اپنی زبان میں اپنا حالِ دل سنا رہا ہے۔ کوئی خانہ کعبہ کے ساتھ سر ٹیک کر رو رہا ہے تو کوئی زمین پر پیشانی رگڑ کر التجائیں کر رہا ہے۔ اُدھر مسجدنبویﷺ میں بھی پروانوں کی یلغار ہے، ریاض الجنہ ہے تو جگہ نہیں ملتی، اور سرورِ دوعالم ﷺ کے دربار میں حاضری کا وہ پُر کیف نظارہ تو دل وجان کی تازگی کا مظہر ہے۔ وہ روحانی و نورانی منظر زندگی کا حاصل ہے۔ ہم لوگ جب سے واپس آئے ہیں، اُس کیفیت سے نکل نہیں سکے، (نکلنا چاہتے بھی نہیں) خاتونِ خانہ تو عشاء کی نماز اکثر گھر بیٹھے ہی مسجد الحرام یا مسجدِ نبویﷺ کے ساتھ باجماعت ادا کرلیتی ہیں۔ ہم یہ چینل لگا لیتے ہیں، اور وہاں کی روح پرور اذان اور نماز باجماعت کی تلاوت اور مناظر دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں، کہ اس نے ہمیں اپنا گھر دیکھنا نصیب فرمایا، اپنے حبیبﷺ کے در پر حاضری نصیب فرمائی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُنہی مناظر کو بار بار دیکھ کر آنسوؤں کی دولت بھی عطا فرمائی۔ جب ہر طرف سے مایوسی گھیر لیتی ہے، جب پاکستان کی سیاست کے متضاد رویے گردشِ خون کو تیز کرتے ہیں، جب ماحول میں سوشل میڈیا کی کربناک آلودگی سے دل میں گھٹن پیدا ہونے لگتی ہے، ہم وہی چینل چلا لیتے ہیں، اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی یاد سے دل بہلا لیتے ہیں، کچھ آنسو بہا لیتے ہیں، یوں ہمارے دل کی ٹیوننگ ہو جاتی ہے۔ وہ گھٹن جو نامناسب سیاسی رویوں سے پیدا ہو گئی تھی، ختم ہو جاتی ہے، وہ سردرد جو متضاد ، غیر سنجیدہ،سطحی اور کسی حد تک منافقانہ رویوں کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا وہ سکون حاصل کرلیتا ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427069 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.