میرا پاکستانی صحافی اور صحافت کا کردار منفی کیوں ؟

معاشرہ سچائی کی خبر سے اثر لیتا ھے جھوٹی خبر سے پیشہ بدنام ھوتا ھے اور مسلمان ھونے کے ناطے ہمارے لیے درس بھی ھے کہ بات سچی کیا کرو اور تصدیق کے بغیر بات نہ کرو!!

عام عوام کی نگاہ میں میرے ملک کا صحافی اپنی قدر ومقام کیوں پستی میں جانے سے نہیں بچا رہا اپنے فرض سے لاآگاہی معاشرے کو متاثر کرنے کی بجاۓ دور سے دور تر کرتی جا رہی ھے. میرے دوستوں خبر بھی عربی زبان کا لفظ ھے جس کے معانی ""اطلاع""آگاہی, پیغام کے ہیں. انگریزی زبان میں خبر کو ""News"" کہتے ہیں. جس سے مراد یہ ھوتی ھے کہ تازہ واقعات کی رپورٹ, یا ایسا واقعہ جسکے بارے میں عام انسان کو معلومات نہ ھو,یاپھر ایسا مواد جس میں قارئین دلچسپی لیں.
صحافتی اصطلاح ؤ معانی میں خبر نیا یا تازہ واقعہ (اچھا ھو,برا ھو) لیکن معمول سے ہٹ کر ھو
خبر کے بارے میں مختلف لوگوں نے مختلف تعریفیں کی ہیں. لیکن ان میں سے کسی ایک تعریف کو بھی مکمل اور جامع تعریف نہیں کہا جاسکتا.
(1)مولانا ظفر علی خان خبر کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ
خبر کی زندگی ایک دن کی ھوتی ھے, لیکن کئ خبریں ایسی بھی ھوتی ہیں جس سے خبروں کا تسلسل قائم ھو جاتا ھے اور جب تک وہ واقعہ یا خبر ختم نہ ھو تب تک خبروں کا تسلسل قائم رہتا ھے
فطرت انسان میں تجسس کا مادہ پایا جاتا ھے اس لیے واقعہ جیسا بھی ھو لوگوں کا اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا رجحان بڑھتا ھے اور ان سے انکے جزبات کو تسکین ملتی ھے
آج سے تقریباً ڈیرھ سو سال قبل یہ خبر رساں ادارے وجود میں آۓ.
اپنے فطری تجسس کی وجہ انسان اپنے گردوپیش میں ھونے والی تبدیلیوں سے باخبر رہنا چاہتا ھے تاکہ ان کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کے لیے منصوبہ بندی کر سکے.
آج کی خبر اور صحافت واحد مقصد شہرت ہی ھے کیونکہ آج کل بات بڑا کر کے پیش کرنا, چھوٹی سے چھوٹی خبر کو خطرناک انداز میں بیان کرنا, نہ اچھائی کا خیال اور نہ برائی کی تمیز, خبر اور بات کی تصدیق کیے بغیر نشر کرنا, اخلاقی قدروں کا جنازہ نکالنا ہی مقصد ھےاور یہ ہی انکی کمائی اور عزت ؤ شہرت ھے
صحافت عربی زبان کے لفظ”صحف”سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم صفحہ یا رسالہ کیا جا سکتا ہے.انگریزی میں جرنلزم،جرنل سے ماخوذ ہے یعنی روزانہ کا حساب یا روزنامچہ.صحافت کسی بهی معاملے کے بارے میں تحقیق یا پهر قارئین تک پہونچانے کے عمل کا نام ہے بشرطیکہ اس کام میں ایمانداری اور مخلص پن کا عنصر موجود ہو.صحافی عام ھو یا خاص اسکو کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ عوام صحافی کی تحقیق سے سچ جاننا چاہتی ہے عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صحافی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور دُھوکے بازی سے عام شہریوں کو آگاہ کرنے اور عوامی مسائل اُجاگر کرنے میں اپنا کرِدار ادا کرتا ہے۔
صحافت ایک روشنی ہے جس سے ظلمت کو بدلا جا سکتا ہے.عام شہری صحافیوں کے ْقلم سے لکھی ہوئی اور زبان سے نکلی ہوئی بات کو کافی حدتک اہمیت دیتا ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں صحافیوں کی جانب سے غلط بیانی کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔خبر (news)، کوئی بھی نئی معلومات یا حالیہ واقعات کی معلومات ہیں جو عام طور پر خبررساں اِدارے پیش کرتی ہیں۔
خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی لیے اسی نسبت سے اس کی تعریفات بھی بہت وسعت ہے۔ بسااوقات یہ تعریفیں ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل ی خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے والا خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں
(1)امریکی صحافی اینڈرسن ڈانا کے مطابق ’اگر کتا انسان کو کاٹے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹے تو یہ خبر ہے‘.
(2)برطانوی پبلشر لارڈ نورتھ کلف کے مطابق ’خبر وہ اطلاع ہے جسے کوئی ایک شخص چھپانا چاہتا ہے جبکہ دیگر تمام لوگ اسے مشتہر کرنا چاہتے ہیں‘.
(3)امریکی صحافی کرٹ لوڈر کے مطابق’خبر کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جودلچسپ ہوجس کا تعلق دنیا میں ہونے والے واقعات سے ہو‘.
(4)فرانسیسی صحافی ہاولے کے مطابق’ اچھی خبر کوئی خبر نہیں ہوتی‘.
(5)کینیڈین ماہر ابلاغیات کے مطابق ’ حقیقی خبر کوئی بدخبری ہی ہوتی ہے‘.
(6)امریکی پبلشر ایل گراہم کے مطابق’ خبر تاریخ کا پہلا
مسود ہ ہوتا ہے‘
(7)ڈاکٹر مسکین علی حجازی اپنی کتاب فنِ ادارت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ۔’’ ہر وہ واقعہ خبر ہے جو درست ہو۔ لوگوں کے لیے دلچسی کا باعث ہو جس کے متعلق لوگ جاننا اور اخبار نویس بتانا چاہیے۔
(8)آکسفورڈ لغت(انگریزی) میں خبر ’’ نئی اطلاع، تازہ واقعات کی رپورٹ کو کہتے ہیں۔
ان تمام تعریفوں سے جامع تر تعریف مندرجہ ذیل ہی بنتی ھےکہ حالیہ واقعات سے متعلق ایسی قابل ذکر نوموصولہ اطلاع کو خبر کہتے ہیں جو نشرو اشاعت سے وابستہ کسی ادارے کی جانب سے جاری کی گئی ہو۔
اپنے خیالات ونظریات کی نشرو اشاعت,معاشرے کے مسائل, اور معاشرے کےعقائد واعمال کی اصلاح میں خطابت وصحافت کا نمایاں کردرار رہا ہےاور رہے گا.اس کا آلہ خیال وقلم ہے،اس کے ذریعہ ہی وقت ؤ قوم کے رخ اور دریاؤں کے دهار کو موڑا جا سکتا ہے.گویا صحافت تلوار کی دهار ہے جو بہت تیز اور باریک ہے.اس کے ذریعہ دفاع اور ہجوم ویلغار دونوں طرح کا کام لیا جاسکتا ہے.
صحافت (Journalism) کسی بھی معاملے بارے تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔ صحافت پیشہ کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔ اداروں جیسے حکومتی اداروں اور تجارت بارے معلومات فراہم کرنے کے علاوہ صحافت کسی بھی معاشرے کے کلچر کو بھی اجاگر کرتی ہے جس میں فنون لطیفہ، کھیل اور تفریخ کے اجزاء شامل ہیں۔ شعبہ صحافت سے منسلک کاموں میں ادارت، تصویری صحافت، فیچر اور ڈاکومنٹری وغیرہ بنیادی کام ہیں۔
1605ء میں چھپنے والا اخبار، Relation aller Fürnemmen und gedenckwürdigen Historien دنیا میں پہلا اخبار شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا انگریزی اخبار جو 1702ء سے 1735ء تک جاری رہا، پہلا مقبول ترین اخبار سمجھا جاتا ہے۔
جدید دور میں، صحافت مکمل طور پر نیا رخ اختیار کر چکی ہے اور عوامی رائے پر اثرانداز ہوئی ہے۔ عوام کا بڑے پیمانے پر اخباروں پر معلومات کے حصول کے لیے اعتماد صحافت کی کامیابی کی دلیل ہے۔ اب اخباروں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر عوام تک رسائی ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور ریڈیو کے ذریعے بھی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے دنیا میں وقوع پزیر ہونے والے واقعات بارے معلومات کا حصول انتہائی آسان ہو گیا ہے
صحافتی اخلاقیات وزمہ داری کی بات کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافتی اخلاقیات و ذمہ داری کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
دنیا کے دوسرے تمام ممالک کی طرح میرے پاکستان میں بھی صحافت کی آزادی اور احساسِ ذمہ داری کو قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ سے ہی صحافتی اخلاقیات پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے صحافتی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے ایک مقام پر فرمایا کہ “صحافت کو کاروبار نہیں بلکہ قومی خدمت کا موثر وسیلہ سمجھا جاے، یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جسے عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں عدل و انصاف کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔
زرد صحافت" (انگریزی: Yellow journalism) کی ایک پست ترین شکل جس میں کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر زور دینے کے لیے اصل خبر کی شکل اتنی مسخ کر دی جاتی ہے کہ اس کا اہم پہلو قاری کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ یہ اصطلاح انیسویں صدی کی آخری دہائی میں وضع ہوئی۔ جب نیویارک کے اخبارات کے رپورٹر اپنے اخبار کی اشاعت بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر وحشت ناک اور ہیجان انگیز رپورٹنگ کرتے تھے۔ یہ اشاعتی جنگ (Circulation War) اس وقت عروج پر پہنچی جب بعض اخبارات نے کیوبا میں ہسپانوی فوجوں کے مظالم کی داستانیں خوب نمک مرچ لگا کر شائع کیں اور امریکی رائے عامہ کو سپین کے خلاف اس قدر برانگیختہ کر دیا کہ امریکا اور سپین کی جنگ تقریباً ناگزیر ہو گئی۔ زرد صحافت کی اصطلاح دراصل اس سنسنی خیز کامک سیریل سے ماخوذ ہے جو Yellow kid کے عنوان سے امریکی اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔
میرے پاکستان کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ریٹنگ کی دوڑ اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں ہم صحافتی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں جس سے نہ صرف بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں بلکہ نوجوان صحافیوں کو بھی صحافی اور صحافت کے اصل مقاصد سے دور کررہی ہیں۔
ہی اپنا لیا جائے تو ہمارے ملک کی صحافت کا معیار بہت بہتر ہوسکتا ہے۔
صحافی کو غیر جانبدار اور تعصب سے پاک ہونا چاہیے۔
صحافی اپنے فرض کو انجام دیتے ہوئے منصفانہ اور جائز ہونا چاہیے۔
صحافی کی صحافت حقائق پر مبنی ہو۔
صحافت ذمہ دارانہ اور اپنے مقاصد سے مخلص ہونی چاہیے۔
صحافت شائستہ، آبرُو مندانہ اور مہذب ہونی چاہیے۔
صحافی کو ہر امور پر آزاد ہونا چاہیے۔
ایک صحافی کی صحافتی و اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بنا کسی تحقیق یا ثبوت کے کسی فرد یا شخصیت کے خلاف کوئی بات آگے نہ بڑھاے۔
عوام کے مسائل کو اجاگر کرے اور ان کے حل کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھاے۔
معاشرتی برائیوں سے تمام عوام کو آگاہ کرے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے اپنا عملی کردار ادا کرے۔
ایک وقت تھا کہ بڑے بڑے اور نمایاں مسلم قائدین صحافت سے منسلک تھے۔ ان کا صحافت سے منسلک ہونا تجارت کے لیے نہیں تھا؛ بل کہ ایک مشن اور قوم و ملت و وطن کی خدمت کے لیے تھا۔ وہ حضرات صحافت کو مشن اور خدمت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سر سید احمد خان کے اخبار “سائنٹفک سوسائٹی” اور رسالہ “تہذیب الاخلاق”، مولانا ظفر علی خان کا اخبار “زمیندار”، مولانا حسرت علی موہانی کا رسالہ “اردوئے معلّی”، مولانا محمد علی جوہر کا اخبار “کامریڈ” اور “ہمدرد”، مولانا ابوالکلام آزاد کے “الہلال” اور “البلاغ” اور حامد الانصاری غازی کا اخبار “مدینہ” نے وہ کام کیا کہ ہندستان کی تاریخ میں اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔
ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، مولانا محمد علی جوہر کا نظریۂ صحافت یوں نقل کرتے ہیں: “صحافت سے میری غرض صحافت نہیں ہے۔ ملک و ملت کی خدمت ہے اور اگر ایک مختصر مضمون سے صحیح طور پر ملک و ملت کی رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں وہ بھی لکھ سکتا ہوں اور لکھوں گا۔ اگر انیس نہیں اڑتیس کالموں کے مضمون سے صحیح رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں اتنا طویل مضمون لکھ سکتا ہوں اور ضرور بالضرور لکھوں گا۔ غرض ملک و ملت کی خدمت ہے جس طرح بہترین طریقے پر ملک و ملت کی خدمت ہوسکے گی انشاء اللہ کی جائے گی
اگر میرے ملک پاکستان کے مسلمانوں جو اہل علم ؤ قابل، باشعور اور اہل ثروت,اہل دین بھی ھوں میرے خیال میں اس طبقہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ میدان صحافت میں صرف اور صرف خدمت کی غرض سے آئیں، اپنا میڈیا ہاؤس بنا کر چلائیں اور مکر و فریب، دروغ گوئی, کذب بیانی,فحاشی, اور گندگی و بے حیائی کی چادر میں دبی ہوئی موجودہ دور کی صحافت کو اگر اسلامی اسلوب میں پیش کرنے کا فریضہ انجام دینے کا علم اٹھا لے تو یقین مانے پاکستان کا یہ بیمار معاشرہ دنیاۓ فانی کے نقشے پر روشن اور صحت مند معاشرہ بن کر ابھرے گا جو صرف سچائی ,راہنمائی, علمدار ھو گا.
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558113 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More