علامہ اقبال رحمہ اﷲ نے کیا خوب فرمایا ہے۔۔
واعظِ قوم کی وہ پْختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شْعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، رْوحِ بِلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
واقعی میں اﷲ نے علامہ اقبال کو ان صفات سے نوازا تھا کہ اگر ختم نبوت کا
دروازہ خاتم النبین نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم پر بند نہ ہوا ہوتا تو شاید
یہ نبی کو درجہ پا جاتے۔ اب مندرجہ بالا اشعار کو دیکھ لیں۔ ایک صدی یا کچھ
کم سال پہلے کہے گئے یہ اشعارآج کی صورت حال کو کس قدر واضح کر رہے ہیں۔
ہمارے رہنما صرف نام کے رہ گئے ہیں۔ ظاہر ہے آج کے دور میں انہیں سیاستدان
کہا جاتا ہے، اور سیاست میں جھوٹ کے پلندے نہ تولے جائیں تو وہ سیاست نہیں
کہلائے گی۔ سیاست میں گند نہ کیا جائے ، سیاست میں مخالف کی پگڑی نہ اچھالی
جائے، اس کے گھراور چار دیواری کے اندر کے راز نہ کھولے جائیں (سچ اس میں
کم ہی ہوتا ہے) تو وہ سیاستدان نہیں کہلائے گا۔ ایک طرف جلسے میں ایک لیڈر
کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ لاہور کو پیرس اور کراچی کو نیویارک بنائے گا یعنی
ملک کو انگریزوں کی پیروی میں ڈالے گا۔۔ تو دوسری طرف دوسرا لیڈر کھڑے ہو
کر ببانگِ دہل اعلان کرتا ہے کہ اگر موقع ملا تو پاکستان کو مدینہ کی طرح
فلاحی مملکت بنائے گا جب کہ اسی لمحے اسی کے سٹیج کے نیچے خواتین ننگے سر
ہر چلنے والے گانے پر رقص کرتی ہیں۔ کیا مدینہ جیسی فلاحی ریاست میں یہ
فلاح ملتی تھی؟ جلسے سے پہلے اعلان کیاجاتا ہے کہ خواتین گھروں سے باہر
نکلیں اور جمہوریت کو مستحکم کریں۔ جب کہ اﷲ پاک کا فرمان ہے کہ خواتین
گھروں میں چادر اور چاردیواری میں رہیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ کیا
ہمارا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے؟ وقت کی پابندی کس قدر لازمی ہے جو کہ ہمیں
نماز جیسا دین کا اہم رکن بتاتا ہے۔ اگر وقت پر نماز باجماعت قائم کی جائے
توستائیس درجے نیکیاں ورنہ ایک نیکی۔ لیکن اب کیا ہے پہلے تو نماز ہی نہیں
رہی۔ مسجدیں روزانہ ہر نماز کے وقت پکارتی ہیں کہ کہاں ہیں وہ نمازی جو وقت
نماز کانپ اٹھتے تھے، جب تک مسجد کے اندر صف میں کھڑے نہیں ہو جاتے تھے ان
کی کپکپی ختم نہیں ہوتی تھی۔ اب صورتِ حال ہر گز ایسی نہیں رہی۔
دوسری طرف رمضان المبارک کے مبارک ماہ کی آمد آمد ہے۔جتنے چینل چل رہے ہیں
، جتنے بھی ماہر رقاص ہیں جو اپنے اپنے پروگرامز میں گھٹیا اور اخلاق باختہ
ڈانس کرواتے ہیں، وہ دین کے طریقے سکھانے کے لیے اپنے اپنے بلوں سے نکلیں
گے۔ مختلف قسم کے روپ بہروپ میں آئیں گے۔ مخلوط محافل میں لوگوں کو دین
سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کونسا دین، اپنے اپنے فرقے کا دین۔ کاش کوئی
وہی سیکھ لے۔ لیکن وہ بھی سیکھ نہیں پاتا۔ کیسے سیکھے؟ نظریں کہیں اور، دل
میں کچھ اور اور دماغ میں کچھ اور چل رہا ہوتا ہے۔ خواتین کو خوشبو لگا کر
باہر نکلنے سے منع کیا گیا ہے اور جو ایسا کرے اس پر فرشتوں کی لعنت کہی
گئی ہے۔ لیکن یہاں پر یوڈی کلون اور دوسری ہزار ہا قسم کی تیز ترین
خوشبوئیں کہ جس کی مہک (معطر اور بھینی تو نہیں کہوں گا)میلوں دور سے آتی
ہے، اپنے جسم پر ، کپڑوں پر انڈیلی جاتی ہیں۔اور پھر اس خوشبو کے ساتھ
بھڑکیلے لباس پہنے وہ اپنے مردوں کے ساتھ کم، دوسرے مردوں کے ساتھ زیادہ
قریب بیٹھ کر دین سیکھ رہی ہوتی ہیں۔
یہ میزبان جو سارا سال رقص سکھاتے ہیں، وہ دین سکھائیں گے۔ سارا سال جو
جھوٹ بول بول کر عوام کا قافیہ تنگ کیے ہوتے ہیں وہ دین سکھاتے ہیں۔ اس طرح
کبھی بھی دین نہیں سکھایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ دین لفظوں سے کم اور اپنے
اخلاق اور عمل سے زیادہ سکھایا جاتا ہے۔ہم اپنے آقائے نامدار حضور نبی کریم
ﷺ کی زندگی کو دیکھیں تو کل تریسٹھ سال کی زندگی میں چالیس سال ان کے نبوت
سے پہلے کے ہیں۔ ان چالیس سالوں میں انھوں نے اپنے عمل سے ، اپنے اخلاق سے
لوگوں کے دل جیتے۔ جب انھوں (ﷺ)نے نبوت ملنے کے بعد ایک پہاڑی پر کھڑے ہو
کر کفارِ مکہ سے یہ کہا کہ اگر وہ کہیں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے دشمن کی
ایک فوج مکہ پر حملہ کرنے آرہی ہے تو کیا وہ یقین کریں گے؟ تو سب بول اٹھے
کہ بالکل۔ کیونکہ ان لوگوں نے آپ ﷺ کو کبھی بھی جھوٹ بولتے ہوئے نہیں دیکھا
نہ کبھی سنا۔ ہجرت کی رات جب آپ ﷺ نے مکہ چھوڑا تو اس وقت بھی ان ہی کفار
کی امانتوں کی ایک بڑی تعداد آپ ﷺ کے پاس موجود تھی۔ کیونکہ وہ اس وقت بھی
آپ ﷺ کو صاد ق اور امین مانتے تھے اور جانتے تھے۔
چالیس سال تک اﷲ پاک رسول اﷲ ﷺ کے کردار کو چمکاتے رہے ۔ کہ اس کردار کی
چمک جب لوگوں کے دلوں پر پڑے تو ان سے آپ ﷺ کی بات سننے اور سن کر ماننے
میں کوئی تاویل نہ بن پڑے۔ پھر جب اعلانِ نبوت ہوا تو صرف بغض میں آکر
انھوں نے دین قبول نہ کیا ورنہ اس وقت بھی آپ کے کردار پر ، اخلاق پر وہ
انگلی نہیں اٹھا سکے تھے۔ جب ابو سفیان سے ہرقل، قیصر روم نے رسول اﷲ ﷺ کے
اخلاق و کردار کے بارے میں سوال کیے تو اس وقت بھی ابو سفیان سے جھوٹ نہ
بولا گیا۔
لیکن اس ماہ مبارک میں جب ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا درجہ بھی ستر اور کئی
سو گنا بڑھ جاتا ہے ، ایسے میں یہ ڈھونگی اور فراڈیے دھڑلے سے دین کے
ٹھیکیدار بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ جو سارا سال جھوٹ کے طومار باندھتے رہتے
ہیں، وہ ماہ مبارک میں دین سکھانے آجاتے ہیں۔ خاص طور پر ایک شخص جو ہر
فرقے کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ وہ تو اپنے آپ کو مکمل دین کا ٹھیکیدار
سمجھتا ہے۔ جی ہاں، بزعمِ خود ڈاکٹر، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین۔۔ پیمرا سے،
حکومت سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی جاتی ہے کہ خدارا ، ان محافل سے عوام کی
جان چھڑائیں۔ کیا چینل کی ریٹنگ بڑھانے کا اور کوئی طریقہ نظر نہیں آتا۔
کیا دین سے کھلواڑ ضروری ہے۔ ؟ یہ درحقیقت وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اﷲ نے
فرمایا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے
لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوتا ہے اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوتا
ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ان پروگراموں کے بدلے میں ایک خطیر رقم وصول
کرتے ہیں۔ لوگوں میں گمراہی پھیلانے کے بدلے میں ان کو پیسے ملتے ہیں۔ تو
حرام تو حرام ہوتا ہے، اس میں اگر بظاہر دنیاوی نفع مل بھی جائے تو آخرت
میں گھاٹے کا ہی سودا ہے۔
******************* |