شام کے چار بج رہے ہیں۔کل رات گیارہ بجے ہلکی سی آندھی
آئی اور کچھ بوندا باندی ہوئی۔صرف اتنی سی بات پر حسب معمول ہمارے گھر کی
بجلی ہم سے ناراض ہو کر چلی گئی۔یہ ناراضگی ہر ہفتے باقاعدگی سے ہوتی ہے
اور کسی کسی ہفتے دو دفعہ بھی ہو جاتی ہے۔ بس معمولی بہانے کی بات ہو تی
ہے۔جس دن بھی رات بارہ بجے کے لگ بھگ یا بعد بجلی چلی جائے ہمیں یقین ہوتا
ہے کہ اس کی واپسی اب صبح نو یا دس بجے سے پہلے ممکن نہیں۔ اور واقعی ایسا
ہی ہوتا ہے۔ ہر تیسرے چوتھے دفعہ یعنی مہینے میں ایک آدھ بار لمبی جاتی ہے
اور شام کو پانچ بجے سے پہلے نہیں آتی۔پچھلے ایک سال میں دو دفعہ رات کو
گئی بجلی تھوڑی دیر میں ہی آ گئی ۔ یہ معجزہ یوں ہوا کہ میں نے صورت حال سے
تنگ آ کر علاقے کے ایگزیٹیو انجینئر کو شکایت بھری ایس ایم ایس کر دی ۔
انتہائی نفیس اور بھلے آ دمی ہیں فوری ایکشن لیا اور فقط دو گھنٹے میں
معجزہ ہو گیا۔ان سے نچلے لیول پر کوئی ء نہیں سنتا۔ مگر کسی بھلے آدمی کو
روزانہ تنگ کرتے مجھے شرم آتی ہے۔ جو لیسکو کے عملے کو بالکل نہیں آتی۔
بجلی نہ ہو تو پانی بھی نہیں ہوتا۔ نہانا دھونا، برتن صاف کرنا، سب مشکل ہو
جاتا ہے۔ فریج کو دو دفعہ کھول لیں تو ٹھنڈا پن فوراًختم ہو جاتا ہے۔ چیزیں
خراب ہونے لگتی ہیں۔ عملاًً احتیاط کے طور پر بیگم گھریلو مارشل لا نافد کر
دیتی ہے اور مجبوری میں سارے گھر کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اس روزانہ کے
معمول کے پیش نظر ہم نے کچھ متبادل انتظامات بھی کئے ہوئے ہیں مگر وہ بجلی
کا متبادل نہیں۔ان انتظامات کی بدولت سردیوں کے دن تو کسی طرح گزار جاتے
ہیں مگر گرمیوں میں سب انتظام دھرے رہ جاتے ہیں۔
آج بھی رات گیارہ بجے بجلی گئی تو یو پی ایس نے سہارا دیا۔ گرمیوں میں
بلبوں کے ساتھ ساتھ پنکھے بھی چلتے ہیں۔ یو پی ایس کا دورانیہ کافی کم ہو
جاتا ہے۔ چار پانچ گھنٹے تک تو یو پی ایس نے بھر پور ساتھ دیا مگر صبح پانچ
بجے سے کچھ پہلے دم توڑ گیا۔ہماری پانی کی موٹر یوپی ایس پر نہیں چلتی۔ ہم
نے اس موٹر کو چلانے کے لئے ایک جنریٹر بھی رکھا ہوا ہے۔آج دو چھوٹے بچوں
کو گرمی سے بچانے کے لئے ہم نے پنکھوں کو جنریٹر پر چلا دیا۔ایک ہزار کا
پٹرو ل ضائع کرنے کے باوجود دو گھنٹے سے کم عرصے ہی میں جنریٹر ہمارا ساتھ
چھوڑ گیا۔میں اور میری بیگم آئندہ کا سوچ ہی رہے تھے کہ ہجرت شروع ہو گئی۔
میرے چھوٹے بیٹے کی بیٹی فقط چھ ماہ کی ہے۔ گرمی کی وجہ سے وہ نہ سو رہی
تھی نہ سونے دے رہی تھی۔ بس شور مچا رہی تھی۔ میرے بیٹے اور بہو نے اسے
لیا۔ہمیں اﷲحافظ کہا اور بہو کی اماں کے گھر وقت گزارنے چلے گئے۔میرے بڑے
بیٹے کی بیٹی دو سال کی ہے۔ کچھ دیر بعد اس کی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔
پتہ چلا کہ وہ پنکھے کے بغیر کمرے میں رہنے سے انکاری ہے۔تھوڑی دیر میں
میرا بڑا بیٹا آنکھیں ملتا ہوا بیگم اور بیٹی کو لئے آیا ۔ میرے کمرے کا
دروازہ کھولا اور یہ بتا کر کہ سسرال جا رہا ہے یہ جا اور وہ جا۔ میں اور
میری بیگم ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ اس عمر میں ہمارا نہ میکہ رہا نہ
سسرال ، کہیں جا نہیں سکتے ۔ فقط مسکرائے اور لیٹے لیٹے گرمی کے مزے لیتے
رہے۔
صبح ساڑھے آٹھ بجے یونیورسٹی میں میری کلاس تھی۔ آٹھ بجے گھر سے نکلنا
لازمی تھا۔ سات بجے اٹھا۔ شیو کی ۔ ٹب میں تھوڑا سا پانی تھا۔ اشنان کیا ۔
بیگم کو حوصلہ دیا کہ بجلی کا آنا اب تھوڑی دیر کی بات ہے ، آ جائے گی
اورخدا حافظ کہہ کر یونیورسٹی آ گیا۔ گیارہ بجے بیگم کا فون آیا کہ بجلی
ابھی تک نہیں آئی۔ پریشانی بڑھ گئی ۔ سب کام چھوڑ کر بجلی والوں سے بات
کی۔جواب ملا کہ پریشان نہ ہوں ابھی آ جاتی ہے۔ یہ ابھی کتنی لمبی ہوتی ہے
مجھے معلوم نہیں کیونکہ لیسکو کے دفتر ابھی چار بجے تک یہی جواب ہے اور
بجلی کا کوئی سراغ نہیں۔لیسکو کا کوئی بندہ پاس ہوتا تو شاید اس کا سر پھوڑ
دیتا کہ جس کرب کا سامنا ہے۔بجلی کی تازہ صورتحال جاننے کے لئے بار بار
اپنی سوسائٹی کے سیکورٹی انچاج کو فون کرتا ہوں کہ کوئی خوشخبری ملے مگر
افسوس۔میری بیگم کے بے انتہا فون آ چکے ۔ یہ تو ممکن نہیں کہ فون نہ سنوں
کیونکہ گھر بھی واپس جانا ہے مگر ہر فون سننے سے پہلے ساری دعائیں جو یاد
ہیں پڑھتا ہوں اورپھر اس خونخوار لہجے اور غضیلی باتوں کا سامنا کرتا ہوں ۔
لیسکو کا غصہ مجھ پر نکل رہا ہے۔بجلی کو آج کسی وقت تو آنا ہے۔دعا ہے کہ
جلدی آ جائے۔ کیونکہ بجلی آئے گی تو گھر کا ایئر کنڈیشن چلے گا جو کمرہ
ٹھنڈا کرے گا۔ ٹھنڈے کمرے کے اثرات میری بیگم کے مزاج پر بھی ہونگے۔ میں
بھی خیریت سے گھر جا سکوں گا۔ یہ پورا عمل کوئی گھنٹہ ڈیڑھ تو لے گا۔ امید
ہے اگر حالات جلد سازگار ہو گئے اور بجلی آ گئی تو آج رات گھر آرام سے سو
سکوں گا ورنہ اﷲحافظ ہے۔
سابق نا اہل وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان سے اندھیروں کا خاتمہ کر
دیاہے۔ لوڈ شیڈنگ ختم کر دی ہے ۔ ان کے جواب میں ایک اپوزیشن لیڈر فرماتے
ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ صرف رائے ونڈ میں ہوا ہے۔ تو بھائی اپوزیشن لیڈر
صاحب ، رائے ونڈ تو میاں صاحب کی رہائش سے پندرہ کلو میٹر ہو گا۔ میرا گھر
ان سے تین چار کلو میٹر پر ہے اور جس طرح شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے
ہیں ، اسی طرح ہم دونوں ایک ہی فیڈر سے بجلی پاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان
کے گھر میں جدید تریں جنریٹر لگے ہوئے ہیں۔ بجلی آئے، بجلی جائے اندر
ایوانوں میں موجود لوگوں کو اس کی خبر کیا ہوا بھی نہیں لگتی۔مین رائے ونڈ
روڈ پر بوسیدہ تاریں اور پرانے کھمبے ہٹا کر نئی تاریں اور نئے کھمبے لگا
دئیے گئے ہیں۔ مگر میرے جیسے لوگوں کے لئے وہی کچھ ہے جو دادا جان کے عہد
کی یادگار ہے۔وہ سب کچھ کیسے تبدیل ہو سکتا ہے۔اپوزیشن لیڈر صاحب کو پتہ
ہونا چائیے کہ اس چراغ تلے اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔فقط اندھیرا۔
میں ایڈن پارک میں رہتا ہوں ۔ یہ اس قدر لا وارث سوسائٹی ہے کہ جس قدر بھی
ماتم کیا جائے کم ہے۔ سیور ،بجلی ، پانی، ہر چیز کے نام پر فقط جعلسازی کی
گئی ہے۔ مکین چیخ چیخ کر تھک گئے ہیں ۔ اپنی مرضی کے ایک دو مکینوں کو
لوگوں کی امنگوں کے خلاف استعمال کرکے اپنے فراڈ پر پردہ ڈالنے کی کوشش
جاری ہے۔ ایڈن والے آئینی طور پر خود الیکشن کروا کر سوسائٹی منتخب مکینوں
کے سپرد کرنا نہیں چاہتے کیونکہ سپردگی سے پہلے انہیں سکیم کو مکمل کرنا ہو
گا،وہ مکمل کرنا نہیں چاہتے ۔ لوگوں سے لئے پیسے ختم ہو گئے۔اب کیا کریں۔
نامکمل سکیم کو مکینوں میں سے کوئی بندہ اپنے ذمے لیتا نہیں ۔ نیب کو کچھ
درخواستیں بھی دی گئی ہیں شاید وہاں کچھ ابتدا ہو جائے اور سوسائٹی میں
آجکل جو لوگ انتظامی سربراہ بن کر لوٹ مار میں مصروف ہیں اور ایڈن کے
گناہوں پر پردہ ڈالنے میں ان کے شریک کار ہیں وہ بھی اپنے انجام سے دو چار
ہوں ۔ لیسکو کو اس سوسائٹی کے بجلی کے معاملات اور نیب کواس کے دیگر
معاملات پر توجہ دے کر اس کے مکینوں کو اک عذاب مسلسل سے نجات دلانی ہے۔ |