ایس ون کو فوراً ہی اس واقعہ کی اطلاع مل گئی اور وہ ایک
مرتبہ پھر تلملا اُٹھا۔ رازی۔ آخر کب تک چھپے رہو گے ۔ ایک بار میرے سامنے
آ جاؤ پھر میں دیکھتا ہو ں کہ کون تمہیں بچا تا ہے ۔ غصے کے عالم میں اس نے
شیر ون کو طلب کیا۔
شیر ون کے گھٹنے کانپنے لگے۔ اس نے رازی والا پلندہ اُٹھایا اور ایس ون کی
جانب چل پڑا۔
اگر تم اپنے فرائض نہیں نبھا سکتے تو سیٹ خالی کر دو۔ کسی دوسرے سے یہ کام
لے لیں گے۔
ایسی کوئی بات نہیں سر۔ یہ دیکھیں میں نے دن رات ایک کر کے اتنا کچھ معلوم
کر لیا ہے۔جلد ہی رازی کا راز بھی ظاہر ہو جائے گا۔ آپ فکر نہ کریں۔
کابینہ مجھ پر ہنسنے لگے گی تو پھر میں فکر کروں گا ۔ یہ آخری وارننگ ہے۔
اگر اس بار بھی تم ناکام رہے تو یہ مشن تم سے واپس لے کر کسی اہل شخص کو دے
دیا جائے گا۔
اب تم جا سکتے ہو۔
ایس ون نے شیر ون کو بھیجنے کے بعد سپر مین سے رابطہ قائم کیا۔ سپر مین سے
رابطہ اتنا آسان کام نہیں ہوتا مگر اُن کے درمیان ہاٹ لائن تھی ۔ ایس ون نے
چھوٹتے ہی سپر مین سے سوال پوچھا کہ رازی کے متعلق کیا معلوم ہواہے۔
ہماری ایجنسیاں دن رات اسی کام میں مصروف ہیں تاحال کچھ معلوم نہیں ہو سکا
کہ یہ رازی کیا ہے۔
آج پھر
والوں نے ہماری دس جوان اُڑا ڈالے ۔ اگر تم کچھ نہیں کرو گے تو پھر تمہارا
ہم سے زیادہ نقصان ہو گا۔ ایس ون نے کہا۔R
ہمیں تم سے زیادہ فکر ہے۔ گھبراؤ نہیں ۔ گھبرانے سے کام بنتے نہیں بگڑتے
ہیں۔
اگرچہ سپر مین کو ابتدائی معلومات مل چکی تھیں کہ رازی کوئی شخص نہیں ہے
بلکہ کوئی تنظیم ہے مگر اُس نے یہ معلومات ایس ون تک پہنچانا مناسب نہ
سمجھا تھا۔ کیونکہ دوستی کے باوجود دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے
تھے اس لئے وہ ایک دوسرے سے خار رکھتے تھے مگر مشترکہ مفاد کے لئے ایک تھے
۔ سپر مین ، ایس ون کو احسان مند کرنا چاہتا تھا تا کہ اس کے بدلے میں وہ
کوئی بڑا کام اُس سے لے سکے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے رازی کے متعلق صاف صاف
انکار کر دیا۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
رئیس احمد ناصر نہایت ذہین بلکہ فطین فارن آفیسر تھا۔ وہ بہت سے ملکوں میں
کام کر چکا تھا ۔ ہندوستان سے اسے مار پیٹ کرنکا لا یا گیا تو اُسے امریکا
بھیج دیا گیا ۔ وہاں کے حالات اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اسلام اور
پاکستان کے ساتھ زیادتیوں کے بارے میں چپ نہ رہ سکاتو اسے پیرسونا نان
گریٹا(ناپسندیدہ شخصیت) بنا کر واپس بھیج دیا گیا۔ واپس آ کر اُس نے نوکری
کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا اور اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کر
دئیے ۔ اس کے دل میں ہر وقت یہ کڑہن رہتی کہ مسلمانان عالم کا جو چہرہ دنیا
کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے وہ نہیں ہے ۔ اس نے اقوام متحدہ میں ملازمت کے
دورانمتعدد بار پمفلٹ بھی لکھ کر تقسیم کئے مگران کا کوئی اثر نہ ھوا ۔ اُس
کے ذہن میں یہ بات ہر وقت رہتی کہ کس طرح مسلمانوں کو ذلت کے گڑھے سے نکالا
جا سکتا ہے ۔ اِسی دوران حضرت صاحب کے ٹرسٹ کے بارے میں علم ہوا تو وہ
بھاگا بھاگا اِ س میں شامل ہو گیا۔ حضرت صاحب چہرے سے دل کی بات معلومکر
لیتے تھے انہوں نے دیکھا کہ یہ شخص اپنی کاز سے بہت مخلص ہے ۔ اُنہوں نے
اُسے اپنا خاص مشیر بنا لیا۔ اور میڈیا والا منصوبہ اُس کے سپرد کر دیا کہ
وہ ہی اِسے قائم کرے اور وہ ہی اسے چلائے۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
ریاض علوی کمرے میں داخل ہوا تو رئیس احمد ناصر نے پرتپاک طریقے سے اُس کا
خیر مقدم کیا۔
ریاض علوی نے اپنا C.Vاُس کے سامنے رکھا۔ رئیس احمد ناصر نے اُسے پڑھا اور
نظریں اٹھا کر ریاض علوی کی طرف بڑے غور سے دیکھا۔
ہمیں ایسے لوگ درکار ہیں جو ہمارا میڈیا چلا سکیں آپ تو بند کروا دیں گے۔
رئیس نے پہلا سوال کیا۔
وہ کیسے سر!
آپ تو ہر جگہ ضمیر کے قیدی رہے ہیں ۔ آپ اپنے ضمیر کی بات کو ترجیح دیتے
ہیں ایسے تو کاروبار نہیں چلتے۔
تو کیا سر۔ یہاں بھی کاروبار۔
ہاں۔ رئیس احمد ناصر نے سخت لہجے میں کہا۔
میڈیا اپنی مشہوری کیلئے نہیں بزنس کے لئے بنایا جاتا ہے ۔
مگر سر آپ کا اشتہار اور اس میں بتایا گیا مشن۔
وہ ہاتھی کے دانت ہو تے ہیں ۔
کیا تم ہمارے ٹرسٹ میں شامل ہو کر ہماری مرضی کے مطابق کام کرو گے ۔
جی اگر ضمیر پر بوجھ نہ ہوا تو۔
ہمارا مقصد مال کمانا ہے ۔ ضمیر کی آواز بننا نہیں ۔
ہم بلیک میل بھی کریں گے ۔ انفارسر بھی بنیں گے۔ اور میڈیا کے ذریعے
مسلمانوں کے دشمنوں سے مال اکٹھا کریں گے۔ ریاض علوی حیران ہوتا رہا پھر
اُسے غصہ آ گیا اور اُس نے اپنے کاغذات سمیٹے ۔ اور اٹھ کر دروازے کے جانب
چل پڑا۔ مجھے یہ توقع نہ تھی کہ ایسے ادارے بھی غداروں کی آماجگاہ ہیں ۔
اگر یہ باتیں میرے علم میں ہوتی تو میں ادھر کا رخ بھی نہ کرتا ۔ اس کا م
کرنے سے بہتر ہے کہ آدمی بھوکا مر جائے ۔ اور آپ کے لئے مشورہ ہے کہ
آپ۔۔۔۔۔۔
رئیس احمد ناصر نے اُسے ٹوکا ۔ اس سے آگے کچھ مت کہنا۔ اور۴ ایک آخری شرط
بھی سنتے جاؤ ۔
وہ کیا؟
یہ کہ ہمیں تمہارے جیسے باضمیر افراد ہی درکار ہیں ۔ یہ کہہ کر ناصر اپنی
کرسی سے اٹھا اور علوی کو گلے لگا لیا۔ میں نے مطلوبہ شخص تلاش کرلیا۔ اﷲ
تیرا شکر ہے۔
آج کے بعد ہم تم دونوں مل کر یہ میڈیا آرگنائز کریں گے ۔ ریاض علوی کی
آنکھوں سے جیسے آنسو آ گئے ۔ اُس نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور کام کرنے کی
حامی بھر لی۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
|