بے حسی

دیا خان بلوچ،لاہور
ہر روز کی طرح میں اس دن بھی اسکول کی طرف جارہی تھی صبح کا وقت تھا اور دیر ہو رہی تھی،یونہی چلتے چلتے نظر اٹھی تو دیکھا ایک درمیانی عمر کا آدمی زمین پر گرے موٹے سے کا غذ کو اٹھا رہا تھا۔ اس کی سائیکل کی پچھلی سیٹ پر ایک پینٹ کا ڈبہ رکھا تھا اس کو دیکھ کر مجھے لگا یہ مزدور ہے اور اس نے یہ کاغذ کا ٹکڑا بھی اس لئے اٹھا یا ہے کہ پینٹ کے وقت استعمال کرے گا۔چونکہ وہ بہت آہستہ سے سائیکل چلا رہا تھا اس لئے مجھ سے کچھ ہی فاصلے پر تھا ،وہ ایک جگہ رکا جہاں لکھا تھا ’’مقدس اوراق اس باکس میں ڈالیے‘‘۔ اس نے وہ کاغذ کا ٹکڑ ا اس میں ڈالا اور اطمینان سے آگے بڑھ گیا۔

میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ میں کیا سوچ رہی تھی اور حقیقت کیا نکلی۔ دلوں میں ایمان زندہ ہے ابھی بس ذرا سا جگانا ہے۔ دودن پہلے کی تصویریں میری نظروں کے سامنے گھومنے لگی تھیں،جہاں لہو سے سجے حافظ قرآن تھے تو کہیں مصحف۔ بھلا اس دن کی صبح کا آغاز کیسا ہوا ہوگا؟ یقینا عید کے جیسے۔۔۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو نئے کپڑے اور خوشبوؤں سے مہکتا بھیجا ہو گا، کچھ نے نظر بد کا حصار بھی کھینچا ہوگا۔ بہنوں نے بھائیوں کے لئے مٹھائی تیار کر رکھی ہوگی کہ آتے ہی سب سے پہلے ان کا منہ میٹھا کرواؤں گی۔ دعاؤں میں رخصت کیا ہوگا۔۔۔ وہاں کا منظر کیا ہوگا بھلا۔۔۔

جہاں تک نظر جاتی تھی ہر چہرے پہ ایک انوکھی خوشی نظر آتی ہے،کچھ تو مسکرا رہے تھے،کچھ اپنی مسکراہٹ کو چھپانے کی ناکام کوشش میں مصروف تھے۔ ارے ذرا آگے دیکھو یہ معصوم سا فرشتہ نظریں جھکائے بیٹھا ہے ایسے جیسے دولہا ہو۔ ہر طرف پھولوں کی خوشبو تھی۔ والدین کا سر فخر سے بلند تھا کہ آج ان کے بچوں نے قرآن کو اپنے سینوں میں اتار لیا تھا۔ان کی آنکھوں میں میں خواب تھے۔کچھ تو اپنے ساتھ چھوٹے شہزادوں کو بھی لائے کہ دیکھو بیٹا، چند سال بعدآپ نے بھی اسی طرح اس مدرسے کا طالبعلم بننا ہے۔ وہ ننھے فرشتے یہاں سے وہاں مسکاتے پھر رہے تھے۔ لمبی قطاریں، سفید جنتی لباس پہنے، ہاتھوں میں سجی اسناد، گلے میں پھولوں کی مالا اور سروں پہ سجی دستار۔

واہ کیا دلکش منظر تھا۔۔۔اے کاش کہ یہ منظر کبھی نہ بدلتا۔۔۔لیکن کسے خبر کہ اگلے پل کیا ہونے والا ہے،لمحوں میں منظر بدلا۔۔۔زوردار دھماکوں سے فضا گونج اٹھی ،ہر طرف چیخ و پکار سنائی دیتی تھی ،ابھی جو فضا پھولوں کی خوشبو سے معطر تھی وہ اب بھی معطر تھی لیکن خون کی خوشبو سے،جہاں سفید لباس تھے وہاں اب سرخ پیرہن تھے۔وہ خواب جن کی ابھی تکمیل ہونی تھی وہ ہمیشہ کے لئے ادھورے رہ گئے تھے۔وہ انتظار کرتی آنکھیں پتھرا جائیں گی لیکن وہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔جن گھروں سے جنازے اٹھتے ہیں صرف وہی اس کرب کو محسوس کرسکتے ہیں ۔نہ کوئی ذکر ہے نہ کوئی پوچھنے والا ہے ،کیوں کیا وہ ہم میں سے نہیں ؟وہ ہمارے اپنے نہیں؟

شاید ہم بہت مصروف ہیں اپنے فنکشنز میں، اپنی پارٹیز میں، اپنی ذات میں۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون شہید ہوا کیسے ہوا، بے گناہ تھا یا مجرم تھا، خبر ہے تو صرف اپنی۔ تو بتاؤ کیا ہم انسان ہیں؟ ہم میں انسانیت ہے، اگر ہے تو سوچو،بولو اور ثابت کرو۔ میں وہ لفظ کہاں سے لاؤں جو اس درد کو بیاں کر سکیں،وہ حوصلہ کہاں سے لاؤں جو تم کو دلاسا دے سکوں۔ زبان گنگ ہے، قلم رک سے گئے ہیں کیا لکھوں اور کیسے لکھوں؟؟ ہر طرف ایک ہی پکار ہے میرا قصور کیا تھا؟ میرا قصور کیا تھا؟ میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں۔دل تڑپ رہا ہے ،لبوں پہ دعا ہے یارب العالمین ہم پر رحم فرما۔اس ظلم سے اب نجات دلا۔ آمین۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1021160 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.