مائیں ، ہمت کی کرنیں ……

کالم برائے خصوصی ایڈیشن بسلسلہ ـ’’مدرز ڈے‘‘

ماں ، ایک مقدس ہستی ہے اور پیارے نبی ﷺ کے بعد دنیا میں والدین اور بالخصوص ماں کے رشتے کو بنیادی اہمیت بخشی گئی ہے ۔ دنیا میں آنکھ کھولتے ہی جس پہلے فرد کو دیکھا جاتا ہے ، وہ ماں ہوتی ہے جبکہ نومولود بچے کی جانب سے پہلا پکارا جانے والا لفظ بھی ماں ہی ہوتا ہے ۔ یہ وہ ہستی ہے جس کی انگلی پکڑ کر ہم نے پہلا قدم اٹھایا ہوتا ہے ۔ رب تعالیٰ کی جانب سے روز قیامت اولاد کو ماں کے نام سے پکارے جانے کی بات اس کے جنم دینے سے لیکر ہمارے نامہ اعمال کی جانچ تک کے سفر کے دوران اس کی اہمیت کو مزید واضح اور اجاگر کرتی ہے ۔ ماں وہ فرشتہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ ، چاہے جیسا بھی سلوک کریں ، وہ ہر دم ہمارے لئے فکرمند اور ہم سے مخلص رہتی ہے ۔

معروف شاعر انور مسعود اسی ضمن میں اپنی نظم کے ذریعے ایک سچا واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ کنجاہ کے سرکاری سکول میں تدریس میں مصروف تھے کہ ان کا طالبعلم بشیر کچھ تاخیر سے سکول پہنچتا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دوست اکرم اپنی ماں سے لڑ کر سکول آیا ہے ۔ استفسار پر بشیر مزید بتاتا ہے کہ اکرم نے اپنی ماں کو لکڑی (مدھانی) سے اس قدر پیٹا کہ مدھانی ٹوٹ گئی ۔ اس کے باوجود ماں نے زخمی ہاتھ ، سوجے ہوئے لبوں اور چہرے کے ساتھ اپنے ناراض بیٹے کیلئے پراٹھے اور حلوہ بنایا اور اس کے کلاس فیلو بشیر کے ہاتھ سکول بھجوایا ، کہ اس کا بیٹا آج بھوکا چلا گیا ہے ۔ ماں بشیر کو یہ تاکید بھی کرتی ہے کہ راستے میں دیر نہ کرے کیونکہ بھوک کی وجہ سے اکرم کی آنتیں سوکھ رہی ہوں گی ۔ یعنی جس بیٹے سے وہ اکثر مار کھاتی رہتی تھی ، اسی کے لیے اس ماں کا دل تڑپ رہا تھا ۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اکرم ہمیشہ تمہیں مارتا ہے ، مگر تم……؟ ؟۔ تو وہ یہی جواب دیتی : ’’ماں ہوں ناں‘‘ …… انور مسعود کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ماں کے کردار پر یہ نظم لکھنے کیلئے ہمت جمع کرنے میں انہیں دس سال لگے ۔

ماں کی حیثیت اس مالی کی سی ہے جو زمین میں بیج بو کر دن رات محنت کرکے اس کی آبیاری کرتا ہے یہاں تک کہ وہ تناور درخت بن جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں وہ اس چھاؤں سے فیضیاب ہونے پر فخر محسوس کرتی ہے ۔ ماں کی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ہستی خود بھوکا رہ کر ، اپنا پیٹ کاٹ کر ، ہمارا پیٹ بھرتی ہے ۔ کبھی فرصت ملے ، تو ماں ، باپ کی قربانیوں پر ضرور سوچئے گا کہ انہوں نے ہمارے لئے کیا کچھ کیا اور ہم بدلے میں کیا دے رہے ہیں ۔

مائیں اپنی ذات کیلئے کبھی نہیں سوچا کرتیں ، شاید اسی لئے وہ اپنے حصے کا کھانا بھی نہیں بنایا کرتی ۔ بلکہ اکثر وہی کھاتی ہیں جو ہم چھوڑ دیتے ہیں ۔ یعنی ہمارا بچا ہوا کھانا ہی اس کی فیورٹ ڈش ہوتی ہے ، اور وہ اسی پر خوش اور مطمئن رہتی ہے ۔ مجھے آج تک یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ماں نے کھانا بناکر یہ کہا ہو کہ یہ اس کی پسندیدہ ڈش ہے ، آج یہ کھاؤ …… یا مجھے فلاں ہانڈی پسند تھی ، سو یہ آج میں نے اپنی مرضی سے بنائی ہے ۔ اس نے ہمیشہ ہم سے پوچھا کہ آج کیا پکاؤں؟۔ وہ یہی کہتیں کہ یہ سالن آج میں نے اپنے فلاں بیٹے یا بیٹی یا خاوند کی فرمائش یا پسند کا بنایا ہے ۔

ماں چاہے ہماری اپنی ہو یا ہمارے بچوں کی ، عمومی مزاج دیکھا جائے تو ہم نے انہیں ہوٹل والا بنا رکھا ہوتا ہے ۔ عموماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک گھر میں دو ، چار بہن بھائی ہوں تو سب کی الگ الگ پسند ، علیحدہ علیحدہ فرمائشیں ہوتی ہیں اور ماں ان سب کیلئے الگ الگ کھانا بناتی ہے ۔ جو کہتے ہیں پکاتی ہے ، سارا سارا دن ، ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر ، مشین کی طرح لگی رہتی ہے ، لیکن مجال ہے کہ ماتھے پر کوئی شکن نظر آئے ، یا تھکاوٹ کا احساس بھی دلا دے ۔ یہ تو وہ بے دام مزدور ہے جو اپنے تھکے وجود کے ساتھ بھی اپنی فیملی کی خدمت کیلئے کولہو کے بیل کی طرح جتی رہتی ہے ۔ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ماں نے آج اپنے لئے کیا پکایا ، یا خود کتنا کھایا ۔ پھل ہوں تو وہ بھی صرف چکھنے پر انحصار کرتی ہے کہ بچے کھالیں ، میری خیر ہے …… ایسے ہی کپڑوں کا معاملہ ہوا کرتا ہے ۔ ماں تو اپنے لئے نئے کپڑے بھی نہیں سلواتی ۔ خود پرانے کپڑوں پر گزارا کر کے بچوں کیلئے نئے لباس کو ترجیح دیتی ہے ۔ اس کی محبت اور شفقت جہاں بے غرض ہوتی ہے ، وہیں کسی بھی حال میں مطمئن اور مسرور رہنا اور دل میں صلے کی آرزو نہ رکھنا بھی شاید اس کی گھٹی میں شامل کردیا گیا ہے ۔ صبر اور حوصلہ شاید ماؤں کیلئے ہی بنایا گیا تھا یا پھر شکایت اور شکوہ جیسے الفاظ تک اسے رسائی نہیں دی گئی ۔ اگر کبھی ایسی نوبت آ بھی جائے تو بیچاری خود سے ہی لڑتی ہے ، خود سے ہی شکایت کرتی ہے ۔

انسان تو پھر انسان ہے ، جانوروں میں بھی مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں ۔ آپ کسی مرغی ، بلی یا پرندے کے بچوں سے چھیڑ خانی کریں تو دیکھئے کہ بچوں کے دفاع میں وہ کس قدر مضبوط اور جارح بن جاتے ہیں ۔ کمزور ہوتے ہوئے بھی ان میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو آنکھیں دکھانے کی ہمت آجاتی ہے ۔

ماؤں کے کردار پر جس قدر بھی بات کی جائے کم ہے ۔ تاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں نصف فیصد سے زائد مائیں محنت کی پوٹلی اٹھائے حصول رزق کیلئے سڑکوں ، گلیوں ، دفاتر ، کارخانوں میں ماری ماری پھرتی ہیں ۔ بیک وقت گھر ، روزمرہ امور اور پیشہ ورانہ زندگی (دفتر) کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں ۔ بلاشبہ ایسی مائیں قابل تحسین ہیں ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مرتبہ کا مدرز ڈے ، ہمت کی انہی کرنوں کے نام ہونا چاہئے …… نیز میڈیا کو بھی چاہئے کہ دیگر سے زیادہ ان ماؤں کو ہائی لائٹ کرے ، جو ریاضت کی بھٹی میں دن رات جلتی ہیں پھر بھی صبر کرتی ہیں ۔ یہی ان ماؤں کا حوصلہ اور ہمت بڑھانے کا صحیح طریقہ بھی ہے …… وگرنہ اپنے اپنے گھروں میں تو ہم ماؤں کیلئے کوئی نہ کوئی سرگرمی کر ہی رہے ہوں گے …… میں گذشتہ کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ میڈیا پر مذکورہ سے زیادہ دیگر ماؤں کو ڈسکس کیا جاتا ہے جو یا تومعروف ہوتی ہیں ، یا معروف شخصیات کی ماں ہوتی ہیں ۔ عمومی اور بالخصوص محنت کرنے والی مائیں ہمیشہ نظرانداز کی جاتی ہیں ۔ ایسی مائیں ہمیں دفاتر کے علاوہ سبزی کا ٹھیلہ یا پھل کی ریڑھی لگائے ، کسی دکان میں بطور سیلزمین ، فیکٹری ، کارخانہ میں بطور مزدور ، اینٹوں کے بھتوں ، کھیتوں ، ٹریفک اشاروں ، بس اسٹاپوں اور پبلک مقامات پر چھوٹی موٹی اشیاء بیچتی دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ مائیں بھی Success سٹوریز ہیں ۔ غریب یا متوسط سہی ، لیکن ہمت کی داستانیں ہیں ۔ انہیں نجانے کیا مجبوریاں ہیں جو یوں حالات کے ستم سہنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے اپنے گھروں میں یہ مائیں بھی مثالی ہوں گی ۔ اپنی اولادوں اور خاندانوں کیلئے رول ماڈل ہوں گی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ابلاغ کے ادارے انہیں بھی اسی قدر اہمیت دیں ، جتنی دوسری ماؤں کو دی جاتی ہے ۔ یہ ان کا حق ہے کہ ان کی تصاویر بھی اخبارات اور میگزین کے سرورق کی زینت بنیں …… اور خاطر جمع رکھیں ، کہ مائیں سب ہی خوبصورت ہوتی ہیں ۔ مذکورہ مائیں بھی اخبارات کے صفحات اور چینلز کی ریٹنگ کو ہرگز متاثر نہیں کریں گی ۔ بیشک آزما لیجئے ۔

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 82 Articles with 69932 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.