خالی گھونسلا

رقیہ بیگم کا دل کچه عرصے سے بہت بے چین تھا. ان کو لمحہ بہ لمحہ موت کی دستک صاف سنائی دے رہی تھی. وه مرنے سے پہلے ایک بار اپنے بچوں کو دیکھنا چاہتی تھیں. مگر ان کے بیٹے اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ اپنے اپنے گھروں میں شاد و آباد تھے. وه چار بیٹوں کی ماں تھیں ان کو ہمیشہ اس بات کا مان رہا کہ وہ بیٹوں کی ماں ہیں. ہر محفل میں بیٹیوں والی خواتین ان کے آگے پیچھے پهر رہی ہوتی تھیں. مگر ان کے ناک پر کوئی رشتہ نہیں چڑهتا. آخر کار بڑی چهان پهٹک کے بعد انہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت، امیر اور اونچے حسب نسب کی بہوئیں ڈھونڈ لیں. انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کا ولیمہ ایک ساتھ اس شان و شوکت سے کیا کہ لوگ عش عش کر اٹھے.
رقیہ بیگم کو اپنی تربیت پر بہت مان تھا. ان کا خیال تھا کہ اب ان کی بہوئیں اور وہ سکون سے دو کنال کی کوٹھی میں رہینگے. مگر ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا. ان کی دو بہوئیں جو بیرون ممالک کی شہریت رکھتی تھیں وہ اپنے میاں لے کر بہتر مستقبل کے لئے باہر سیٹل ہوگئیں.
تیسرے بیٹے کو اسپیلائزیشن میں برطانیہ میں داخلہ ملا تو وہ وہاں بیوی بچے لے کر چلاگیا.
چوتھے نمبر کے بیٹے کو بھی فوج کی نوکری کے باعث نقل مکانی کرنی پڑی.
اس طرح رقیہ بیگم کا آشیانہ خالی ہوگیا. وہ اکثر بیٹوں کے بیڈروم کهول کر دیر تک ان میں بیٹھی رہتیں.
عزیز کے کمرے میں اس دن انہوں نے کهڑکی کے اوپر ایک گھونسلا دیکھا. اس میں سے ننهے منے چڑیا کے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں. ان کے ہاتھ ایک نیا شغل آگیا. وه روز گھونسلے کے نزدیک باجرہ اور پانی رکھ دیتیں. چڑیا بڑی احسان مندی سے ان کو تکا کرتی. یوں رفتہ رفتہ ان کی اور چڑیا کی دوستی بڑھتی گئی. وه اکثر چڑیا کو اپنے بچوں کے بچپن کے واقعات اور ان کی شرارتیں سناتیں. یوں لگتا تھا کہ وہ چڑیا ان کی ہمدم اور ہمراز بن گئی تھی. آج وه عبید کی سالگرہ کے دن چڑیا اور اس کے بچوں کے لئے خاص برڈ فوڈ لے کر آئیں. مگر آج چڑیا کا گھونسلا سنسان تھا. انہوں نے کرسی رکھ کر اندر جھانکا. تو چڑیا کے بچے اڑ چکے تھے اور چڑیا کی اکیلی اور ٹهٹهری ہوئی لاش کونے میں پڑی تھی.
رقیہ بیگم کرسی سے گر گئیں. درد نے ان کے اندر سے چیخنے کی صلاحیت بھی چهین لی تھی. اب وہ آہستہ آہستہ کلمہ شہادت کا ورد کر رہی تھیں. آخرکار عزرائیل کا مہربان چہرہ نظر آیا. انہوں نے مسکرا کر آخری سانس لیا. عزرائیل کے ساتھ جاتے ہوئے انہوں نے آخری بار مڑ کر اپنے خالی آشیانے کو دیکھا اور ابدی سکون کی طرف قدم بڑھا دیے.
 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 263393 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More