ووٹ پر قومیت کی فوقیت

تحریر : مہک سہیل ،کراچی
پاکستان میں نظریہ، منشور، قابلیت، ایجنڈے اور کارکردگی کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوتی بلکہ ووٹ ذات، برادری، قومیت پر دیے جاتے ہیں،حال کی بات کی جائے تو آج ملک پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ قومیت کا ہے پاکستان کے شہری ایک پاکستان میں رہتے ہوئے کئی قوموں میں بٹے ہوئے ہیں کوئی سندھی کوئی پٹھان تو کچھ مہاجر اپنی قوم کو سب سے آگے لے کر جانے اور اپنا نام منوانے کی جدوجہد میں کوشاں ہیں،اس وقت پاکستان کا ہر شہری کسی نہ کسی قوم سے وابستہ ہے یہ وابستگی غلط نہیں بس اس سے فائدہ اٹہھانے والوں کی تعداد سے پاکستان کو نقصان ہونے کے بہت خدشات ہیں،بات کریں اگر الیکشن میں کھڑی ان لوگوں کی جو خود کسی نہ کسی کاسٹ سے منسلک ہیں یہ وہ ہی لوگ ہیں جو اکثریت کے بجائے اقلیت کے لیے یا یہ کہیے کہ اپنی قوم کے مفاد کو اول رکھ کے سیاست کرتے ہیں ایسے لوگ نہ صرف پورے ملک کے لیے مسئلہ پیدا کرتے ہیں بلکہ سیاست کے نام پر اپنی اور اپنی قوم کی مفاد پرستی کرنے میں سر فہرست رہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نام نہاد لوگوں کو شے دیتے ہیں ، پاکستان میں الیکشن شروں ہوتے ہی پاکستان بٹا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے یہاں لوگ ایک اچھے قابل انصاف پسند سیاست دان کو دینے کے بجائے لوگ ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو انکی قوم کے ہوتے ہیں.پڑھا لکھا اور ان پڑھ طبقہ دونوں ہی برحق سیاست دان چننے کے بجائے اپنے علاقائی نمائندوں کو چنتے ہیں بنا یہ سوچے سمجھے کہ یہ منتخب لوگ اپنے علل اعلان کیے ہوئے دعووں کو پورا کرنے کے قابل ہے بھی یا نہیں اور چند مہینوں بعد پھر یہیں لوگ سڑک پر دھرنوں کی صورت میں جوک در جوک دکھائی دے رہے ہوتے کہ ان کے ہی اقتدار میں لا ئے ہوئے لوگوں نے انکو روٹی کپڑا اور مکان تو کیا ان کو صاف پانی اور صاف ہوا سے بھی ترسا رکھا ہے.انتخابی مہم کے نام پر چند دنوں کے لیے کچھ پیسا خرچ کردینا عوام کے دکھ کا مداوہ کردینا نو دس غریبوں کو میڈیا کے سامنے چند کپڑے اور کھانے کا سامان دے دینا میڈیا کے سامنے چند گھنٹوں عوام کے ساتھ مل کر ہاٹھ میں جھاڑوں پکڑ کر روڈ کی صفائی میں اپنا حصہ ڈال دینا یہ سب صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے پینترے ہیں یہ سارے وہ کام ہیں جو صرف ووٹنگ کے دنوں عوام کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور اگر ان کاموں کو عوام کو بیوقوف بنانے کی ٹیکنیک کہ لیا جائے تو غلط نہیں یہ سب وہ ناکام دعوے ہیں جو الیکشن جیتنے کے فورن بعد ہی سیاست دان یا عوام کے چننے ہوئے معزز پارٹی لیڈر بھول جاتے ہیں اس لیڈرکی اپنی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت تو اسے اسی دن مل جاتی ہے جب وہ قابل نہ ہونیکے باوجود بھی قومیت کی بنا پر بھاری اکثریت سے ووٹ حاصل کرتا ہے پاکستان کی بدحالی کے ذمہ دار صرف یہ جھوٹے دعوے کرنے والے مفاد پرست سیاست دان ہی نیہں بلکہ ان سب کے ذمہ دار خود عوام بھی ہے جو آنکھوں پر پٹی باندھ کر سالوں سے اسی سیاست کو ووٹ دے رہی ہے جس کو ان کے دادا پردادا نے دیا کچھ لوگوں نے ووٹ ماضی میں ان کی خاندانی پسندیدہ پارٹی کو اپنا منشور بنالیا ہے چاہے وہ سیاست دان کتنا بڑا چور اور نااہل ہی کیوں نہ ہو اقتدار میں رہنے والی پارٹیاں عوام کے سامنے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہیں ان سب سے نہ صرف پاکستان کی معاشی ترقی کو نقصان پہنچا بلکہ پوری دنیا میں پاکستانی سیاست دانوں نے پاکستان کا تماشہ بنایاکھیل ہم 60 سال سے دیکھ رہے ہیں کہ جب عوام میں اس نظام سے بیزاری پیدا ہوتی ہے تو چہرے یا حکمران جماعت ہی تبدیل کردی جاتی ہے یا اسی جماعت کے افراد کو لے کر ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کردی جاتی ہے۔ نئے نعرے اور نام سے عوام کو پھر سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں اور بھولی عوام پھر تبدیلی کے نعرے پر بے وقوف بن جاتی ہے۔ پرانے آزمائے ہوئے انجن اور ڈبوں پر مشتمل ٹرین کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچاسکتی۔ جہاں انصاف ٹکڑوں میں ہو بٹا ہوا ہو وہاں پر بے چارا قانون کیا کر سکے گا؟،پاکستان کے اندر مختلف طریقوں سے بد امنی پھیلائی جارہی ہو کبھی زبان کے نام پر کبھی صوبائیت کے نام پر کبھی مذاہب کے نام پر کبھی اقلیتوں کے نام پر کبھی انسانی حقوق کی پامالی کے نام پر کبھی دہشت گردی کے نام پر کبھی ملک کے اداروں کو توڑنے کے نام پر اور اْن کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرنے پر کبھی عدلیہ کو فوج کے خلاف اْکسایا جارہاہو کبھی فوج کو سیاسی نظام میں ملوث ہونے پر طعنے دئیے جارہے ہوں ان سب سے پاکستان کی دوسرے ملکوں کے سامنے کیا امیج بننے گے کیا ردعمل دوسرے ممالک کا ہوگا کہ جب پاکستان اندرونی طور پر کمزور کردیا جایگا تو بیرون ممالک پاکستان کو کیوں نہ ایک کمزور ملک تصور نہیں کریں گے؟عوام یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان کے وفادار رہیں گے تو میں یہی کہوں گی کہ وہ بے وقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہنا چاہتے ہیں. قوم دیانتدار اور باکردار لوگوں کو ووٹ دے گی تو پاکستان کرپشن فری بنے گا۔پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کے مطابق عالم اسلام کا ایک مضبوط قلعہ بنانے کے لیے ایک باکردار اور کرپشن سے پاک خوف خدا رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے.

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 63 Articles with 48678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.