رفعت وحید کی شاعری پر ایک نظر

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی شاعرہ رفعت وحید کی کتاب ــ"سمندراستعارہ ہے"کی تقریب پذیرائی برلاس ہال کشمیر روڈ سیالکوٹ میں منعقد ہوئی جس میں ادب دوست شخصیات کی کثیر تعدادنے شرکت کی۔ اس تقریب میں جو مقالہ پڑھا وہ احباب کی خدمت میں حاضر ہے۔

سب سے پہلے میں محترمہ رفعت وحیدکو شہر اقبال آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں اور انہیں اپنے پہلے شعری مجموعے "سمندر استعارہ ہے" کی اشاعت پردلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

میری ان سے پہلی ملاقات کچھ عرصہ قبل راولپنڈی آرٹس کونسل میں ایک مشاعرے کے دوران ہوئی تھی جہاں مرحومہ فرزانہ ناز،نورین طلعت عروبہ،نسیم سحر،عبدالقادر تاباں ،اسلم ساگر اور دیگر سخن وروں کے جھرمٹ میں وقت کی نذاکت کے پیش نظر انہوں نے ایک مختصر سی غزل کہنے پر اکتفا کیا،مگر اس مختصر وقت میں ذہن رسا کے دمن سے خیالات کے وہ چشمے پھوٹے جنہوں نے سامعین کے چہرہ زیست سے تفکر و تجسس کی گرد کو نا صرف دھو ڈالا بلکہ وہاں موجود سخن شناس لوگوں کی توجہ کو ایک نئے جہان کے نئے رازوں کے انکشاف کی طرف مبذول بھی کیا اور خوب داد سمیٹی۔"سمندر استعارہ ہے" یقینا اسی ایک دانے کی پوری دیگ ہے۔جو تخیلاتی پرواز،جدّتِ انداز،وجدانی کیفیات اور رعنائی و توانائی حیات سے بھرپور ہے۔ہر عمر کے افراد کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان لیے ہوئے آج یہ کتاب ہمارے شہرِاقبال پہنچی ہے جو ہم سب کے لیے باعثِ فخرہے۔
فنون لطیفہ کی سب سے ذیادہ تربیت یافتہ اور سب سے ذیادہ لطیف صورت ادب،یعنی الفاظ کا فن ہے۔سنگ تراشی اور مصوری کے بعد وجود میں آیا۔اور ادب کی سب سے ذیادہ مقبول شکل شاعری ہے اور شاعری کی سب سے ذیادہ بے ساختہ اور سب سے ذیادہ پاکیزہ صنف وہ ہے جس کے لیے فارسی اور عربی میں لفظ ــ"غزل" مستعمل ہے۔رفعت وحید نے بھی اپنے جذبات کے اخراج کے لیے بطور زریعہ غزل کا ہی انتخاب کیا اور اس سے فن کے خوب موتی بکھیرے۔

شاعری کو ساحری بھی کہا گیا ہے۔اچھے شعر کی خوبی یہ ہے کہ وہ ضرب المثل بن کر حوالہ زبان زد وعام ہو جائے۔ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اچھا شعر وہ ہوتا ہے جسے پڑھ کرکچھ لمحوں کے لیے باقی اشعار بھول جائیں۔اور ایسی مثالیں اگر کثرت کے ساتھ نہیں تو جا بجا ضرور نظر آتی ہیں۔کئی جگہ تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ "سمندر استعارہ ہے" ایک کوزہ ہے اور اس میں سمندر بند ہے۔
مجھ میں اک حویلی ہے
اور لگے ہیں در مجھ کو
پل بھر میں سمندر تو بنا لیتی ہوں رفعتؔ
کیوں مجھ سے سمندر کا کنارا نہیں بنتا

خیالات کے لیے عنوان و مضمون کا موزوں چناؤاور پھر اس پر مناسب الفاظ کی خوب صورت بندش کہ جس کے بارے میں بے ساختہ امید جاگتی ہے کہ فلک سخن وری پر ایک دن یہ ماہتاب بن کر چمکے گی۔رفعت وحید نے خود حرف آغاز میں لکھا ہے کہ حرف کی حرمت کا پاس رکھنا انتہائی کٹھن عمل ہے۔ نجانے کتنے رتجگے کاٹنے پڑتے ہیں،کتنا خونِ دل وجان پلا کر سخن کے پیڑ کو ہرا رکھنا پڑتا ہے ۔اور مجھے یہ قول ان کا ذاتی تجربہ لگتا ہے۔ان کی شاعری میں کئی جہتیں نظر آتی ہیں۔کہیں وہ عشق مجازی کی کسی اعلی منزل پر نظر آتی ہیں تو کہیں عشق حقیقی کے کسی منصب پرفائز لگتی ہیں۔اورکہیں عشق مجاز و حقیقت کے مابین دیوانہ وار بھاگتی پائی جاتی ہیں۔ان کی شاعری میں داخلیت و خارجیت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔اکثر وہ آمد و آورد کے خوب صورت سنگم پر کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔اپنے اندر کے احساس محرومی پر کتھارسس کرنے کا انداز بھی خوب نرالا ہے۔انگریزی کے الفاظ کو" اردوانے" کا تجربہ بھی خوب کیا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ پہلے شعری مجموعے کی اشاعت کے لیے انہوں نے ایک طویل اور صبر آزما جدو جہد کی ہے اور تمام آفاقی اور لولاکی ندائیں جو انہیں ودیعت کی گئی تھیں ، ان کوبڑی خوش اسلوبی سے قارئین تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔طویل بحر کو بڑی عمدگی سے قابو کیا ہے اور چھوٹی بحر کا حق بھی کمال ادا کیا ہے۔
یہ تو اک سرائے ہے
دو آئے دو چار گئے

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی عورت شاعری کرتی ہے تو اس پر نسوانیت کا غلبہ ہوتا ہے،لیکن تعجب کے ساتھ ساتھ مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ ان کی شاعری میں جنس سے ہٹ کر انسان بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو بلاشبہ ان کی وسعت مشاہدہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے اچھی کتاب کی تعریف میں کہا تھا کہ
ـ"میرے نذدیک اچھی کتاب کی تعریف یہ نہیں ہے کہ اس میں کچھ اضافہ کیا جا سکے بل کہ اچھی کتاب اسے کہتے ہیں جس میں سے کچھ خارج کرنا دشوار ہو"۔اور اس کتاب کا ہر شعر اپنے اندر ایک الگ ضرورت و اہمیت بن کر اپنی مناسب جگہ پر موجودہے۔"سمندر استعارہ ہے"ایک جسم ہے اور ہر شعر ایک عضو بن کر چمک رہا ہے جس کے انخلا سے معذوری کا شائبہ ہو سکتا ہے۔یہاں ہر شعران کے جذباتی وجدان اور تخیلاتی تگ و دو کی تکمیل کا امین بن کر موجود ہے۔رفعت وحیدصاحبہ خوش نصیب ہیں کہ ان کے پاس فلک سخن وری کے آفتاب احسان اکبرجیسی سند یافتہ ہستی موجود ہیں جن سے "یہ' ' اور" اور " کی توصیح کے علاوہ باقی نکات میں بھی رہنمائی لے سکتی ہیں،جس سے ان کی آگے کی منزل یقینا سہل ہو سکتی ہے۔میں بے انتہا نیک تمناؤں کے ساتھ ان کے روشن دماغ کی شادابی کے لیے دل سے دعاگو ہوں۔ بشکریہ پریس لائن انٹرنیشنل
 

Awais Khalid
About the Author: Awais Khalid Read More Articles by Awais Khalid: 36 Articles with 34800 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.