مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے چینل جو کچھ
ہمیں دکھا رہے ہیں وہ ہمارے ہعاشرے اور مذہب کی ہر گز عکاسی نہیں کرتے ہیں
ڈرامے تو ڈرامے ہی ہیں اشتہارات بھی ایسے ایسے دکھائے جاتے ہیں کہ شرم آ
جاتی ہے پاکستانی چینل کو لوگ اپنی فیملی کے ہمراہ دیکھتے ہیں اس لئے ایسے
پروگرام ہونے چاہیں جو سب مل بیٹھ کر دیکھ سکیں اگر صبح کے مارننگ شو لے
لیں تو ان میں بھی ناچ گانا عروج پر ہوتا ہے ہمیں بامقصد شو پیش کرنے چاہیں
جن سے عام پبلک کو فائدہ ہو نہ کہ بیہودہ پروگرام پیش کئے جائیں مسلمان ملک
ہوتے ہوئے بھی کسی بھی چینل پر اذان نہیں ہوتی اور اذان کے دوران ہی ایسے
اشتہارات چلائے جاتے ہیں یا پروگرام جاری رہتے ہیں اگر ان تھوڑی دیر روک کر
اذان ہو جائے تونماز پڑھنے والوں کے لئے آسانی ہو جائے گی کیونکہ بعض اوقات
پروگرام میں مگن اذان کا پتہ نہیں چلتا کہ کب اذان ہوئی آج میں ایک خبر
پڑیھ رہا تھا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم صادر کیا ہے کہ ہر چینل
کو اب اذان نشر کرنی ہوگی یہ یقیناً خوش آئیند بات ہے اور ہر پاکستانی کی
آواز ہے کہ یوں تو ہم ہر فضول پروگرام دکھاتے ہیں لیکن اذان نشر نہیں کرتے
دوسرے چینلوں کی دیکھا دیکھی پی ٹی وی نے بھی اذان نشر کرنی بند کر دی تھی
حالانکہ ہم بچپن سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ پی ٹی وی پر اذان نشر ہوتی رہی ہے
بہر حال دیر آئے درست آئے اب حکم صادر ہو چکا ہے اور تمام چینل پانچ وقت کی
اذان نشر کرنے کے پابند ہیں اب یہ واضح نہیں کہ کیا یہ حکم صرف رمضان کے
لئے ہے یا رمضان کے بعد بھی اذان نشر ہوتی رہے گی میری بھی ہائی کورٹ سے
استدعا ہے کہ اسے پورا سال جاری رہنا چاہیئے کیونکہ اس کا تعلق ہمارے مذہب
سے ہے پہلے ہی ہماری نوجوان نسل مذہب سے دور ہوتی جارہی ہے اور ان میں ناچ
گانے کا رحجان بڑھ رہا ہے اس کے علاوہ ہائی کورٹ نے تمام چینل پر نیلام گھر
اور سرکس کو بند کرنے کا حکم صادر کیا ہے تا کہ رمضان کو بہتر اور پورے
مذہبی انداز سے گذارا جا سکے ہمیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رمضان بہترین تحفہ
ملا ہے اس میں ہم اپنی غلطیوں کی معافی مانگ کر بخشش کروا سکتے ہیں اس
مہینے میں ہمیں نیکی کرنے،گناہوں سے دور رہنے،صبر اور شکر کا درس ملتا ہے
اس مہینے میں ہم جتنی بھی عبادت کریں کم ہے پیمرا نے بھی تما ٹی وی چینل کو
رمضان کے حوالے سے گائیڈ لائن دے دی ہے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے مزید کہا کہ
اگر رمضان میں سرکس پروگرام جاری رہے تو ان چینل پر پابندی لگا دیں گے
انھوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے لئے اذان سے بڑی بریکنگ نیوز کوئی نہیں
ہے انہوں مزید کہا کہ اگر چینل نے ایسا ہی چلنا ہے تو پاکستان کے نام سے
اسلامی جمہوریہ ہٹا دیں پاکستان میں 117 چینل ہیں اور جسٹس صاحب نے ان کی
تفصیل مانگ لی ہے کہ کتنے چینل پر اذان نشر کی جاتی ہے اذان صرف رمضان میں
نہیں بلکہ پورا سال نشر کی جانی چاہیئے کوئی بھی مسلمان اذان سننا چاہتا ہے
کیونکہ اس سے بھی نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے اس سے پہلے بھی پیمرا کو ٹی وی
چینلز پر ایسے اشتہارات،ڈرامے اور مارننگ شو دکھانے کی شکایات موصول ہوچکی
ہیں اور یقیناً پیمرا نے اس پر ایکشن بھی لیا جس کی وجہ سے کچھ کمی آئی ہم
ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں ہماری اپنی اسلامی روایات ہیں ہر شخص چاہتا ہے
کہ اس کی اولاد کی پرورش اسلامی رو سے ہو لیکن جب ہمارے نوجوان ٹی وی پر
مغربی لباس زیب تن کئے ہوئے کردار دیکھتے ہیں تو وہ بھی ایسا ہی لباس پسند
کرتے ہیں جس میں ان کا جسم پوری طرح سے ڈھکا ہوا نہیں ہوتا ہم اپنی نوجوان
نسل کو جو کچھ دکھائیں گے وہ اسی کی نقل کریں گے تمام معاشرہ ایسا نہیں ہے
ابھی بھی بہت سے لوگ اپنی اولاد کی تربیت اور پرورش پر زور دیتا ہیں بہت کم
ایسے ماں باپ ہیں جو خود بھی آزاد ہیں اور اپنے بچوں کی تربیت بھی ایسے ہی
کرتے ہیں ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں آتے میں نمک کے برابر ہیں ہمارے نوجوان
انہی چینلز پر ایسے پروگرام دیکھتے ہیں جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے
نوجوانوں کے لئے اصلاحی پروگرام شروع کرنے چاہیں تا کہ وہ معاشرے کا ایک
بہترین شہری بن سکیں اس کے علاوہ نوجوانوں کے لئے ایسے پروگرام ترتیب دینے
کی ضرورت ہے جس سے وہ ہنر مند بن سکیں یا پھر ان کا رحجان اس طرف مائل کیا
جا سکے کیونکہ ڈگریاں ہوتے ہوئے بھی ہمارے نوجوان بے روز گاری کا شکار ہیں
اور اگر وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنر مند بن جائیں گے تو وہ اپنے اور اپنے
خاندان کے لئے بہتر روز گار حاصل کر سکیں گے نوجوانوں سے بھی میری درخواست
ہے کہ وی ایک رات میں امیر بننے کے خواب نہ دیکھیں بلکہ اپنی محنت اور مشقت
سے آگے بڑھیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نوجوان انتہائی محنتی ہیں لیکن
ان کو ایک گائیڈ لائن دینے کی ضرورت ہے اس وقت پاکستان میں 60% سے زیادہ
نوجوان ہیں ہمیں ان کی اعلیٰ تربیت کر کے انہیں ملک کے لئے کارآمد شہری
بنایا جا سکتا ہے ریاست کا فرض ہے کہ ان نوجوانوں کے لئے روز گار کا
بندوبست کرے اس کے علاوہ انہیں ہنر مند بنانے کے لئے بھی ریاست کو بھر پور
کوشش کرنی چاہیئے گو کہ پنجاب میں ایسے ادارے بن چکے ہیں جو نوجوانوں کو
مفت ٹیکنیکل تعلیم مہیا کر رہے ہیں لیکن ان کی تعدا ابھی بھی کم ہے ایسے
اداروں کی تعداد میں اضافہ کرنا ضروری ہے امید کرتا ہوں کہ ہمارے چینلز اور
ریاست نوجوانوں کے لئے ایسے پروگرام شروع کریں گے جن سے ان کی اصلاح ممکن
ہو اور وہ ایک اچھے شہری بن سکیں۔
|