ہمارے زخموں کو مرہم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت ہے

فخر موجودات ،ساقی کوثر ،شافع محشر ،رحمت اللعالمین ، مراد المشتاقین ،راحت اللعاشقین ،شفیع المذنبین ،حبیب کبریا سیدنا محمد مصطفی ؐ کی سیرت مبارکہ وہ آئینہ ہے جس سے انسان اپنے حسن اخلاق کی لطافت ،انداز سخن کی جولانی ،کردار کابانکپن،اعمال حسنہ کی عطر بیزی ،معاملات و معاشرت کی اثر آفرینی کو ناصرف پرکھ سکتا ہے بلکہ جہاں جہاں جس موڑ پر رہنمائی اور ضرورت درستگی ہو تو آئینہ سیرت ؐ سے صحابہ کرامؓ کی طرح رہنمائی لیتے ہوئے نہ صرف خامی کو دور کرسکتا ہے بلکہ مقصد زیست کو کما حقہ پورا کر سکتا ہے ۔

سیرت نبوی ؐ ایک ایسا وسیع سمندر ہے جس میں دینی و دنیاوی ہر مرض کی دوا موجود ہے سیادت و قیادت ،معیشت و معاشرت ،نظام مملکت و امور خانہ داری،حقوق اللہ و حقوق العباد ، مقننہ و انتظامی ڈھانچہ سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کی کامل و مکمل رہنمائی موجود ہے اگر یوں کہا جائے تو بالکل صحیح ہوگا کہ دینی و دنیاوی مسائل کا جو حل محسن انسانیت ؐ نے تجویز کیا اس سے بہتر حل پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے ،جس چیز کو محبوب مالک کائنات ؐ نے جس انداز میں دیکھا اور سمجھایا اس کی اس سے بہتر حالت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،امراض انسانیت کی جو تشخیص طبیب دوعالم ؐ نے کردی اس سے زیادہ جامع و مانع تشخیص کی ہی نہیں جاسکتی ،صحیح اور غلط کی محبت اور نفرت کی ،اتفاق اور اختلاف کی جو کسوٹی حکم ربانی سے محبوب رب العالمین ؐ نے بنااور بتا دی اس سے بہتر کسوٹی بنائی ہی نہیں جاسکتی ۔

آپ ذرا دیکھیں اورسوچیں تو سہی کہ ریگزار عرب میں پیدا ہونے والے پتھر دل انسان زمانہ جاہلیت میں کیسے کیسے انسانیت سوز امراض میں مبتلا تھے اورپھر وحدت الٰہی کے پیغامبر ؐ نے کیسے حیرت انگیز طور پر چند سالوں کے مختصر عرصہ میں ان خونخوار لوگوں کے مختلف ہجوموں کو ایک وحدت انسانیت کی لڑی میں پرو دیا کہ جو سات سات پشتوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایک دوسرے کے لئے جان تک دینے کو تیار ہوگئے ،وہ ایک ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے کہ دنیا کے بڑے بڑے طاقت ور حکمران جب ان سے ٹکرائے تو پاش پاش ہوکر رہ گئے ،پھران فرزندان تو حید و سنت کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت ،کوئی رکاوٹ ،کوئی لشکر خس و خاشاک سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا تھااور پھر چشم فلک نے وہ نظارہ دیکھا کہ جن پر کوئی حکمرانی کرنے کو تیار نہیں تھا وہ دنیا کے حکمران بن گئے ، یہ تھا وہ انقلاب جو پیغمبر انقلاب ؐ برپا کرنے دنیا میں تشریف لائے تھے جی ہاں یہی ولادت مقصود کائناتؐ کا مقصد تھا ۔

ملک عزیز پاکستان سمیت پورا عالم اسلام اس وقت بستر علالت پر ہے ،خون مسلم کی ارزانی پانی سے زیادہ ہے ،مسلم ماؤں بہنوں بیٹیوں کے تڑپتے لاشے بے بسی کی انتہائی حالت ہے ، عراق ،افغانستان ،مصر ،شام ،لیبیا ،فلسطین ،کشمیر ،برماکے لوگوں کو کلمہ گوئی کی سزا دی جارہی ہے ،پاکستان سمیت مضبوط اسلامی ممالک کو اندرونی سیاسی ،لسانی ،صوبائی اور مذہبی کشمکش کا شکار کیا جارہاہے ، دنیا کے ستر فیصد وسائل کا مالک عالم اسلام جاں بلب ہے ،اس زبوں حالی اور بے بسی کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے کہ ہم نے اب اپنے معاملات کی رہنمائی محسن انسانیت ؐ سے لینے کی بجائے اپنی عقل اور اغیار کے جنبش ابرو سے لینی شروع کردی ہے ۔

ایسی ہی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے طبیب دوعالم ؐ نے کچھ احکامات عطا کئے تھے جنہیں ہم فراموش کرچکے نبی کریم ؐ نے تمام مسلمانوں کے لئے دوست اور دشمن کی نشاندہی کی تھی اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا تھا کہ ان کے ساتھ معاملات کس حد تک کرنے ہیں اور وہ مسلمانوں کے لئے کس حد تک فائدہ مند ہونگے مگر ہم آپ ؐ کے ان پیارے احکامات کو فراموش کر چکے ہیں اسی لئے اب دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہوچکی ہے ، اسی طرح نبی کریم ؐ نے آپسی اختلافات کو وحدت امت کے لئے سنگین خطرہ بتلایا تھا اور اختلاف رائے کی حدودو قیود مقرر کی تھیں مگر آج ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو رحمت دو عالم ؐ کے نام لیوا آپس میں کتنی نفرتیں پھیلا رہے ہیں ،ہم اختلاف کے مقرر کردہ آداب کو طاق نسیاں میں رکھ چکے اسی وجہ سے ہمارا ملک عزیز پاکستان سیاسی ،لسانی ،صوبائی اور مذہبی بارود پر کھڑا ہے آپ ان میں سے کسی بھی عنوان پر ملکی حالات کو خراب کروا دو یا کسی کو بھی قتل کروادو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔

نظام مملکت کیسے چلا یا جائے ؟مقننہ اپنی ذمہ داری کیسے پوری کرے ؟ انتظامیہ اپنے فرائض سے کیسے عہدہ برا ہو ؟ مملکت میں موجود افراد کیسے ہوں ؟ معاشرے کی تشکیل کن بنیادوں پر کی جائے ؟اسلامی تہوار وں کا انعقاد کیسے کیا جائے ؟رفاہی ادارے اور رفاہی کام کیسے کیا جائے ؟فرد کی انفرادی اور اجتماعی حدود وقیود کو ن سی ہیں ؟حکمران کیسے منتخب ہوں اور ان میں کون سی صفات ہونا لازمی ہیں ؟یہ اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق سوالات کے شافی و کافی جوابات صرف اور صرف سیرت النبی ؐ میں پنہاں ہیں اگر ہم اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل حل کرنے میں مخلص ہیں تو اپنی زندگی اور اپنے متعلقین کی زندگی کو اسوہ رسول اکرم ؐ پر لائیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں اور کامرانیاں آپ کی قدم بوسی کے کرنے کو بے تاب ہیں ۔آخر میں بارگاہ رسالت مآب ؐ میں عقیدت کی میری ایک حقیر سی کاوش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آقاؐ میں تیرے چلنے کی ادا پہ قرباں
ترےؐ شہر ،تیرے ؐآنگن ،ترے ؐ گھر پہ قرباں

میرے نیناں تیری ؐ دید کو ترسیں آقاؐ
تری ؐ دید پہ کونین کی دولت قرباں

ابر گہر بار تری ؐ خاموش بیانی آقاؐ
تیرے ؐ نطق پہ دریا کی روانی قرباں

رات تیری ؐ زلفوں کی خیرات ہے آقاؐ
دن تیرے ؐ ہونٹوں کی ہنسی پہ قرباں


 

Sufian Ali Farooqi
About the Author: Sufian Ali Farooqi Read More Articles by Sufian Ali Farooqi: 28 Articles with 31284 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.