امی نے اسے بستر سے اُٹھایا دیکھو دیکھو عامر زلزلہ آیا
ہے۔ اُٹھو وہ ابھی انکھیں ہی مل رہا تھا کہ گھر اسے گھومتا ہوا محسوس ہوا ۔
امی سارے بچوں کو جگاکر باہر نکلنے کا کہہ رہی تھی۔ عامر فورا سے اُٹھا۔وہ
نیچے کی منزل میں رہتے تھے ۔ ایک ذور کی آواز سے گھر نیچے کی طرف زمین میں
دھنسنے کو تھا کہ عامر بھاگ کر بیڈ کے نیچے گھس گیا۔ پورا گھر گِر چکا تھا۔
اس کے امی ابو ،بہن بھائی کہاں تھے وہ نہیں جانتا تھا۔ بیڈ کے چاروں طرف سے
اس نے ملبہ کو ہٹانے کی کوشش کی مگر بہت کوشش کے بعد وہ مایوس ہو کر لمبی
لمبی سانس لینے کی کوشش کرنے لگا۔ اپنے گھر والوں کا خیال آتے ہی وہ رونے
لگتا۔ کافی دیر گزر چکی تھی ۔ وہ خود کو زندہ دفن تصور کر رہا تھا۔ اس کے
دل میں بار بار خیال آتا کیا میں یہاں سے نکل پاوں گا۔ کیا میں مر جاوں گا۔
وہ چوبیس سال کا تھا۔وہ اللہ سے دعائیں مانگ رہا تھا۔ اپنی اور اپنے گھر
والوں کی زندگی کے لیے رو رہا تھا۔ موت کی سچائی اپنی پوری حقیقت کے باوجود
انسان کو متاثر نہیں کر پاتی جب تک وہ زندہ رہتا ہے۔ بیڈ کے نیچے وقت گزار
گزار کر وہ تھک چکا تھا ،بدبو اور خوف سے اس کا بُرا حال تھا ،وہ اپنی پوری
قوت لگا چکا تھا ۔ یہاں تک کہ اب وہ سوچنے لگا تھا ۔ کاش کہ وہ مر جائے ،
مگر موت تھی کہ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔اسے اندازہ بھی نہیں ہو رہا
تھا کہ وہ کس قدر وقت بیڈ کے نیچے گزار چکا ہے۔ اپنے ارد گرد کی گندگی کے
باعث وہ اب سورتیں بھی نہیں پڑھ رہا تھا۔
کب اسے نیند نے اپنی آغوش میں لے کر تھپکی دی ۔اسے اندازہ بھی نہیں
ہوا۔نیند بھی ماں کی طرح ہوتی ہے ۔اس کی آغوش انسان کو اپنا آپ بھلا دیتی
ہے۔سکون کا آنچل اُڑا دیتی ہے۔ نیند میں اسے نہ بدبو کا احساس تھا نہ ہی
بیڈ کے نیچے اس طرح سے قید ہو جانے کی تنگی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک
پرندہ اُڑتا ہی اُڑتا چلا جا رہا ہے۔ اس نے پرندے کی طرف دیکھنا شروع کیا
یہاں تک کہ بلندیوں کوچھوتا ، ہواوں کو چیرتا ہوا نکلتا جا رہا تھا۔ پھر وہ
ساحل سمنرر میں اس کے قریب آ کر مچھلی پکڑ کر کھانے لگا۔ عامر نے پرندے کی
انکھوں میں دیکھا تو اسے عجیب سی اپنایت محسوس ہوئی ۔ عامر نے پرندے کی سرخ
سرخ انکھو ں میں جھانکتے ہوئے۔ اس سے کہا کھانے کی کی چاہ تھی تو اس قدر
بلندی پر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ پرندے نے مچھلی کے سر سے گوشت کو کھینچا
اور مسکرا کر کہا۔ کھانا میرے جسم کی ضرورت ہےاور بلندی میری روح کی تلاش ۔
زندگی کھانے کی تلاش نہیں بلکہ بہتر سے بہترین کے حصول کی تمنا ہے۔جسم مرتے
ہیں تو کسی اور کا کھانا بن جاتے ہیں مگر روح تو مرتی ہی نہیں ۔ہمارے
ساتھیوں میں سے سیکڑوں جاڑے کی وجہ سے مرے پڑے ہوتے ہیں مگر جو بچ جاتے ہیں
باوجود افسوس کے زندگی مل جانے پر شکرانے کے گیت گاتے اورحمد و ثنا کرتے
ہیں ۔ رب نے ہمیں ابھی زندہ رکھا ۔عامر نے اس کی پھر لمبی اُڑان دیکھی جو
اوپر ہی اوپر کو تھی وہ اپنے پروں کو کبھی سکیڑتا تو کبھی کھولتا یہاں تک
کہ اس نے دونوں پروں کو عجیب انداز میں بند کرتے ہوئے نیچے کی طرف خود کو
گرانا شروع کیا تو عامر کو لگا کہ وہ ابھی زمین سے ٹکرائے گا اور مر جائے
گا۔ مگر وہ زمین سے ایک فٹ کے فاصلے پر ہی آ اپنے پروں کو کھولتے ہوئے
آرام سے عامر کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
اس نے اپنی چونچ کو اپنے پروں پر رگڑا اور عامر کی طرف دیکھنے لگا۔ عامر نے
حیرت سے کہا۔ تمہیں موت سے ڈر نہیں لگتا ۔ خود کو اس بلندی سے نیچے گرانا
آسان تو نہیں۔ پرندے نے پھر اپنی سرخ سرخ انکھوں کو گھمایا اور بولا۔ ہر
بار جب میں گِرنے سے بال بال بچ جاتا ہوں تو مذید بلندیوں کو چھونے کا
حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر تکلیف ہمارے وجود کو مذید بہتر بنا دیتی ہے۔ ہم
ذیادہ تکلیف کو سہہ سکنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔عامر نے اس کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا کہ تم آخر اتنی تکلیف سہنے کے لیے تیار کیوں ہوتے ہو۔ ہر لذت تو
زمین پر ہے تو پھر تم بلندی سے اور بلندی کے خواہاں کیوں ہو۔ پرندے نے اپنے
پروں میں منہ کو دیا اور آرام سے سونے کے انداز میں بیٹھ گیا۔
عامر بار بار پرندے کو بلا رہا تھا کہ وہ نہ سننے کی اداکاری کر رہا تھا۔
عامر نے اسے انگلی لگائی تو وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔اس نے عامر کی طرف دیکھ کر
کہا۔تم مجھے انگلی کیوں لگا رہے ہو۔عامر نے انگلی پیچھے کرتے ہوئے کہا،مجھے
لگا تم مر گئے۔ پرندے نے کہا۔ یہی تو کھا پی کر سمجھ لینا کہ کام مکمل ہو
گیازندگی نہیں ہے بلکہ ایسی زندگی تو موت ہی ہے۔ عامر سمجھ گیا تھا کہ
پرندہ اداکاری کیوں کر رہا تھا۔ اس نے عامر کی طرف دیکھا اور کہا سچ تو یہ
ہے کہ میرے ساتھی بھی یہی کرتے ہیں ۔ مگر میں نہیں میرے نزدیک زندگی کا
مقصد صرف خوراک کی تلاش اور پھر جسم لی لذت نہیں ہے۔ زندگی تو روح کی
بالیدگی ہے۔ اپنے آنے کا اصل مقصد تلاش کرنا ہے۔ اپنے وجود کو سخت سے سخت
حالات میں یہ سمجھاناہے کہ ابھی بہتری کی گنجائش ہے۔ ابھی جو حاصل کیا وہ
کم ہے ۔
عامر نے پرندے کی بات سنی تو کہا۔ کہہ تو تم سچ ہی رہے ہو ہم میں بھی سارے
انسانوں میں چند ایک ہی نے زندگی کا اصل مقصد پایا ہے۔ ہم بھی لذات کے حصول
میں لگے ہوئے ہیں ۔ اپنے لیے آسانیوں کی تلاش ہی ہمارے لیے سب کچھ ہے
،یہاں تک کہ اپنی آسانی کے لیے ہم لوگوں کو زندہ قبر میں اُتارنے سے بھی
گریز نہیں کرتے۔ روح کی بالیدگی ۔ بہتری اور اچھائی کی تلاش ۔ آسانی دینے
کی خواہش معدوم ہو چکی ہے۔ پرندے نے اپنی چونچ کو رگڑ کر تیز کیا۔ اس نے
عامر کو بغور دیکھ کر کہا تم اپنی بات کرو۔ سب کو چھوڑو۔ میں جب اُڑان
بھرتا ہوں تو زمان و مکاں کو بھول جاتا ہوں ، یہاں تک کہ اپنے وجود کی تنگی
کو بھی ۔مجھے صرف وسعت ہی وسعت دیکھائی دیتی ہے ۔آسمان کی بلندی اور بلندی
۔ میں نے اپنی ماں سے اس چڑیا کی کہانی سنی ہے جو سورج کی طرف سفر کرتی ہے
اور اس سے روشی کا راز پوچھنا چاہتی ہے۔ میری ماں نے مجھے کہانی سناتے ہوئے
کہا کہ وہ سورج سے ملی اور جل گئی میرے تمام بہن بھائی سمجھ گئے کہ انہیں
بلندی کو نہیں چھونا جبکہ میرا جی چاہا کہ میں بھی سورج بن جاوں ۔ اس چڑیا
نے اپنا وجود روشن کرنے کے لیے اپنے ظاہری وجود کی قربانی دے دی۔ سب کو
سچائی کے حصول کے لیے قربانیا ں دینا ہی ہوتی ہے۔ کچھ نہ کچھ تو کھونا ہی
ہوتا ہے۔میں اُڑنے کی ہر تکنیک کو سیکھنا چاہتا ہوں ، ممکن ہے کہ میں اپنے
ہم جنسوں کو زندگی کے کسی انوکھے راز سے آشنا کر دوں ۔ ذور ذور کی آوازوں
سے اس کی انکھ کھل گئی ۔اسے لگا جیسے کوئی ملبہ کو ہٹانے کی کوشش کر رہا
ہے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا اگر میں زندہ بچ گیا تو میں ایک کہانی
لکھوں گا ،جس میں اس پرندے کی فہم و فراست کو موضوع بناوں گا۔ اس کو اپنے
وجود میں حوصلہ کی ایک لہر محسوس ہوئی ۔ وہ بیڈ جسے وہ قبر تصور کر رہاتھا
اسے گوشہ عافیت نظر آنے لگا جہاں وہ بغیر ہڈیوں کے ٹوٹے آرام سے لیٹا
تھا۔ اس نے اپنے ماں ،باپ بہن بھائیوں سے متعلق سوچا ،پھر ایک گہری سانس لے
کر خود سے کہا۔ ہر انسان کی موت تو آنی ہے ، کوئی مجھ سے پہلے مر گئے،
کوئی مجھ سے بعد مریں گئے ۔میری محبت ان کے لیے کسی صورت کم نہیں ہو گی۔ جس
چیز پر میری اختیار نہیں وہ میں اپنے رب کے سپرد کرتا ہوں اور جس پر میرا
اختیار ہے میں اسے بہتر سے بہترین بنا دوں گا ۔ اب اس کا دھیان بدبو کی
بجائے اس آواز پر تھا جو اسے آ رہی تھی وہ پورے ذور سے چیخنے لگا ۔ پھر
تھک کر خاموش ہو گیا اس نے ملبہ ہٹانے کی از حد کوشش کی یہاں تک کہ ایک بڑی
سِل اپنی جگہ سے تھوڑی سی ہل گئی اسے تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا ۔ اس نے
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔جس نے اسے زندگی دی تھی۔اس نے ذور ذور کی
چیخیں ماری یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے عین اس جگہ سے ملبہ ہٹا دیا ،عامر کو
کھینچ کر ملبہ سے باہر نکال لیا گیا اس نے فوراً اپنے والدین اور بہن
بھائیوں سے متعلق پوچھا۔ ابھی تک کوئی بھی ان میں سے زندہ باہر نہیں آیا
تھا۔ پانچ دن گزر چکے تھے ۔ عامرنے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ کل
نفس ذائقہ الموت۔ہر نفس کو موت کا مزا چھکنا ہے۔ عامر بھی کافی دن ملبہ
ہٹانے میں مددگار کے طور پر شامل رہا۔ آخر کار اس کے تمام گھر والوں کی
تدفین کے بعد اس نے اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کیا۔ ایک خواب نے اسے
زندگی کا مقصد سمجھنے میں مدد دی تھی۔ خواب بھی اللہ تعالیٰ کی حسین نعمت
ہیں۔
اگر وہ یہ خواب نہ دیکھتا تو اپنے ماں باپ کی موت سے ٹوٹ جاتا۔ زندگی کا
مقصد متعین کرنے کی بجائے رونے اور شکائت کرنے میں وقت گزارتا۔ مگر اب عامر
کی زندگی میں بھی زلزلہ آ چکا تھا وہ دن رات اپنی زندگی کو اور دوسروں کی
زندگی کو بہتر بنانے میں مصروف تھا۔ اب وہ جانتا تھا کہ اسے جیتے جی نہیں
مرنا بلکہ مرنے تک اپنی ان تھک محنت مذید بہتری کو کھوجنا ہےجو نہ صرف اس
کی بلندی کا باعث بنے بلکہ دوسروں کی روح کے لیے بھی بالیدگی ہو۔وہ اکثر جب
بہت تھک جاتا تو اس پرندے کو تصور کرتا جو شدید گرمی میں بھی اپنے پروں کو
مذید بلندی کی طرف اُڑنے پر اکساتا ہے ۔ وہ تصور کرتا کہ وہ وہی پرندہ تھا۔
اسے کچھ فرق نہیں پڑھتا کہ اس کے ہم جنس کس قسم کی لذت سے لطف اندوز ہو رہے
ہیں ، اسے تو روح کی تسکین کی خواہش ہے اس سر بلندی کی جو اس کی نسلوں کو
سچائی اور حقیقت کے اور قریب لے جائے۔ |