تہذیب اور ہم

دُنیا میں جتنی بھی اقوام نے ترقی کی ہے چاہے وہ مادّی ہو یا غیر مادّی ، انہوں نے اپنی تہذیب کی ڈور کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ایک شعر بہت ہی عام ہے ’تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ ، تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی‘ اگر اس شعر کو سمجھا جائے تو یہ بات حقیقت ہے کیونکہ تعلیم آپ کو صرف آگاہی دیتی ہے جبکہ تہذیب آپ کو یہ سکھاتی ہے کہ یہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ ہم برصغیر کے مسلمان جنگِ غدر سے قبل تہذیب یافتہ تھے ، تاریخ گواہ ہے جب لارڈ میکالے یہاں آیا تھا تو اس نے سب سے پہلے ہماری تہذیب کا مشاہدہ کیا ، وہ ہمارے درمیان چلا بیٹھا اور یہ بات کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ’میں نے اس سے زیادہ تہذیب یافتہ قوم نہیں دیکھی، ہم اُس وقت تک ان سے نہیں جیت سکتے جب تک ہم ان کو یہ باور نہ کروادیں کہ ان کی تہذیب ہماری تہذیب سے گھٹیا ہے‘ اور پھر وہ اُس مشن پر ڈٹ گیا ، اس نے سب سے پہلی چال یہ چلی کہ انگریزوں کی جو بھی محافل منعقد کی جاتیں وہ اُن میں مُسلمانوں کو بمعہ اہل و عیال دعوت بھیجواتا۔ تاکہ مُسلمان اُن کی مصنوعی نفاست و شرافت سے متاثر ہوں لیکن مُسلمان صرف مردوں کی شکل میں جانے لگے ، اس نے دریافت کروایا کہ ان کی بیگمات کیوں نہیں آتیں ، بتایا گیا کہ ان کی عورتیں صرف خواتین کی محافل میں جاتی ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ انگریزوں کی عورتوں کو باقاعدہ یہ سکھایا گیا کہ انہوں نے کس طرح یورپی تہذیب کو پیش کرنا ہے اور پھر مُسلمان خواتین کیلئے خاص طور پر مستورات کی محافل کا انعقاد کیا جاتا جہاں صرف عورتیں ہوتیں اور اسی دوران آہستہ آہستہ مُسلمان مرد وں کو شامل کیا جانے لگا پھر انگریز مردوں نے بھی آنا جانا شروع کیا اور یوں مخلوط محافلوں کا انعقاد کیا جاتا۔ مُسلمان عورتوں کا لباس کچھ وقتوں بعد ہی بدلنے لگا اور یوں مُسلمان اپنی تہذیب اور حیاء کو بھولتے گئے اور دھیرے دھیرے انگریز قوم نے برصغیر کو اپنی مُٹھی میں کرنا شروع کردیا ، جنگِ آزادی کی شکست۸۵۹۱ میں جب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو اپنے قبضے میں کرلیا تو مُسلمانوں کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی ۔ ایسے وقت میں جب ہم اپنی تہذیب کو بھول چکے تب کچھ ہستیوں نے مُسلمانوں کو اُن کی زندگی کا مشن یاد دلایا ۔ لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد ہم نے جب ایک اسلامی ریاست حاصل کرلی جہاں ہم نے اپنی تہذیب کو پروان چڑھانا تھا ، حادثاتی طور پر اچھے راہنماء اﷲ کے حضور تشریف لے گئے اور ہم پھر اپنی تہذیب کو بھول گئے ۔ لیکن ابھی بھی وقت ہے کیونکہ ہم نے اپنا سب کچھ کھو دینے کے بعد بھی کچھ اچھی چیزیں یاد رکھی ہیں ، اس وقت دُنیا کا سب سے طاقتور مُسلمان مُلک پاکستان ہے جس کے اپنے بہت سے ایٹمی ہتھیار ہیں ، اس کے علاوہ ہم دُنیا کی سب سے زیادہ عطیات دینے والا مُلک ہیں۔ لیکن ہمیں اپنی تہذیب کو پھر سے یاد کرنا ہے کیونکہ لارڈ میکالے نے ہمارے بارے میں ہی کہا تھا کہ ہم دُنیا کی سب سے اچھی تہذیب کے حامل ہیں۔

Abdul Mustafa
About the Author: Abdul Mustafa Read More Articles by Abdul Mustafa: 5 Articles with 9037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.