’’میرے رب نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ
کفار کی سرکوبی کے لیے جدید و قدیم اسلحہ کی
بے پناہ قوت سے تیار ہیں اور دشمنان ِ اسلام پر ایسا رعُب ڈالیں کہ وہ ان
کی طرف آنکھ
اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت بھی نہ کر سکیں‘‘۔
وطن ایمان ہوتا ہے اور ایمان کی حفاظت جان سے بڑھ کر کرنا ہر صاحب ِ ایمان
کا اوّلین فریضہ ہونا چاہیے۔ اس کی حفاظت ہماری ناموس اور عزت کی حفاظت ہے
اور کالی کملی والے کے نا م لیواؤں کے مقدس جذبات کی حفاظت ہے۔ پاکستان کا
دفاع میری خودی کا تحفظ ہے، میری انانیت کی جان ہے۔ میری قومی تہذیب کی
نشوو نما ہے۔میرے ایمان کی کلیوں کی شگفتگی ہے۔ یہ چمنستانِ رنگ و بُو جسے
لاکھوں شہیدوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے، ہزاروں عصمتوں نے بُجھ کر جس
کے چراغ جلائے ہیں۔ سینکڑوں بچوں نے نیزوں کی اَنیوں پر بُلند ہو کر جس کی
اذانیں کہی ہیں۔ ستلج اور بیاس نے جس کے لہو سے اپنے ساغر بھرے ہیں، مجھے
جان سے زیادہ عزیز ہے کیونکہ یہ میرا وطن پاکستان ہے۔
کوئی بھی قوم اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتی ۔ دفاع جتنا بھی مضبوط ہو گا
، قوم بھی اتنی ہی شاندار اور مضبوط ہوتی ہے۔ قوموں کی زندگی میں کچھ دن
انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کے باعث ان کا تشخص ایک غیور اورجرأت
مند قوم کا ہوتا ہے۔چھ ستمبر 1965 ء کی صبح آج بھی اسی طرح جلوہ طراز ہے،
جب بھارتی افواج نے اچانک لاہور پر حملہ کیا مگر پاک افواج نے اپنی سرحدوں
کی حفاظت کا حق ادا کر دیا۔ دشمن ملک نے سترہ دن حملے کیے مگر وہ لاہور میں
داخل نہ ہو سکے۔ دوران ِ جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اُسے دشمن
کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔ نوجوانوں کی نظریں نہ تو دشمن کی نفری
اور عسکری طاقت پر تھیں اور نہ ہی پاکستانی عوام کا دشمن کو شکست دینے کے
سوا کوئی اور مقصد تھا۔تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔ اساتذہ،
طلبہ، شاعر ، ادیب، فنکار، گلوکار، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار، مزدور ،
کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ
اے مردِ مجاہد ! جاگ ذرا ، اب وقت ِشہادت ہے آیا
ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحدـ’’ رن آف کچھ‘‘ پر طے شدہ قضیہ کو
بھارت نے بلا جواز بڑھایا، فوجی تصادم کے نتیجے میں ہزیمت اُٹھائی تو یہ
اعلان کر دیا کہ آئندہ بھارت، پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے اپنی پسندکا محاذ
منتخب کرے گا۔ اس کے باوجود پاکستان نے تمام ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ
اقدام نہ کئے تھے۔صرف اپنی مسلح افواج کو معمول سے زیادہ الرٹ کر رکھا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح اچانک حملہ کی صورت میں آناً فاناًساری قوم
، فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی
ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔
صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایمان افروز اور جذبۂ مردِ مجاہد سے
لبریزقوم سے خطاب کی وجہ سے ملک (اﷲ اکبر ، پاکستان زندہ باد) کے نعروں سے
گونج اُٹھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے اس جملے
’’ پاکستانیو! اُٹھو لا الہ الا اﷲ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اور دشمن کو
بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ ان کے اس خطاب نے قوم کے اندر گویا
بجلیاں بھر دی تھیں۔ پاکستانی فوج نے ہر محاذ پردشمن کی جارحیت اور پیش
قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اور پیشہ روانہ مہارتوں سے روکا نہیں،بلکہ انہیں
پسپا ہونے پر مجبور بھی کر دیا تھا۔ لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے
سپوتوں نے سنبھالا، جان کا نذرانہ پیش کر دیا مگر وطن کی زمین پر دشمن کا
ناپاک قدم قبول نہ کیا۔چونڈہ کے سیکٹر پر (بھارت کا پسندیدہ اور اہم محاذ
تھا) پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ و بارُود سے نہیں ، اپنے جسموں کے
ساتھ بم باندھ کر بھارتی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ علاوہ ازیں
سیکٹر قصور، کھیم کرن اورمونا باؤ سیکٹرز کے بھی دشمن کو عبرت ناک شکست اس
انداز میں ہوئی کہ اسے فوجی ساز و سامان ، ٹینک، جیپیں اورجوانوں کی وردیاں
تک چھوڑ کرمیدان سے بھاگنا پڑا۔ 1965 ء کی اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں
ریاستی عوام اور فوج متحد ہو کر ہی لڑتی اور جیت سکتی ہیں۔ہمارے شہیدوں کی
روحیں آج بھی اس کی عصمت کی حفاظت کے لیے سینہ تانیں کھڑی ہیں۔پاکستانی قوم
نے اپنے ملک سے محبت اور مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت اور جانثاری کے
جرأت مندانہ جذبے نے مل کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور لوگ کہہ اُٹھے۔
ا ے وطن! تُو نے پکارا تو لہو کھول اُٹھا
تیرے بیٹے، تیرے جانباز چلے آتے ہیں
اب دفاع پاکستان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اندر طاقت کا ایسا خزانہ جمع کریں
جو جنگلوں، پہاڑوں،صحراؤں اور سمندروں، ہواؤں اور فضاؤں میں مدت العمر لڑنے
کے بعد بھی ختم نہ ہو۔ہم صرف اپنی افواج پر ہی تکیہ نہ کریں بلکہ ہم میں ہر
فرد ایسا پہاڑ بن جائے جس سے ٹکرا کر دشمن پاش پاش ہو جائے اور ایسا سیلاب
ِ تند وتیز بن جائیں جس میں دشمن کی شان و شوکت خس و خاشاک کی طرح بہہ
جائے۔ ایسا طوفان موجزن ہو جو دشمن کی تن آوری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔اپنی
صفوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کر کے وحدت ِقوم کا نا قابل ِتسخیر حصار قائم
کریں۔ہمیں آج بھی اُس بے مثال جذبۂ حر ّیت کی ضرورت ہے اور لازوال قربانیوں
کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہے۔
دیے سے دیا ہم جلاتے رہیں گے
وطن سے اندھیرے مٹاتے رہیں گے
سجاتے رہیں گے حقیقت کی راہیں
زمانے کو منزل دکھاتے رہیں گے |