ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر دین پر کتنا عمل
کیا جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے اگر کسی سے کچھ کہا جائے تو جواب ملتا ہےان
باتوں کو رہنے دو خوشی کا موقع ہے۔ کیا خوشی کے موقع پرہم دین اور اسوۂ
حسنہ پر عمل کےپابند نہیں ہوتے؟ اس سے بڑھکر ظلم یہ کہ ہم اپنی من پسند
باتوں رسموں کو دین کا مقدس جامہ پہنادیتے ہیں جیسے جہیز فاطمی کا مسئلہ
ہےاگر کسی کو جہیز سے منع کیا جائے تو فورا جواب ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام
نے بھی اپنی بیٹی فاطمہ رضہ کو جہیز دیا تھا۔ مہر فاطمی تو ایک حقیقت ہے
مگر جہیزفاطمی حقیقت ہے یا افسانہ؟ آئیے دیکھتے ہیں
حدیث میں ہے کہ جھز رسول اللہ۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں پلو دار
چادر، مشکیزہ، اذخر (گھاس) بھری ہوئی تکیہ دیا ۔نسائی( 3392)
مندرجہ بالا حدیث نسائی میں ہے اور سند ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں
۔۔ سنن ابن ماجہ 4152میں صحیح روایت میں یہ مضمون موجود ہے مگر دوسری
روایات اور اس وقت کے عام حالات کی روشنی میں مطلب واضح ہے کہ انتظام کیا
نہ کہ روایتی جہیز دینا مراد ہے۔
مولانا منظور نعمانی صاحب معارف الحدیث میں لکھتے ہیں کہ
ہمارے ملک کے اکثر اہل علم اس حدیث کا مطلب یہی سمجھتے اور بیان کرتے ہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں( چادر، مشکیزہ، تکیہ) اپنی
صاحبزادی حضرت فاطمہ کے نکاح کے موقع پر جہیز کے طور پر دی تھیں، لیکن
تحقیقی بات یہ ہیکہ اس زمانے میں عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو
جہیز کے طور پر سامان دینے کا رواج بلکہ تصور بھی نہیں تھا اور جہیز کا لفظ
بھی استعمال نہیں ہوتا تھا اس زمانے کی شادیوں کے سلسلے میں کہیں اس کا ذکر
نہیں آتا
حضرت فاطمہ کے علاوہ حضور کی دوسری صاحبزادیوں کے نکاح کے سلسلے میں بھی
کہیں قسم کے جہیز کا ذکر نہیں آیا حدیث کے لفظ" جہز" کے معنی اصطلاحی جہیز
دینے کے نہیں بلکہ ضروریات کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں حضرت فاطمہ
کے لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کا انتظام حضرت علی رضہ
کاسرپرست ہونے کی حیثیت سے انہی کی طرف سےاور انہی کے پیسوں سے کیاتھا
کیونکہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھر میں نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔ روایات سے اس کی پوری
تفصیل معلوم ہوجاتی ہے بہر حال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا۔"
تفصیل اس کی یوں ہے
یہ سب جہیز فاطمی سے ضمیر کی تسلی کے لیے جواز نکال لیتے ہیں حالانکہ رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تین اور صاحبزادیاں بھی تھیں کوئی شخص جہیز
زینبی یا جہیز ام کلثومی یا جہیز رقیہ کا حوالہ نہیں دیتا ۔اور اگر آپ (صلی
اللہ علیہ وسلم) نے اُسی نیت سے حضرت فاطمہ رضہ کو جہیز دیاجس طرح آج ہم
دیتے ہیں تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ناانصافی اور عدم مساوات کا ایک
الزام ہے نعوذباللہ۔ کیسے ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) دوسری بیٹیوں
کو کچھ نہ دیتے اور صرف فاطمہ رضہ کودیتے؟
جب کہ پہلی دو صاحبزادیوں کی شادی کے وقت تو حضرت خدیجہ رضہ یعنی ان کی
والدہ زندہ تھیں اور مالدار بھی تھیں ۔حضرت زینب کا نکاح حضرت ابوالعاص بن
ربیع رضہ سے اور حضرت رقیہ رضہ کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضہ سے ہوا تھا۔
حضرت زینب رضہ کو حضرت خدیجہ رضہ نے اپنا ہار دیا تھا لیکن یہ واقعہ نبوت
سے بھی کافی پہلے کا ہے ۔ ہوسکتا ہے گھر کی پہلی بیٹی جب رخصت ہورہی ہو ،
دلہن کے کپڑوں میں سج رہی ہو ، ایسے وقت میں ماں کی ممتا امڈ آئی ھو اور
ماں نے اپنا ہار پہنا دیا ہو لیکن اس کو جہیز سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔
ورنہ جہیز ہوتا تو حضرت خدیجہ رضہ باقی بیٹیوں کو بھی ضرور کچھ نہ کچھ
دیتیں۔
پھر گیارہ ازواج مطہرات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ھوئی مگر جہیز کا
کچھ ذکر نہیں
صحابہ کرام کی شادیاں ھوئی ھیں جہیز غائب، حالانکہ پیغام نکاح، ولیمے،
رخصتی، دلہن کی قمیص، چھوٹی بچیوں کے گیتوں کا ذکر روایات میں آتا ہے۔
آج بھی عرب معاشرے میں اس کا ذکر نہیں بلکہ عرب سن کر حیرت کا اظہار کرتے
ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ جھز کا لفظ انتظام کرنے کے معنی میں
سورہ یوسف آیت 70 میں اورصحیح بخاری 371روایت میں تیار کرنے کے معنی میں
استعمال ہواہےاسی طرح دیگر مقامات پر انتظام وبندوبست کا معنی کیا جاتا ہے
نہ کہ روایتی جہیز کاورنہ مطلب غلط ہو جاتا ہے۔
ویسے بھی یہ مردانہ غیرت کے خلاف ہے بیوی کی کمائی معیوب تو بیوی کا لایا
ھواجہیز معیوب کیوں نہیں؟ کیا بیوی کی رخصتی کےساتھ غیرت بھی رخصت ھو جاتی
ہے۔ اسلام میں عورت ذات کی ذمہ داری باپ،بھائی اور خاوند و بیٹے پر ڈالی
گئی ہے۔ اور میراث میں بھی اس کیلئے معقول حصہ مقرر ہے ۔
جہیز دراصل ہندوانہ رسم ہے کیونکہ ھندؤں کے ھاں بیٹی کا میراث میں حصہ نہیں
ہے لہذا وہ رخصتی کے وقت اسے کچھ دے دیتے ہیں ان ھی سے یہ رسم مسلمانوں میں
آئی یہی وجہ ہے کہ جو مسلمان قومیں ہندؤں کے قریب رہی ہیں ان میں بنسبت
دیگر مسلم اقوام کے جہیز کی رسم ذیادہ ہے مثلاً میمن برادری اور ہندوستان
سے ہجرت کر کے آنے والے لوگوں میں بنسبت پختون برادری کے یہ رسم ذیادہ ہے
اور ان اقوام کے ساتھ رہنے کی وجہ سے کراچی کی پشتون برادری میں بھی یہ رسم
آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے
انڈین فلموں یا پڑوسی برادری کی وجہ سے دولہابننا سہرا باندھنا،مہندی، کارڈ
،ھال وغیرہ کے رواج سادگی وسہولت جیسی کم خرچ اور بابرکت دینی ثقافت پر
غالب آرھے ھیں۔ اور جب اس غلبے تلے دب جائیں گے تو پھر دوسری برادریوں کی
طرح رونے پیٹنے اور افسوس سے ہاتھ ملیں گے مگر ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔مسلمانوں
کا عمومی طور پر ہندوستانی معاشرے والا حشر ھونے والا ہے
ذرا ملاحظہ کریں
انڈیا کی پارلیمان میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2012 سے2014 میں تین برس کے
درمیان جہیز کے لین دین سے منسلک 24,700 اموات درج کی گئیں۔
نیشنل کرائم بیورو کے ریکارڈ کے مطابق سنہ 2012 میں 8,233 نئی شادی شدہ
خواتین کی جہیز کے لین دین کے حوالے سے موت ہوئی۔
سنہ 2013 میں 8,083 اور 2014 میں 8,455 نئی شادی شدہ خواتین موت کا شکار
ہوئیں۔اوسطا 22عورتیں روزانہ۔ تین سالوں میں25ہزار قتل۔۔۔ بی بی سی
اردو4اپریل 2016
ہندوستان میں جہیز کا یہ خطرناک پہلو ہمارا مستقبل بھی ہے اور اس بات کی
دلیل بھی کہ واقعی جہیز ایک ھندوانہ رواج ہے اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں
ہے۔ رہ گیا جہیز فاطمی تو اس کی حقیقت بیان ھو چکی بقول اقبال
ذرا سی بات تھی، اندیشہ عجم نے اسے
بڑھادیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے |