آپ زرا تاریخ کے صفحوں کو
کھنگالیئے آپ کا شاندار ماضی آپکو عظمت رفتہ کی یاد دلائے گا اسے پڑھ کر آپ
کو اپنی گم گشتہ طاقت کا اندازہ کرنے میں آسانی ہو گی شاید کہ سوئی ہوئی
غیرت جاگ اٹھے اور مسلم دنیا پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو کر غلامی کا طوق
اتار پھینکے جو ہمارے گلوں میں زبردستی ڈال دیا گیا ہے۔ گیارھویں صدی کا
اختتام ہے قسطنطنیہ کے بادشاہ نے ترکوں کی یلغار سے خوفزدہ ہو کر کے پاپائے
روم سے مدد کی درخواست کی۔ جس پر پاپائے روم نے اس موقع کو غنیمت جانتے
ہوئے بیت المقدس مسلمانوں سے چھیننے کا اور صلیب کی آزادی کی مقدس صلیبی
جنگ قرار دے کر پچاس ہزار مسلح افراد اور سات ہزار نائیٹس روانہ کر دیے جب
اتنی بڑی تعداد قسطنطنیہ پہنچی تو شاہ قسطنطنیہ کو ان سے خوف محسوس ہوا کہ
کہیں وہ اسکے اقتدار کے لئیے خطرہ نہ بن جائیں اس نے مزید پیسے دے کر انہیں
یروشلم روانہ کر دیا۔ اس دور میں مسلما نوں کی آپس کی چپقلش کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے صہونیوں نے بڑھ کر یروشلم پر قبضہ کر کے بیت المقدس میں درندگی
اور قتل عام کا ایسا مظاہرہ کیا کہ مسلمان او ر یہودی صفحہ ہستی سے مٹا دیے
گئے۔ صلیبیوں نے اپنا اقتدار قائم کرکے بادشاہت کی بنیاد رکھ دی ۔یہ وہ دور
تھا جب مسلمان تفرقے میں بٹ کر خود مختار ریاستوں میں بٹتے جا رہے تھے ۔
فاطمی دور میں قاہرہ کے عظیم الشان جامعہ سے ملے محلات کے پرشکوہ ایوان
گذشتہ کئی سال میں کشت و خون کے کئی ہنگامے دیکھ چکے تھے۔ ایک طرف باجبروت
خلفاء کے مزار اور امراء کے مقبرے غفلت اور نکبت کا شکار ہو چکے تھے ۔ ان
کے دودزدہ کھنڈروں میں بدووں کے خیمے نظر آئے تھے ۔دوسری طرف مسلمانوں کی
مرکزیت سے لاتعلقی جس کے باعث ہمیں ایسے سانحے سے دوچار ہونا پڑا۔ مسلمان
دنیا میں علماء اور مذہبی اسکالر اس سانحے پر دم بخود رہ گئے اور وہ اس سوچ
میں پڑ گئے کہ اتنا بڑا سانحہ مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہوا کہ قرآن کے ماننے
والوں کا اتنی بیدردی سے قتل عام ہوا۔ ضرور کوئی کوتاہی ہوئی ہے اور اللہ
کی مدد ہمارے ساتھ نہیں ہے ۔ اور ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے رستے کو بھلا
دیا ہے۔
اسلئے قرآن سے راہنمائی حاصل کی جائے کہ اس میں بیان کئے اللہ کے احکامات
پر عمل پیرا ہو کر اپنی دھاک دشمن پر بٹھا سکتے ہیں۔ پہلے اس وقت تک حفاظ
ہی اللہ کے احکامات قرآن شریف پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ قرآن کی بڑے پیمانے
پر اشاعت کا کام شروع کر دیا گیا کہ ہر شخص کی دسترس میں ہو اور وہ اسے پڑھ
کر راہنمائی حاصل کرے۔ یہ آگ آہستہ آہستہ سلگتی رہی اور مسلمان بیت المقدس
کی آزادی کے لئیے جہاد کی تیاریاں کرنے لگے۔ شام اور اردن پر جذبہ جہاد سے
لبریز مملوکوں نے عماد الدین کی سرکردگی میں اپنا مضبوط غلبہ حاصل کرلیا کے
اسلامی قوانین کا نفاز کر کے امن و آمان قائم کر دیا۔
بارھویں صدی عیسوی کا اختتام ہے۔ عمادالدین کا جانشین فرزند نورالدین نے
عماد الدین کے مشن کو اور آگے بڑھایا مسلمانوں میں جہاد کی نئی روح پھونکی
جس کا مقصد اس خطے سے صہونیوں کا مکمل انخلا اور بیت المقدس پر قابض قوتوں
کا خاتمہ جو پچھلی آٹھ دہائیوں سے اس پر قابض تھیں۔ اس کے ساتھی حفاظ اپنے
ساتھ رکھتے جو قرآن کی آیات پڑھتے رہتے تھے جس کے نتیجے میں جذبہ شہادت کو
تقویت ملتی اور جس سے اسکے ساتھی صہیونی علاقوں پر پے درپے حملے کر کے
انہیں پیچھے دھکیلنے میں مشغول تھے۔
مصر کا فاطمی خلیفہ اس مذہبی ابھرتی ہوئی قوت کو اپنے اقتدار کے لئے بڑا
خطرہ سمجھتا تھا۔ بوڑھا ہو چکا تھا اسکی یادداشت بھی متاثر ہو چکی تھی بس
عیش و عشرت میں مشغول رہتا تھا اسکی حکومت برائے نیم ہی رہ گئی تھی اصل
اقتدار وزیر کے ہاتھ میں تھا وزیر ہی حقیقی مختار اور آمر تھا۔خلیفہ کی
شخصیت محض نمائشی ہو کر رہ گئی تھی۔
خلیفہ اور اسکے سازشی وزیر نے ایک مرتبہ صہونیوں کو دولت دے کر نورالدین کی
فوج سے بھڑوا دیا تھا۔ دوسری مرتبہ انہوں نے یروشلم کے مسیحی حکمران کی
یلغار روکنے کے لئے شیر کوہ کو مدد کے لئے بلایا تھا ۔ اس سے صہونیوں کے
حوصلے بہت بلند ہو گئے۔ اب انکی نظریں مصر کے خزانوں پر تھیں۔ ان کے نزدیک
مصر کی فتح کے بعد ہی صلیبی حقیقی غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔جب مصریوں کو اصل
صورتحال کا اندازہ ہوا تو خلیفہ نے نورالدین سے مدد کی درخواست کی جس پر
نورالدین نے اپنے سالار شیر کوہ کو بہت بڑی فوج کے ساتھ صلیبوں کی مکمل
سرکوبی کے لئے روانہ کیا تو صہونی مسلمانوں کی قوت دیکھ کر شدید ضربات کی
تاب نہ لا کر قسطنطنیہ سے مزید کمک لانے کے بہانے کر کے فرار ہو گئے ۔ اب
نورالدین کے سالار نے قاہرہ کا رخ کیا ۔ اور وہاں پہنچتے ہی سازشی وزیر کو
قتل کر دیا جس پر خلیفہ نے اسے اپنے دربار میں وزارت سے نوازا۔ لیکن اسے
دمشق واپس جانا پڑا اور نورالدین نے صلاح الدین کو اسکی جگہ بھیج دیا۔ صلاح
الدین نورالدین کی فوجوں کے ساتھ عیسائیوں کے خلاف کئی مرتبہ مارکوں میں
شریک ہوا اور وہ جذبہ جہاد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔
صلاح الدین نے قاہرہ پہنچ کر وہاں کا اننتظام سنبھالنے کے لئے بڑی تبدیلیاں
کیں اور اپنے اعتماد کے لوگوں کو اہم ذمہ د اریاں دے کر سازشی عناصر سے جان
چھڑا لی اس سے مصر کے حالات میں کافی بہتری آئی اور لوگ صلاح الدین کو پسند
کرنے لگے۔ جب حالات پر مکمل دسترس حاصل کر لی تو ساتھیوں کے مشورے سے فاطمی
خلیفہ کو معزول کر کے مصر کو عباسی خلافت کے ماتحت کر دیا۔ اب مصر کا
اقتدار مکمل طور پر صلاح الدین کے ہاتھ آ گیا۔
اب اس نے اپنی فوج کی تربیت انہی خطوط پر شروع کی اور شوق شہادت سے لبریز
جانثاران نے اس کی آواز پر لبیک کہا۔ ادھر نور الدین جب اپنی فوج لے کر
عیسائیوں پر حملہ کرنے جاتا پیچھے صلاح الدین بھی اپنی فوج لے کر جاتا۔ اب
اس خطہ میں دو قوتیں صہونیوں کے لئے خطرناک شکل اختیار کر چکی تھیں۔ جس کا
مقصد صہونیوں سے بیت المقدس آزاد کرا کر ان کا خطہ سے مکمل انخلا تھا۔ اسی
دوران دمشق کے حاکم نورالدین کی موت کی خبر ملی اس سے بیت المقدس کی آزادی
کا منصوبہ کمزور ہوتا محسوس ہوا۔
لیکن صلاح الدین نے اس جذبہ میں اور شدت پیدا کر کے عیسائیوں پر شدت سے پے
در پے حملے کر کے شدید جانی اور مالی نقصانات سے اتنا لاغر کر دیا کہ تمام
اہم عیسائی قلعے سرنگوں ہو گئے ۔ وہ تاوان اور معاہدوں پر مجبور ہو گئے
جیسے ہی معاہدوں کی مدت ختم ہوئی صلاح الدین قہر خداوندی کی طرح صلیبیوں کی
متحدہ لشکر پر ٹوٹ پڑا اور انہیں عبرت ناک شکست سے دوچار کر دیا اور بالا
آخر بیت المقدس کو اسلامی عملداری میں واپس لے لیا۔
یہ عملداری ۱۹۶۰ تک قائم رہی اسے صہونیوں نے پھر اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے۔
مسلمان آج بے بس ہیں آج کوئی خلافت موجود نہیں ہے۔ کیا سلطنت عثمانیہ کے
خاتمے اور مسلمان حکمرانوں کے اتحادیوں سے مراسم انہیں کس طرف پہنچا چکے ان
کمظرفوں کو اس کا کچھ احساس ہے کہ کس طرح اسلامی ممالک کو سنہرے جال میں
باندھ کر صدیوں پیچھے دھکیل کر خود آسماں کی بلندیوں پر ہیں۔
علماء اور مذہبی اسکالر پچھلے ستر ،اسی سال سے بیت المقدس پر صہونی غلبہ پر
نوحہ کناں ہیں۔ وہ اسکی آزادی کو اسلامی احکامات ماننے والوں کی قوت دیکھتے
ہیں اور پر یقین ہیں کہ ایسی ہی تحریک جو جذبہ ایمانی سے لبریز ہو اور بین
لاقومی جہاد کی قوت کو مجتمع کر سکے وہی اس قبضہ کو چھڑوا سکتی ہے۔ اور یہ
چھوٹی چھوٹی نیم خودمختار ریاستیں اس عظیم جہاد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر
کے اسلام مخالف طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہیں۔ یہ فتنہ پرور صہونی
ریاستیں آج صرف ان کوششوں میں اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ
مسلمان پھر سے قرآن سے ناطہ جوڑ لیں اور اپنے ماضی کی طرح پھر سے دنیا کو
اپنی گرفت میں لے لیں۔چونکہ مسلمانوں کی حاکمیت ہزار سال برداشت کی ہے۔
لیکن اب وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے یہ ان کا خیال ہے۔
مسلمان جب تک خود کو نہیں پہچانیں گے اس سے بھی بری حالت میں ہونگے۔ اس کا
بنیادی المیہ قرآن کے احکامات کو بھلانا ہے پھر اللہ کی مدد بھی آپکو
دستیاب نہیں ہوتی اور دشمن کا خوف آپ پر طاری ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آج کل
پوری اسلامی ریاستوں پر طاری ہے۔ اس لئیے اب وقت آ گیا ہے کہ اے مسلمان خود
کو پہچان اور قرآن کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر اللہ کی مدد حاصل کر۔ یہ
دشمن ٹڈی دل کی طرح چھٹ جائیں گے اور ہماری دھاگ اور گرفت ان پر ہوگی پھر
کیا وسط ایشیائی ریاستیں، فلسطین، مشرقی یورپ، عراق، کشمیر، لیبیا، سوڈان
،سومالیہ،افغانستاں اور پاکستان میں شہید ہونے والے بے گناہوں کے خون کا
حساب لینا بھی ہماری ذمہ داری نہیں۔ آج خون مسلم کتنا ارزاں ہے زرا سوچیں
کیوں آخر؟
|