میری پہلی محبت صحافت اور عشق اہل قلم تھے۔ عمر کا وہ حصہ
جب میرے سارے دوست حسیناؤں کی آمدورفت کا شیڈول ترتیب دیا کرتے تھے میں
کتابوں میں کھویا رہتا تھا۔کالج میں جوں ہی کوئی فارغ وقت ملتا لائبریری
میں گھس جاتا اور سارے اخبارات چاٹ دیتا تھا ایسے میں دوست بمشکل مجھے
گھسیٹ کر کینٹین پر لے جاتے، اس محفل کا موضوع شہر بھر کی مہ جبینیں ہوتی
تھیں سب اپنی اپنی جانوں کے قصے سناتے ان کی غزالی آنکھوں ، ہرنی جیسی چال
،مونالیزا کو شرماتی مسکراہٹ کا ذکر کرتے ،آہیں بھرتے اور پھر کوئی سینے پر
ہاتھ رکھ کر چہرے پر مجنوں کے درد و الم کی کیفیات پیدا کرکے ’’اوئی میں مر
گیا ‘‘ کا نعرہ لگاتا اور محفل قہقہوں سے گونج اٹھتی اکثر اس چٹخارے دار
گفتگو کے دوران کوئی دوست از راہ تفنن مجھ سے پوچھ لیتا "تم سناؤ،آج تمھارے
جانوں نے کیا لکھا ؟"
پھر بہت دیر تک فضا بے فکرے قہقہوں سے گونجتی رہتی میں برہم ہوجاتا اور ان
سے کہتا کہ یہ لوگ ہمارے ہیروز ہیں ان کی قدر ہم سب پر واجب ہے جو قومیں
اپنے دانشوروں کی قدر نہیں کرتیں وہ مٹ جاتی ہیں ایسے میں دوست کوئی اور
چٹکلا چھوڑ دیتے اور بات ہنسی میں اُڑجاتی۔
میرے اوائل جوانی کے دور میں مجیب الرحمٰن شامی سے ضیاء شاہد تک کتنے ہی
اہل قلم تھے جن کا ڈنکا بجتا تھا وہ لفظوں کے بادشاہ تھے یوں لگتا تھا جیسے
لفظ ان کے آگے ہاتھ باندھ کر قطار در قطار آتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں
تھا کہ ان کے الفاظ میں حسیناؤں کی زلفوں سے زیادہ طاقت تھی اور وہ لوگوں
کو اپنا اسیر کرتے تھے وہ مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کے جانوں تھے لوگوں نے
انہیں دیوتاؤں جیسا درجہ دے رکھا تھا اور ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کے کاش صحافت میرا ذریعہ معاش نہ بنتا اخباری دفاتر
کی یہ تنگ و تاریک سیڑھیاں میرا مقدر نہ ہوتیں تو اسرار کے بہت سارے پردے
قائم رہتے میرے من کے اندر سجے اس بت خانہ کے اکثریتی بت یوں پاش پاش نہ
ہوتے میں صحافتی عقوبت خانوں کی سسکیوں سے آشنا نہ ہوتا۔ قول و فعل کے اس
تضاد کا مجھے مشاہدہ نہ ہوتا میں آج بھی اہل قلم کے لفظوں کا اسیر ہوتا ان
کا ذکر کرتے ہوئے احترام میرے لہجے میں در آتا میں کبھی نہ جان پاتا کہ
حسیناؤں کی زلفوں کی طرح یہ اسیری بھی دھوکہ ہے ان میں بھاری تعداد مفادی
ٹولہ ہے جو دانشور نہیں لفظی مالشیئے ہیں ان کا قبلہ و کعبہ جی حضوری ہے یہ
صحافی نہیں بلکہ" ٹھگ "ہیں یہ میں جانتا ہوں کہ بھرم ٹوٹنے کی تکلیف موت سے
بدتر ہوتی ہے عقیدتیں جب زمین بوس ہوتی ہیں تو پہلے پہل ان کی جگہ بے بسی
چادر تان لیتی ہے اور پھر یہ بے بسی جب غصہ گھونٹ گھونٹ پی کر تھک جاتی ہے
تو بغاوت کو جنم دیتی ہے۔
مدثر اقبال بٹ لاہور کے صحافی ہیں میرا ان سے بہت احترام کا رشتہ ہے میں ان
کی حق گوئی و بیباکی کا ہمیشہ سے معترف رہا ہوں۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر ان
کی طرف سے قومی احتساب بیورو لاہور کو دی گئی ایک درخواست وائرل ہے اس
درخواست کا خلاصہ نکال لیا جائے تو مدثر اقبال بٹ کی نظر میں میرے یہ سارے
جانوں چور ہیں جو کمینگی کی آخری حد تک لوٹ مار میں مصروف ہیں انہوں نے
احتساب بیورو سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملہ کا نوٹس لیں اور غلاظت سے اٹے
ان نام نہاد ناصحوں کو قرار واقعی سزا دیں ۔ اب فیصلہ تو احتساب بیورو کی
تفتیش میں ہی ممکن ہے کہ میرے کون کون سے جانوں چور ہیں ؟ لیکن مجھے یہ
تفتیش ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ احتساب بیورو پہلے ہی جس قدر تنقید کی
زد میں ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ امید رکھنا کہ ایسے حالات میں وہ اس بد
معاشیہ پر بھی ہاتھ ڈال لیں گے ممکن دکھائی نہیں دیتا تاہم امید کا دامن
کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے مدثر اقبال بٹ امید سے ہیں تو ہمیں بھی
حوصلے جوان رکھنا چاہیں ۔
|