ایک سال پہلے کی بات ہے کراچی ایک ضروری کام سے جانا ہوا
، اگلے دن علی الصبح ٹرین پہ واپسی تھی۔رات گئے جب فارغ ہوا تو سوچا اب
پانچ چھ گھنٹوں کے لئے آدھی رات کو کسی کو کیا تنگ کرنا ،کینٹ اسٹیشن چلتا
ہوں اور باقی رات گھوم پھر کر گزارلیتاہوں ۔ اسٹیشن کے قریب بنے ہوٹل میں
کراچی کی پسندیدہ بریانی کھا کر جب باہر نکلا تو چرس کی تیز مہک نے بریانی
کا سارا مزہ کرکرا کردیا کچھ لوگ ہوٹل کے باہر بیٹھے چائے کے ساتھ چرس بھرے
سیگریٹ اڑا رہے تھے ۔ اس رات ریلوے اسٹیشن کی پارکنگ اور،پلیٹ فارم پر کئی
بار قلیوں سمیت کئی لوگوں کو چرس سے لطف اندوز ہوتے دیکھا۔گھبرا کر جب میں
نے کینٹ اسٹیشن پہ بنی مسجد کے صحن کا رخ کیا تو وہاں بھی نشئیوں کا قبضہ
پایا ۔سارے ملک کا حال کچھ ایسا ہی ہے بڑے نشئی پارلیمنٹ لاجز اور مہنگے
ہوٹلوں میں دادعیش دیتے ہیں تو چھوٹے نشئی پارکوں اور چوراہوں پہ سرعام
ہمارے معاشرتی حسن کو گہنارہے ہیں ۔
1984سے اب تک ہمارے 30 لاکھ افراد صرف نشے نے نگل لئے ہیں ۔ایک اندازے کے
مطابق 45 لاکھ کے قریب پاکستانی ہیروئن کے نشے کی لت میں مبتلا ہیں ، اور
ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔کبھی ہمارے سرسبز پارکوں اور قبرستانوں میں
ایک طرف بنے ہوئے پہلوانوں کے اکھاڑوں میں تندرست و خوبصورت چاک و چوبند
جوان کسرت کیا کرتے تھے ۔ لیکن اب ان پارکوں قبرستانوں اور پلوں کے نیچے
ہمارے اپنے نوجوان گندگی میں لت پت نشے میں مدہوش پڑے ملتے ہیں ۔جنہیں نا
سردی گرمی کی فکر ہے نا پاکیزگی اور گندگی کا کوئی خیال ہے۔ نشہ پورے ملک
کو چاٹ رہا ہے حتی کہ یونیورسٹیاں تک محفوظ نہیں ،تعلیمی اداروں میں پوری
پلاننگ سے طلباء کو اس زہر کا عادی بنایا جارہا ہے ۔
بھنگ تقریبا"پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے دربار پہ سرعام استعمال کی جاتی ہے ،مزارات
منشیات فروشوں کے پسندیدہ ٹھکانے ہیں،سیالکوٹ اور ناروال کی بھنگ پورے ملک
میں مشہور ہے ۔
خیبر پختون خواہ میں چرس اور نسوار کا استعمال دوسرے صوبوں سےکہیں زیادہ ہے۔
اقلیتی لائسنس ہولڈرز کی مہربانی سے ولائتی شراب پاکستان کے ہربڑے شہر میں
باآسانی مل جاتی ہے ، چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں دیسی شراب تیار کی
جاتی ہے جسے پینے والے بعض اوقات سنگین حادثات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں ۔
اسی کی دہائی سے پورا پنجاب نشے کی لپیٹ میں ہے تاہم لاہور گوجرانوالہ اور
سیالکوٹ کی حالت سب سے بدتر ہے کبھی یہ شہر شاعروں ادیبوں اور پہلوانوں کی
وجہ سے جانے جاتے تھے ،اور آج یہاں کے نوجوان نشے میں مدہوش شعور وفکر کی
بربادی کا باعث بن رہے ہیں ،ان شہروں میں منشیات فروشوں کادھندہ عروج پر ہے
۔ منشیات فروش مافیہ ان تین شہروں میں اس قدر طاقتور ہے کہ صحافی برادری
بھی ان کے خلاف کھل کر لکھنے سے گریز کرتی ہے وگرنہ کیا وجہ ہے کہ عام آدمی
تو کہیں سے بھی بآسانی اپنا مطلوبہ نشہ حاصل کرلیتا ہے لیکن میڈیا اور
پولیس بے خبر رہتی ہے ۔
صرف ایک دن کے لئے کوئی صحافی یا ذمہ دار پولیس افسر نشئی کا روپ دھار کے
ان تین شہروں میں منشیات فروشوں کی تلاش میں نکلے ،پھر دیکھیں کیسے حیران
کن نتائج سامنے آتے ہیں ۔
شائد ہی کوئی ایسا گاوں یا محلہ ہو جہاں منشیات بیچنے والوں کے ایجنٹ
دستیاب نہ ہوں ۔
ایک مضبوط مافیہ اور پولیس کی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے عام آدمی ان کے
بارے میں بات کرنے سے کتراتا ہے ۔
تاہم اگر چلے گی تو
چراغ سبھی کے بجھیں گے
ہوا کسی کی نہیں
۔ اس لئے معاشرے کے ذمہ داران اساتذہ ،سیاستدان، وکلاء اورصحافی برادری کو
مل کر اس ناسور کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں
صحت مند اور پاکیزہ ماحول میں سانس لے سکیں۔
|