ہمارے ہاں ہر سال طلباء ماسٹرز،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے
لیے تحقیقی مقالہ جات اور آگاہی مہمات پر کام کرتے ہیں ۔ان پر کام کرنے سے
پہلے منتخب کیے گئے موضوعات پر طلباء باقائدہ طریقہ کار کے مطابق ا پنے
نگران اساتذہ سے موضو ع کی اہمیت اور انفرادیت پر مکالمہ کرتے ہیں۔متعلقہ
ٹاپک پر تھیسز انچارج کی رہنمائی اور طالبعلم کی محنت کے نتیجے میں ایک
تحقیقاتی دستاویز تیار ہوکر سامنے آتی ہے۔ہمارے ہاں معاشرے سے متعلق بہت سے
موضوعات پر کبھی تھیسز ہوئے ہی نہیں۔مثال کے طور پر معاشرتی مسائل سے معاشی
مسائل اور پھر اس سے آگے ہر چند سال بعد آنے والے بحران چاہے وہ سیاسی ہوں
یا سماجی ان پر کوئی کام نہیں کرتا،شاید یہ موضوعات اساتذہ کی دلچسپی کا
محور بھی نہیں ہیں۔ٹیچر اور سٹوڈنٹ کی محنت کے نتیجے میں سامنے آنے والے ان
تھیسز سے معاشرتی مسائل حل کرنے میں کتنی حد تک مدد ملی؟تھیسز پر کام کرتے
ہوئے ریسرچر نے جو عملی حل تجویز کیے ان پر اس فیلڈ سے جڑے لوگوں نے کتنا
استفادہ کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر بات ہونا ضروری ہے۔
پچھلے دنوں پرنٹ میڈیا پر کیا گیا تحقیقی مقالہ میری نظر سے گزرا،ثناللہ
شائق نے اپنی ریسرچ میں پاکستان کے اردو اخبارات میں واقعاتی، بیاناتی اور
تحقیقاتی رپورٹنگ کا تقابلی جائزہ لیا۔ اس تحقیق میں یہ بھی جائزہ لیا گیا
ہے کہ کس اخبار نے کس موضوع کی خبروں کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس تحقیق کے
لیے جو وقت کی مدت انتخاب کیا گیا وہ یکم جنوری 2016 تا 31 مارچ 2016 ء ہے۔
اس تحقیق میں درج ذیل سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ۔
اردو روزناموں میں واقعاتی، بیاناتی اور تحقیقاتی خبروں کی کیا اہمیت ہے ؟
منتخب شدہ اخبارات میں سے کون سا اخبار تحقیقاتی خبروں کو زیادہ جگہ دے رہا
ہے ؟
اردو روزناموں میں کون سا اخبار کن خبروں کو کتنی اہمیت دیتا ہے ؟
آیا ان اخبارات میں ان تینوں قسم کی خبروں کو باقاعدگی سے شائع کیا جاتا ہے
؟
منتخب مدت کے اخبارات کا جائزہ لینے کے بعد بہت سی چیزیں واضح ہوئیں۔ ایک
اخبار میں واقعاتی، بیاناتی اور تحقیقاتی تینوں قسم کی خبریں شائع ہوتی ہیں
۔ ایک اچھا اخبار اسے کہا جا سکتا ہے جس میں تحقیقاتی صحافت زیادہ سے زیادہ
کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تحقیقاتی صحافت کا رجحان مقبول ہے ۔
پاکستان کو بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑاہونے کے لیے ضروری ہے کہ
ریاست کے چوتھے ستون’’ صحافت ‘‘ میں زیادہ سے زیادہ تحقیق پر زور دیا جائے۔
مگر ہمارے اخبارات کا خبریں شائع کرنے کا کوئی تناسب نہیں۔جائزے سے ثابت
ہوا کہ روزنامہ نوائے وقت میں 82 فیصد بیاناتی اور واقعاتی جبکہ 18 فیصد
تحقیقاتی ، جنگ میں 8 فیصد تحقیقاتی اور 92 فیصد بیاناتی اور واقعاتی خبریں،
روزنامہ دنیا میں 87 فیصد واقعاتی اور بیاناتی اور 13 فیصد تحقیقاتی خبریں،
ایکسپریس میں 16 فیصد تحقیقاتی اور 84 فیصد واقعاتی اور بیاناتی خبریں شائع
کرنے کا تناسب رہا۔۔یاد رہے یہ چار اخبارات سب سے زیادہ پڑھے جانے والے
اخبارات ہیں۔یہاں شائع کی جانے والی خبروں کا تناسب ان اخبارات کی ترجیحات
کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کس قسم کی خبروں کو شائع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ایک سوال جوگزشتہ کچھ سالوں سے بحث و مباحثے کی نظر ہے وہ یہ ہے کہ ملکی
وسائل کو استعمال کرتے ہو ئے ملک کو کیسے ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔
ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے مختلف نظریات موجود ہیں اور ہر نظریے میں
یہ بات مشترک ہے کہ اگر کوئی ملک ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے ملک میں
صحافت کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے خاص اقدامات کرنا ہوں گے۔
الیکٹرونک میڈیا کے آنے کے بعد لوگ ترقیاتی مسائل کی خبروں کے بارے حساس
بھی ہیں اور انکا شعور بھی رکھتے ہیں۔ اس جدید دور کے تقاضوں کو ان اخبارات
نے اپنی خبروں کے ذریعے کس حد تک پورا کیا ہے۔ چنانچہ صحافت ریاست کا چوتھا
ستون ہے اور اس کے زریعے ہی دوسرے تین ستون بھی اپنی کارکردگی بہتر بنا
سکتے ہیں۔اس لیے صحافت کو چاہیے جہاں وہ واقعاتی اور بیاناتی رپورٹنگ کرے
وہاں تحقیقاتی رپورٹنگ کے ذریعے ان اداروں کی تعریف اور تنقید کرے تاکہ ملک
میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔ پاکستانی صحافت میں تحقیقتی رپورٹنگ کا فقدان
ہے جبکہ غیر ممالک میں تحقیقاتی رپورٹنگ زیادہ ہوتی ہے۔
پاکستان میں معیاری اور تحقیقاتی صحافت کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی
گئیں۔پاکستان میں صحافت کو درپیش کچھ مسائل حکومت کی طرف سے ہیں تو کچھ
صحافتی اداروں کی طرف سے ہیں۔ جن پر دونوں طرف سے ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں آزادی صحافت نہیں صحافیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں کئی صحافی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں جبکہ
ترقی یافتہ ممالک میں صحافیوں کو آزادی صحافت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کا تحفظ
فراہم کیا جاتا ہے کوئی بھی اخبار اشتہارات کے بغیر نہیں چل سکتا۔ پاکستان
میں حکومت اخبارات کو اشتہارات کی بندش سے ڈراتی اور دھمکاتی ہے جس وجہ سے
اخبارات تحقیقاتی صحافت نہیں کر سکتے ۔تحقیقاتی صحافت کے لیے آزادی صحافت
ضروری ہے ۔
ہمارے اخبارات اور ان کے مالکان تحقیقاتی صحافت کی بجائے روایتی صحافت کو
پروان چڑھا رہے ہیں اس میں مالکان کے ذاتی مفاد بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ دوسری
طرف تحقیقاتی صحافت پر سرمایہ اور وقت زیادہ درکارہوتا ہے اس لیے بھی
مالکان اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔
|