چنیوٹ کی تحصیل لالیاں کا ریلوے اسٹیشن 1970ء کی دہائی
میں تعمیر کیا گیا تھا اور پندرہ سال قبل تک یہاں روزانہ چھ ریل گاڑیاں
آتی تھیں۔ان میں سرگودھا سے کراچی جانے والی ملت ایکسپریس اور سپر
ایکسپریس، سرگودھا سے لاہور جانے والی لاہور ایکسپریس، سرگودھا سے روڑہی
جانے والی ماڑی انڈس، گوجرانوالہ سے کراچی جانے والی پاکستان ایکسپریس اور
راولپنڈی سے کراچی جانے والی چناب ایکسپریس شامل تھیں۔تاہم پہلے ان میں سے
تین ریل گاڑیوں بند ہوئیں اور پھر اس سٹیشن سے گزرنے والی ملت اور پاکستان
ایکسپریس کے سٹاپ ختم کر دیئے گئے۔اب یہاں صرف لاہور ایکسپریس رکتی ہے تاہم
اس کے اوقات کار ایسے ہیں کہ لوگ اس پر سفر کرنے کی بجائے پرائیویٹ بسوں
میں سفر کرنے پر مجبور ہے۔لالیاں کے محلہ اسلام آباد کے رہائشی محمد ریاض
نے سجاگ کو بتایا کہ 'آج سے چند سال قبل تک یہاں ہر وقت مسافروں کی بھیڑ
لگی رہتی تھی لیکن اب ریلوے اسٹیشن ویران علاقے کا منظر پیش کرتا ہے۔انہوں
نے بتایا کہ ریلوے اسٹیشن کے غیر فعال ہونے کے سبب مقامی لوگوں کو کراچی،
راولپنڈی یا دیگر شہروں کو جانے کے لئے فیصل آباد جا کر ٹرین یا بس پکڑنا
پڑتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں یہاں سے روزانہ گزرنے والی مال گاڑی
بھی اب کبھی کبھار ہی نظر آتی ہے۔
کہتے ہیں کہ کراچی جانے والی ملت ایکسپریس یہاں سے گزرتی ضرور ہے لیکن رکتی
نہیں جس کی وجہ سے مقامی افراد کا ریل سے سفر کرنے کا رجحان دن بدن کم ہوتا
جا رہا ہے۔لالیاں کے مین بازار کے رہائشی محمد رؤف کہتے ہیں کہ ریلوے
اسٹیشن پر تعینات عملہ بھی مسافروں کو ریلوے سے سفر کرنے کے لئے راغب کرنے
میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ریلوے اسٹیشن پر آج تک پلیٹ فارم تعمیر نہیں کیا
جا سکا ہے۔ یہاں نہ پینے کا پانی دستیاب ہے نہ ہی سکیورٹی کا کوئی انتظام
جبکہ رات کے اوقات میں روشنی کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا
کہ ریلوے کا عملہ مقامی ٹرانسپورٹرز سے ملا ہوا اور مفت کی تنخواہیں لے رہا
ہے۔جماعت اسلامی چنیوٹ کے سابق امیر ڈاکٹر ریاض شاہد اس تنزلی کا الزام
سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے موجودہ رہنما شیخ وقاص اکرم پر لگاتے
ہیں۔وہ الزام لگاتے ہیں کہ شالیمار کے نام سے قائم اپنی بس سروس کو کامیاب
بنانے کے لئے انہوں نے 2006ء میں چنیوٹ سے کراچی کی جانب چلنے والی تمام
ٹرینوں کے سٹاپ ختم کروا دئیے تھے۔اسٹیشن ماسڑ محمد ظفر نے سجاگ کے رابطہ
کرنے پر بتایا کہ یہاں کبھی کبھار لاہور جانے کے لئے دو چار مسافر آ جاتے
ہیں ورنہ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ
جن دنوں پبلک ٹرانسپورٹ کی ہڑتال ہو یا کوئی اور مسئلہ تب اس اسٹیشن پر
سواریاں بڑھ جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مال گاڑیوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے ان کے آنے یا
جانے کا کوئی شیڈول نہیں ہے اس لئے لالیاں سے زیادہ تر فرنیچر اور لکڑی کا
دیگر سامان اب بذریعہ سڑک دوسرے شہروں کو بھیجا جاتا ہے۔ریلوے اسٹیشن پر
سہولیات بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن نامعلوم چور کبھی
لائٹیں چوری کر لیتے ہیں اور کبھی پانی کا نلکا اتار لیا جاتا ہے۔ایک سوال
کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس سکیورٹی کا کوئی انتظام موجود
نہیں اور جب ٹرین آتی ہے اس وقت گاڑی میں موجود ریلوے پولیس اہلکار ہی
مسافروں یا سامان کی حفاظت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔اس علاقے سے منتخب
رکن قومی اسمبلی غلام محمد لالی نے سجاگ کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ چند ماہ
قبل جنرل مینجر ریلوے نے لالیاں اسٹیشن کا دورہ کر کے یہاں پر سہولیات
فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ وہ پلیٹ فارم کی تعمیر اور
ملت ایکسپریس کے لالیاں میں سٹاپ کے حوالے سے سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ
سعد رفیق سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی اس حوالے سے
اقدامات شروع ہو جائیں گے اور لوگوں کو پھر سے ریلوے کے ذریعے محفوظ اور
سستے سفر کی سہولت میسر آ جائے گی۔
تحریر: سونیا ممتاز رندھاوا |