انمول زندگی کا ایک مختصر باب

کسی نے کیا خوب کہاہے کہ اچھی بیویاں بڑھاپے میں نرس بن جاتی ہیں ۔ ان کے ہاتھ کی پکی ہوئی ہر چیز تریاق ہوجاتی ہے ۔ خداکاشکر ہے کہ میرا گھرانہ مثالی اور میری بیوی انمول بیگم ہے ۔جو نہ صرف میری ضرورتوں کا ہر لمحے خیال رکھتی ہے بلکہ بہترین ساتھی اور نقاد بھی ہے ۔ مجھے کس وقت کس چیز کی ضرورت ہے ‘ میں نے کب اورکیا پہننا ہے ‘سب کچھ وہ ایک استادکی طرح مجھے بتاتی ہے ۔ میرا دماغ چونکہ ہر لمحے سوچوں میں گم رہتا ہے ‘ اس لیے گھر سے مسجد کے لیے نکلتے وقت میں ہمیشہ غلطی کرجاتاہوں اگر وہ چیک نہ کرے تو مسجد سے ننگے پاؤں واپس آنا پڑتاہے۔ جب سے میں قادری کالونی منتقل ہوا ہوں۔ یہاں ایک ایسی مسجد بھی ہے جہاں سے جوتی کبھی چوری نہیں ہوتی ۔ بلکہ ہر نمازی اپنی اپنی جوتی پہن کے ہی باہر نکلتے ہیں ۔ یہ کرامت مسجد اﷲ کی رحمت کے امام اور خطیب قاری محمد اقبال کی ہے ۔ جو صاحب کردار بھی ہیں اور گفتار بھی ۔

اس وقت میری عمر 63 سال ہوچکی ہے ۔ زندگی کا آخری پہر جاری ہے ‘ نہ جانے کب اور کس وقت زندگی کی شام ہوجائے ۔یہ وقت آنے سے پہلے میں اپنی نصف بہتر اور شریک حیات کی چند خوبیاں تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ‘جو چالیس سالہ رفاقت میں مجھ ناچیز پر آشکارہ ہوئی ہیں ۔ سب یہ پہلی خوبی تو یہ ہے کہ جب کوئی فیصلہ کرتی ہے توپھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتی وہ اپنے مثبت رویے اور بہترین کردار سے روزانہ ایک نئی کہانی لکھتی ہے۔ وہ اگر وفا دار بیوی ہے تو بہترین ماں بھی ہے ۔اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے اب وہ دو بچوں کی نانی اور پانچ بچوں کی دادی بن چکی ہے ۔

اس نے مجھے ہر مصیبت اور پریشانی سے بڑی حد تک محفوظ کیے رکھا ۔مجھے یاد ہے جب میں بنک سے شام ڈھلے تھکا ماندہ گھر پہنچتا تو اس نے بچوں کو بھی یہ ہدایت کررکھی تھی کہ وہ اپنی فرمائشوں کی گٹھڑی باپ کے گھر آتے ہی نہ کھول بیٹھیں ۔ بجلی کا بل جو ہمیشہ میرے لیے خوف کی علامت رہا ‘وہ کسی نہ کسی طرح پیسے بچاکر بیٹوں کے ہاتھ جمع کروا دیتی لیکن مجھے اس بل کی ٹینشن سے محفوظ رکھتی ۔ اسے یہ علم تھا کہ اپنی جسمانی قوت کے مطابق زیادہ سے زیادہ محنت کررہا ہوں اس سے زیادہ کام کرنے کی مجھ میں صلاحیت نہیں ۔ ہم نے ایک کھنڈر نما پلاٹ کو بہترین گھر کی شکل اسی تنخواہ میں سے دی جو مجھے مہینے میں صرف ایک مرتبہ ملتی تھی ۔بنک سے ملنے والی یہی تنخواہ ہماری خواہشات کی تکمیل کا منبع ہوتی ۔تنگی ‘تلسی سے وقت گزرتا رہا ۔

پھر وہ وقت بھی آ پہنچا جب میری بیٹی احساس کمتری کا شکار رہنے لگی ۔ اہلیہ نے بتایا کہ بیٹی کے دانت ایک جیسے ہموار نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ پریشان رہتی ہے اگر ممکن ہوسکے تو ہمیں بیٹی کو احساس کمتری سے نکالنے کے لیے کسی ماہر ڈینٹل سرجن سے رجوع کرنا چاہیئے ۔ بیٹیاں چونکہ باپ سے زیادہ محبت کرتی ہیں اور باپ بھی بیٹوں سے زیادہ بیٹی کو ترجیح دیتا ہے ۔اس لیے میں اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر علامہ اقبال ٹاؤن کی نواحی بستی" الحمد کالونی" جا پہنچا- جہاں ایک جدید ترین ڈینٹل کلینک موجود تھا ۔ اس جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ڈینٹل کلینک کے روح رواں ڈاکٹر گلریز تھے ۔جو امریکن ایوارڈ شدہ ڈینٹل سرجن تھے ۔چونکہ اپنی نوعیت کایہ جدید ترین کلینک تھا اور بطور خاص بریکٹس لگا کر یہاں کامیابی سے دانت سیدھے کیے جاتے تھے اس لیے یہاں ہرلمحے رش رہتا ۔

ڈاکٹر گلریز نے چیک کرنے کے بعد بتایا کہ دانت برابر ہوسکتے ہیں لیکن اس کا معاوضہ 20 ہزار روپے ہو گا ۔ جو تین چار قسطوں میں اداکرنا پڑے گا ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب میری تنخواہ بمشکل پانچ ہزار روپے ماہانہ تھی۔علاج کی رقم سن کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور میں منہ لٹکائے گھر چلا آیا ۔بیگم نے پوچھا ڈاکٹر نے کیا بتایا میں نے کہا ڈاکٹر کہتے ہیں کہ دانت برابر ہوسکتے ہیں لیکن اس کا معاوضہ 20 ہزار روپے ہے ۔ یاد رہے کہ یہ وہ دن تھے جب مکہ کالونی میں ہمارا گھر زیر تعمیر تھا اور ایک ایک پیسہ ہمارے لیے بہت اہمیت کاحامل تھا ۔ یہ سن کر بیگم بھی پریشان ہوگئی ۔پھر اس نے اپنی جسمانی قوتوں کو بروئے کار لاکر کہا کوئی بات نہیں ہم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیں گے اور گھر کے اخراجات مزید کم کرلیں گے لیکن بیٹی کو احساس کمتری سے ضرور نکالیں گے ۔ میں نے جواب دیا یہ کیسے ممکن ہوگا ۔اب تو ادھار دینے والے بھی کنی کترا کر نکل جاتے ہیں ۔اتنے پیسے اضافی طور پر کہاں سے دستیاب ہوں گے ۔ کچھ دن سوچ و بچار میں ہی گزر گئے پھر ایک دن ہم دونوں میاں بیوی ‘ بیٹی کو ساتھ لے کر ڈاکٹر گلریز کے ڈینٹل کلینک پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ وہ قسطوں کی رقم کچھ کم کرلیں تاکہ ہمارے لیے علاج کروانا ممکن ہوجائے ۔ ڈاکٹر گلریز جو فرشتہ صفت انسان ہیں اور خدمت انسانی کے جذبے سے سرشار ہیں ۔انہوں نے آسان قسطوں میں پے منٹ کی ہماری پیشکش قبول کرلی اور علاج شروع ہوگیا ۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آدھی تنخواہ جب جیب سے نکل جاتی تو پھر گزارا مزید مشکل ہوجاتا ہے ۔ یہ وہ وقت تھا جب میرے دونوں بیٹے زیر تعلیم تھے ۔ میرے علاوہ کمانے والا کوئی اور نہیں تھا ۔ اس کے باوجود کہ یہ پیسے میری ہی تنخواہ سے خرچ ہوئے لیکن اس مشکل ترین فیصلے کو کرکے انجام تک پہنچانے کافریضہ بیگم نے انجام دیا ۔ اگر وہ مجھے حوصلہ نہ دیتی تو میں اپنی بیٹی کو کبھی احساس کمتری سے نہ نکال سکتا ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

اچھی بیویاں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتیں جو ہر مشکل وقت میں اپنے شوہر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی ہوتیں ۔

زندگی صرف آسانیوں کا نام نہیں بلکہ قدم قدم پر مشکلات درپیش ہوتی ہیں ۔ اﷲ تعالی نے جب پہلے انسان (حضرت آدم علیہ السلام ) کی تخلیق کی تو ان کے پتلے پر دو سو سال غم کی بارش کی گئی جبکہ صرف چالیس سال خوشی کی بارش ہوئی ۔اس کے پیچھے کیا حکمت پنہاں تھیں اس کے بارے میں تو اﷲ تعالی ہی بہتر جانتا ہے ۔ میری بھی زندگی قدم قدم پر مشکلات سے لڑتے آگے بڑھتے گزری ہے ۔زندگی میں کبھی سکھ کاسانس نہیں ملا ۔ہمیشہ وسائل سے زیادہ مسائل نے ہمیں گھیرے رکھا ۔نہ شادی سے پہلے سکون تھا اور نہ ہی شادی کے بعد چین کوئی لمحہ میسر آیا ۔ والدین سے علیحدگی کے بعد گھر کی خرید اور تعمیر کے طویل ترین مراحل سے مجھے گزرنا پڑا۔ دو دو ملازمتوں کے بعد گھر میں بھی طلبہ وطالبات کے تھیسز ٹائپ کرنا پڑتے تاکہ ملنے والی اضافی رقم سے گھر کی کوئی چیز ہی بن جائے گی ۔دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں آزمائش سے گزرنا نہ پڑا ہو وگرنہ ہر انسان کو غم اور خوشی کی کسوٹی پر پورا اترنا پڑتا ہے ۔
.................
اﷲ تعالی نے مجھے دو بیٹوں (محمد شاہد اور محمد زاہد ) اور ایک بیٹی تسلیم اسلم سے نوازرکھاہے ۔ جس پر میں اﷲ تعالی کا بے حد مشکور ہوں ۔ میرا چھوٹا بیٹا صحت کے اعتبار سے کافی کمزور ہے ۔جب سے اس نے ہوش سنبھالا کسی نہ کسی بیماری نے اسے گھیرے رکھا۔ ایک بیماری ابھی ختم نہیں ہوتی کہ دوسری یلغار کردیتی ہے ۔ وہ تو اپنی صحت کے بارے میں پریشان ہی رہتاہے ‘ہم اس سے زیادہ فکر مند ہوجاتے ہیں ۔ علاج کے باوجود جب افاقہ نہ ہو تو تشویش لاحق ہونا فطری امر ہے ۔ اچانک ایک دن یہ منحوس خبر سننے کو ملی کہ اسے ٹی بی کا مرض بھی لاحق ہوگیا ۔ یہ سن کے بہت تکلیف ہوئی ۔ایک مہنگے ڈاکٹر کو چیک کروایا گیا تو اس نے بے شمار ٹیسٹ لکھ دیئے اور یہ بھی ہدایت کی کہ یہ ٹیسٹ شوکت خانم لیبارٹریز سے ہی کروائے جائیں ۔رزلٹ ٹھیک ہوگا تو علاج بھی صحیح ہوگا ۔ ٹیسٹوں کے بارے میں پتہ کیا تو 12 ہزار روپے مالیت کے تھے جبکہ ڈاکٹر کی فیس اور ادویات کے اخراجات بھی یقینا ہزاروں میں ہوں گے ۔ سوچ میں پڑ گئے کہ پیسے کہاں سے لائے جائیں ۔اتنی تو میری تنخواہ بھی نہیں ۔ میں گھر کے ایک کونے میں بیٹھا سوچ ہی رہا تھاتو بیگم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر حوصلہ دیااور کہا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ‘میں نئی کمیٹی شروع کردیتی ہیں ۔اس طرح پہلی کمیٹی ہم لے کر بیٹے کا علاج کروا لیں گے اور کمیٹی قسطوں میں دیتے جائیں گے ۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس وقت اپنی بیگم ہمت اور حوصلے کا پہاڑ دکھائی دی ۔ اس نے نہایت دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے مجھے مالی پریشانیوں سے نکال لیا اور بیٹے کے مہنگے علاج کے لیے پیسے بھی مہیا کردیئے ۔ کمیٹی چند دنوں میں اکٹھی ہوگئی اور ہم ٹیسٹ کروانے‘ سپیشلسٹ ڈاکٹر کی فیس ادا کرنے اور تشخیصی ادویات خریدنے کے قابل ہوگئے۔ٹی بی کا علاج طویل تو ہے لیکن اگر ادویات کا مسلسل استعمال کیاجائے تو یہ بیماری جڑ سے ختم ہوجاتی ہے ۔ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ چھ ماہ مسلسل علاج کرنے کے بعد میرا بیٹا بالکل صحت مند ہوگیا اور ٹی بی کی تمام علامتیں ختم ہوگئیں ۔

کچھ ہی عرصہ سکون سے گزرا ہوگا کہ اسی بیٹے کو معدے کا پرابلم شروع ہوگیا ۔ یہ بیماری بھی اس قدر تکلیف دہ ہے کہ کھانے پینے کا پرہیز ہی انسان کوپریشان کردیتا ہے ۔ یہ بات تو پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ معدے کا علاج ڈاکٹروں کے پاس نہیں ہے کیونکہ میرا ایک دوست نثار بٹ جو بہت خوبصورت نوجوان تھا معدے کی بیماری میں مبتلاہوکر ڈاکٹروں کے علاج اور آپریشن سے موت کی وادی میں جاسویا ۔چنانچہ بیٹے کو ایک ممتاز حکیم کو چیک کروایا گیا جس سے معدے کی بیماری تو کچھ بہتر ہوگئی لیکن پیلا یرقان ہوگیا ۔ معدے کو بھول کر یرقان کا علاج کرنا پڑا ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابھی ایک امتحان ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہوجاتا ہے ۔اگر میں اکیلا ہوتا تو کبھی کا مایوس ہوچکا ہوتا لیکن مشکل کے ہر موقع پر میری بیگم ایک بہترین مددگار کی شکل میں میرے ساتھ کھڑی نظرآتی ہے ۔ اس نے اپنی زندگی کے چالیس بہترین سال میری رفاقت اور خدمت میں گزارے ہیں اور اب تو یوں محسوس ہوتاہے کہ ہم دونوں صدیوں سے ایک ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ۔ ہم لڑتے بھی بہت ہیں لیکن چند لمحوں بعد ہی صلح بھی ہوجاتی ہے۔ نہ میں اس سے دور رہ سکتا ہوں اور نہ وہ مجھ سے جدا ہوسکتی ہے ۔ جب سے والدین کاگھر چھوڑ کر میرے گھرآئی ہے ‘ واپس جانے کو اس کا دل نہیں کرتااگر وہ غلطی سے کہیں میرے بغیر چلے جاتی ہے تو جدائی کے یہ لمحات مجھ سے صدیوں پر بھاری گزرتے ہیں ۔ مجھے یادہے کہ ایک مرتبہ میرے بھتیجے کی شادی پر اسے میرے بغیر ملتان جانا پڑا تھا ۔شادی میں شرکت کی خواہش تو میری بھی تھی لیکن مجھے بنک سے چھٹی نہ مل سکی ۔ چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم تین دن کے لیے جداہوگئے ۔ جدائی کے یہ لمحات ہم دونوں پر اس قدر اذیت ناک گزرے جس کا ذکر میں الفاظ میں نہیں کرسکتا ۔ پھر جب ملاقات ہوئی تو پھر کبھی جدا نہ ہونے کا عہد کیا ۔ حسن اتفاق سے بیگم کا میکہ بھی لاہور میں ہی ہے ۔اس کی یہ اولین خواہش ہوتی ہے کہ ہم دونوں اکٹھے ہو کر سسرال جائیں پھر وہاں سے واپس بھی اکٹھے ہی آئیں ۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہواکہ شادی کے فنکشن رات گئے تک جاری رہا تو میں نے بیگم کو کہا آپ اپنے میکے ٹھہر جائیں اور مجھے جانے کی اجازت دیں ۔میری یہ بات اسے اچھی نہیں لگتی وہ کہتی ہے اب مجھے آپ کے بغیر نیند نہیں آتی ۔ میکہ تو میں چالیس سال پہلے چھوڑ آئی تھی اب میر ے بچوں کاگھر ہی میرا ہے ۔

اب تو ہم عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکے ہیں ۔ زندگی کے لمحات مختصر سے مختصر ہوتے جارہے ہیں ۔نہ جانے کب اور کہاں فرشتہ سامنے آکھڑا ہو اور ہمیں اپنے ساتھ لے کر چلتا بنے ۔ یہی دعا ہے کہ زندگی کے آخری سانس تک ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر یونہی چلتے رہیں جس طرح زندگی کی ہر مشکل کو باہمی اتفاق سے ختم کیا ‘ اسی طرح زندگی کا ہرلمحہ خوشگوار بن جائے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.