ترقی یافتہ قوموں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے
ذرائع آمدورفت ہردورکے تقاضوں کے مطابق ہواکرتے ہیں۔ دنیامیں جیسے جیسے
ترقی پروان چڑھتی ہے اسی تناسب سے ترقی یافتہ قومیں اپنے ذرائع آمدورفت
کووسیع اورجدیدسے جدیدبناتی ہیں۔ ذرائع آمدورفت میں راستوں کوبنیادی اہمیت
حاصل ہے۔راستوں کی اہمیت کسی دورمیں بھی کم نہیں رہی۔یہ راستے تواس وقت بھی
اہمیت کے حامل تھے جس وقت آمدورفت کے جدیدذرائع نہیں تھے۔ زیادہ ترلوگ پیدل
سفرکیاکرتے تھے۔ اس وقت کے صاحب حیثیت لوگ جانوروں پربھی سفرکیاکرتے
تھے۔راستے اس وقت کچے ضرورتھے لیکن سال ہاسال سے موجودتھے اوراب بھی
ہیں۔جوں جوں ترقی کاسفرشروع ہواتوراستوں پربھی توجہ دی جانے لگی۔کچی سڑکیں
سولنگ میں تبدیل ہوگئیں۔سولنگ نے پختہ سڑک کاروپ دھارلیا۔پختہ سڑکوں نے وقت
کے ساتھ ساتھ اپنے دامن پھیلادیئے۔چندفٹ سڑکیں کئی کئی فٹ چوڑی ہوگئیں۔یہ
سڑکیں کئی کئی ناموں سے مشہور ہونے لگیں۔کہیں اسے جی ٹی روڈ، توکہیں اسے
ہائی وے روڈ کہاجانے لگا۔یہ جی ٹی روڈ اورہائی وے روڈ ترقی کرکے ایکسپریس
وے اورموٹروے کے ناموں سے پکاری جانے لگیں۔موٹروے کانام بھی اب پرانے دورکی
یادلگتاہے اب تومیٹروروٹ کادوردورہ ہے۔سڑکیں جتنی کشادہ اورشفاف ہوں گی ۔
سفراتناہی جلدی اورآرام وآسانی سے طے ہوگا۔عوام کوجدیددورکے تقاضوں
اورضرورتوں کے مطابق ذرائع آمدورفت فراہم کرنااورانہیں جلداورآرام دہ سفرکی
سہولیات فراہم کرناوفاقی وصوبائی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے
ہے۔یہی وجہ سے دنیابھرکی طرح وطن عزیزپاکستان میں بھی سڑکوں کی تعمیرومرومت
اورتوسیع پرخصوصی توجہ دی جاتی ہے۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اورذرائع
آمدورفت میں اضافے کی وجہ سے ہرنئی مرمت وتوسیع شدہ سڑک تین سے پانچ سال
میں کنجوس ہوجاتی ہے۔اسے مزیدوسیع کرنے کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ہمارے قومی
وصوبائی ترقیاتی بجٹ کاایک حصہ سڑکوں کی تعمیرومرمت وتوسیع پرخرچ ہو جاتا
ہے۔موجودہ حکومت نے بھی سڑکوں پرخصوصی توجہ دی ہے۔نئی نئی سڑکیں تعمیرکی
گئی ہیں۔طویل راستوں کاسفرمختصرراستوں میں تبدیل کیاگیا ہے۔بین الاضلاعی
سفرڈیڑھ سے چارگھنٹے کم کیاگیا ہے۔یوں توپاکستان میں ہزاروں سڑکیں اورروڈ
پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک روڈ چوبارہ روڈ بھی ہے۔چوبارہ روڈ لیہ شہرمیں
اسلم موڑ سے شروع ہوکرگڑھ موڑ تک جاتاہے۔اسی روڈ کوایک اعزازیہ بھی حاصل ہے
کہ ضلع لیہ کے قصبہ چوک اعظم میں اسی روڈ پرمنی مینارپاکستان بھی موجود
ہے۔اب اس روڈ کواسلم موڑ لیہ سے چوک اعظم تک دورویہ بنایاجارہا ہے۔ جس
کاسنگ بنیادوزیراعلیٰ شہبازشریف رکھ چکے ہیں۔آیئے اسی روڈ کی ایک اورکہانی
پڑھ کرلطف اٹھایئے۔ لیہ شہرکے رہنے والے تواس کہانی کوجانتے بھی ہیں
اورآنکھوں سے دیکھ بھی چکے ہیں۔البتہ لیہ شہرکے ایسے نوجوان جواس وقت
پیدانہیں ہوئے تھے یاابھی کم سن بچے تھے ان کے علم میں ضروراضافہ ہوگا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم اپنے آرٹیکل اورخبریں ہاتھ سے لکھ کربذریعہ ڈاک
قومی وعلاقائی اخباروں کوبھیجاکرتے تھے۔البتہ محدودپیمانے پرفیکس کرنے کی
سہولت موجودتھی۔ای میل کی سہولت ابھی میسرنہیں تھی۔اس وقت کالم اورمضامین
رہے ایک طرف خبریں بھی تیسرے اورچوتھے روزشائع ہوا کرتی تھیں۔یہ سب باتیں
اس لیے لکھی ہیں تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ ہم جوکہانی لکھنے جارہے ہیں وہ
کتنی پرانی اورکس دورکی ہے۔کہانی کچھ یوں ہے کہ جمعہ کادن تھا راقم الحروف
اپنے ایک دوست کالم نویس کے پاس گیا۔ وہاں سے بارہ بجے دن اپنی امامت کے
فرائض اداکرنے کے لیے جامع مسجدگلزارمدینہ ریلوے کالونی میں آیا۔راقم
الحروف جس وقت دوست کالم نویس سے مسجدمیں آیاتواس وقت چوبارہ روڈ لیہ پرایک
پتھرکاٹکڑااوربجری کاایک کنکربھی دکھائی نہ دیا۔جمعہ کی نماز کے امامت کے
فرائض اداکرکے دوپہرکاکھاناکھانے اورکچھ دیرقیلولہ کرنے کے بعدریلوے پھاٹک
پرگیا توراقم الحروف کی حیرت کی انتہانہ رہی کہ چوبارہ روڈ کی مرمت ہوچکی
ہے۔چوبارہ روڈ کی اس وقت آناًفاناً مرمت پرراقم الحروف نے روزنامہ نوائے
وقت میں ایک آرٹیکل بھی لکھاتھا۔اس آرٹیکل میں لکھے گئے الفاظ کچھ یوں
تھے’’ چوبارہ روڈ پرآیاتویہ دیکھ کرمیری حیرت کی انتہاہوگئی کہ اس روڈ کی
مرمت ہوچکی ہے۔دکانداروں سے پوچھا کہ سڑک کی آناًفاناً مرمت کیسے ہوگئی
۔انہوں نے بتایا کہ بیس فٹ چوڑی اورتقریباً ایک کلومیٹرلمبی سڑک کی مرمت
صرف ڈیڑھ گھنٹہ میں ہوئی۔یہ سن کرمیری حیرت اوربھی بڑھ گئی کہ وہ کون سی
خدائی مخلوق تھی جس نے دنوں کاکام صرف ڈیڑھ گھنٹہ میں کردیا ہے۔دکانداروں
نے بتایا کہ اس سڑک کی مرمت جدیدمشینری کے ذریعہ کی گئی ہے۔اس سڑک کی مرمت
ریلوے پھاٹک سے سیشن ہاؤس تک کی گئی ہے۔مرمت کرتے ہوئے سڑک کودونوں طرف سے
دودوتین تین فٹ چھوڑدیاگیا ہے۔ہم نے سوچاکہ سڑک کی مکمل مرمت کیوں نہیں کی
گئی شایداس لیے کہ اگرکسی کواس سڑک کی مرمت پراعتراض ہوتووہ وہاں چلے جہاں
مرمت نہیں کی گئی۔‘‘ اسی آرٹیکل کے اختتام پرلکھا ہے کہ ’ ’ اگرکسی کوہماری
بات پریقین نہ آئے توسڑک سے بجری صاف کرکے دیکھ لے نیچے سے بہترین سڑک
برآمدہوگی‘‘ راقم الحروف کے علاوہ لیہ سے معروف کالم نویس مظہراقبال
کھوکھرنے بھی اسی سڑک کی اچانک مرمت پرآرٹیکل لکھاتھا۔ انہوں نے لکھا تھا
کہ اتنی جلدی سڑک کی مرمت کرناانسانوں کاکام نہیں یہ فرشتوں نے ہی بنائی
ہے۔‘‘ان دوآرٹیکلزکی اشاعت کے بعد چوبارہ روڈ کودوبارہ مرمت کیاگیا ۔چوبارہ
روڈ کودوبارہ مرمت کرنے سے پہلے اسے پہلی بارکٹ لگاکرکئی جگہوں سے زخمی بھی
کیاگیا ۔اس کے بعدجب بھی کسی سڑک یاروڈ کی مرمت کی جاتی ہے تواس کوکٹ
لگاکرجگہ جگہ سے زخمی ضرورکیاجاتاہے۔ یہ مرمت ڈیڑھ گھنٹہ میں نہیں ایک ہفتہ
میں مکمل ہوئی۔اس کے بعدلیہ شہرمیں دومرتبہ چوبارہ روڈ کی مرمت وتوسیع
ہوچکی ہے۔بارہ سال میں تیسری مرتبہ چوبارہ روڈ کی مرمت وتوسیع ہورہی
ہے۔اسلم موڑ سے ریلوے پھاٹک تک سڑک کی مرمت ہوچکی ہے۔ لیہ مائنرسے فوارہ
چوک تک دورویہ سڑک کی مرمت بھی ہوچکی ہے ۔ ریلوے پھاٹک سے پل لیہ مائنرتک
زیرمرمت چوبارہ روڈ شہریوں کے لیے وبال جان بناہواہے۔ٹھیکیدارنے پتھرڈال
کراسے شہریوں کوپریشان کرنے کے لیے چھوڑدیا ہے۔شہریوں نے تمام ذرائع سے اس
روڈ کی مرمت وتوسیع مکمل کرنے کے لیے آوازاٹھائی ۔ کسی پرکوئی اثرہی نہیں
ہوا۔ اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئیں۔چوبیس اپریل کے مقامی اخبارمیں اس
حوالے سے خبریوں شائع ہوئی کہ چوبارہ روڈ کی تعمیرکامسئلہ عوام
اورتاجربرادری مسلسل پریشانی سے دوچار، عوام ٹھوکریں کھانے پرمجبور،
تاجربرادری کاکاروبارٹھپ ہوکررہ گیا،انجمن تاجران کی اس مسئلہ پرمسلسل
خاموشی، اس مسئلہ کوحل نہیں کراسکی اوراسے تاجروں کے معاملات سے دل چسپی
نہیں لے رہے ہیں توعہدیداران کوچاہیے کہ وہ استعفے دے دیں اورنئے انتخابات
کرائے جائیں۔یہ مطالبہ اپنے ایک مشترکہ بیان میں چوبارہ روڈکے تاجروں
اورشہریوں نے کیا ہے۔مشترکہ بیان میں چوبارہ روڈ کے تاجروں اورشہریوں نے
مزیدکہا ہے کہ چیئرمین بلدیہ ارکان اسمبلی کی طرف سے بے حسی کی بھی
شدیدمذمت کی گئی اورکہاگیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایسے نمائندوں کوووٹ
نہیں دیں گے اوران کے خلاف بھرپومہم چلائی جائے گی۔مشترکہ بیان میں
مزیداعلیٰ حکام کووارننگ دی گئی ہے کہ اگرایک ہفتہ کے اندرسڑک کاکام مکمل
نہ کیاگیا توروڈ بلاک کردیئے جائیں گے۔پندرہ مئی کے ایک اورمقامی اخبارمیں
اس حوالے سے یہ خبرشائع ہوئی ہے کہ تفصیل کے مطابق مسلم لیگ ن کے
ممبرصوبائی اسمبلی چوہدری اشفاق احمدکے دست شفقت سے بننے والے شہرکے میں
چوبارہ روڈ پرٹھیکیدارکی جانب سے کام کوادھوراچھوڑدیاگیا ہے۔جس کے باعث
چوبارہ روڈ لیہ مائنرپل سے ریلوے پھاٹک تک روڈ پرمکمل طورپرپتھرڈال دیاگیا
جس کے بعدٹھیکیدارموصوف کام بندکرکے رفوچکرہوگیا ہے۔سڑک پرپتھرہونے کی وجہ
سے دن بھرچلنے والے ٹریفک کوشدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جب کہ
گاڑیوں موٹرسائیکلوں کابھی شدیدنقصان ہورہا ہے۔جب کہ ٹریفک کی روانی کی وجہ
سے اڑنے والی گردومٹی نے چوبارہ روڈ کے دکانداروں وشہریوں کی زندگیوں
کواجیرن کردیاہے۔دھول مٹی سے دکانداروخریدار، مسافر، طالب علم سانس وگلے کی
مختلف بیماریوں کاشکارہورہے ہیں۔سڑک پرپتھرہونے کی وجہ سے رکشہ وموٹرسائیکل
پرسفرکرنے والی خواتین، بزرگ وبچے شدیدمشکلات کاشکارہیں۔کروڑوں روپے کے
فنڈزکے عوض شہریوں کوملنے والی اس اذیت پرحیرت کااظہارکیاجارہا ہے۔اخبارات
کے علاوہ سوشل میڈیاکے ذریعے بھی شہریوں نے چوبارہ روڈ کی مرمت وتوسیع
جلدمکمل کرنے کے لیے اپنی آوازمتعلقہ حکام تک پہنچانے کی کوشش کی۔اس حوالے
سے فیس بک پرشہریوں نے کیالکھا ہے آپ بھی پڑھ لیں۔ چوبارہ روڈ کودورویہ
کرنے کاسنگ بنیادرکھنے کے بعدشہبازشریف انتظامی دورے پرلیہ آئے توایک شہری
نے فیس بک پریہ لکھا کہ میاں صاحب یہ شہرکابڑامرکزی اورکاروباری روڈ
ہے۔دفاتر، سکولز، ہسپتال، کورٹ، کچہری، بس سٹینڈکوجانے کاواحدراستہ ہے۔اس
کی ابترحالت نے صرف گاڑیاں ہی نہیں انسانی جسموں کابھی پرزہ پرزہ ہلاکے رکھ
دیاہے۔کاروباربھی تباہ۔پارلیمینٹیرین ،انتظامیہ کی غفلت پرنوٹس لیاجائے
اورروڈ کوبلاتاخیرمکمل کیاجائے۔آپ کی مہربانی ہوگی تاجرواہلیان شہرکی
فریاد۔اس سے پہلے ایک شہری نے فیس بک پراسی روڈ کی نامکمل مرمت پریوں لکھا
اس سے عوام کس اذیت کاشکارہیں وہ بھی واضح ہوجائے گا۔ کہ لیہ شہرکی
موٹروے۔اگرکسی نے پسلیاں سیدھی کروانی ہوں تواس روڈ کے مزے لے۔جہاں گاڑیوں
کی شاخیں سیدھی فری میں کی جاتی ہیں۔اورٹائرپنکچربھی کیے جاتے ہیں۔ایک شہری
نے کمنٹس میں لکھا ہے کہ ہمیں تواس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ لاہورکی میٹرو۳
سال میں کیسے بن گیا اوریہاں ایک تیس کلومیٹرسڑک نہیں بنی ۵ سال میں
۔چوبارہ روڈ کے جس ٹکڑے کی اس تحریرمیں بات ہو رہی ہے وہ تیس کلومیٹرنہیں
صرف ایک کلومیٹرہے۔چوبارہ روڈ کے دکانداروں نے اس روڈ کی نامکمل مرمت
پراحتجاج کیا توممبرصوبائی اسمبلی چوہدری اشفاق دکانداروں کوتسلیاں دینے
آگئے ، دکانداروں نے ان کی ایک نہیں سنی۔صدرانجمن تاجران ملک مظفراقبال
دھول کی اس یقین دہانی پرکہ سات روزکے اندراس روڈ کی مرمت مکمل ہوجائے گی
دکانداروں نے احتجاج ختم کردیا۔اس وقت تک چوبارہ روڈ موہنجوداڑوکے کھنڈرات
کامنظرپیش کررہا تھا۔ صدرانجمن تاجران کی دی گئی مدت مرمت کاآخری دن تھا کہ
زیرمرمت چوبارہ روڈ کی جدیدمشینری سے صفائی شروع ہوئی جودوہفتوں میں مکمل
ہوئی۔صفائی کے بعدکھنڈرات کے مناظر توصاف ہوگئے ہیں اب سڑک پرڈالے گئے
پتھرآوارہ ہوگئے ہیں۔ ان آوارہ پتھروں کی تعدادمیں آئے روزاضافہ ہورہا
ہے۔کچھ دن کم ایک ماہ پہلے مقامی ایف ایم ریڈیوکے پروگرام ٹاپ سٹوری میں
ڈپٹی کمشنرلیہ سیّدواجدعلی شاہ نے میزبان عنائت اللہ کاشف کے سوال کے جواب
میں کہاتھا کہ میں دودن میں مثبت رپورٹ دوں گا۔دکانداروں کے احتجاج کے بعد
چوبارہ روڈ کی صفائی مکمل ہوئے بھی دوہفتے ہوچکے ہیں۔جس وقت شہبازشریف
چوبارہ روڈ کی توسیع کاسنگ بنیادرکھنے لیہ آئے اس وقت لیہ شہرکی متعددسڑکیں
راتوں رات مرمت ہوئیں۔شہری صبح کے وقت اپنی دکانوں اوردفاترمیں جاتے
توروزانہ دوسے تین ایسی سڑکیں مرمت شدہ دکھائی دیتیں جن کے ایک دن پہلے
مرمت ہونے کاکوئی نام ونشان بھی نہیں ہوتاتھا۔چوبارہ روڈ پرپتھرڈالے ہوئے
پانچ ماہ ہونے کو ہیں ۔ دکاندار، تاجر، شہری اورمسافریہ سوچنے پرمجبورہیں
کہ جب ڈیڑھ گھنٹہ میں سڑک کی مرمت ہوسکتی ہے، جب ایک ایک رات میں دوسے تین
سڑکیں مرمت ہوسکتی ہیں توپانچ ماہ میں چوبارہ روڈ کاایک کلومیٹرکے ٹکڑے کی
مرمت وتوسیع مکمل کیوں نہیں ہوسکتی۔ ہم نے ایک دوست سے پوچھاکہ کہیں اس روڈ
کی مرمت اس وجہ سے توادھوری نہیں چھوڑدی گئی کہ مقامی ممبرصوبائی اسمبلی
حکومتی پارٹی کوخیربادکہہ چکے ہیں ،انہوں نے جواب دیا کہ ارکان اسمبلی
کاکام پراجیکٹ منظور کرانا اور فنڈزلے آناہوتاہے۔ اب سڑک کی مرمت کاکام
متعلقہ محکموں کاہے۔ عوام اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ
چوبارہ روڈ کے دکانداروں اورلیہ شہرکے شہریوں کوروڈ مکمل نہ کرکے کس بات کی
سزادی جارہی ہے۔لیہ کے شہری کب تک اس اذیت میں مبتلارہیں گے۔ہم لیہ کے
شہریوں کی طرف سے اس تحریرمیں وزیراعلیٰ کی توجہ اس جانب دلاتے ہیں کہ وہ
ریلوے پھاٹک سے پل لیہ مائنرتک چوبارہ روڈ کی نامکمل مرمت وتوسیع کافوری
نوٹس لے کراس روڈ کے اس ٹکڑے کی مرمت مکمل کرائیں۔تاکہ شہری اذیت سے محفوظ
ہوسکیں۔لگتا ہے جن فرشتوں نے ڈیڑھ گھنٹہ میں اس روڈ کی مرمت کی تھی اب وہ
چوبارہ روڈ کے فرشتے غائب ہوچکے ہیں۔ہم ان فرشتوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ
جہاں بھی ہیں واپس آکراس چوبارہ روڈ کی مرمت مکمل کریں۔ہمارے ایک اور دوست
کہتے ہیں کہ لیہ کے تمام روڈزکوچوبارہ روڈ کی موجودہ حالت کی طرح ہوناچاہیے
کہ اس سے تیزرفتاری میں کمی آتی ہے جس سے حادثات میں بھی کمی آتی ہے۔ |