گھر پہنچ کر صبا نے نماز عشاء ادا کی. دیر تک دعا میں
ہاتھ اٹھا کر اللہ تبارک و تعالٰی کی حمد و ثنا کرتی رہی جس نے اسے ایک
غلاظت کے ڈھیر سے نکال کر ایک عزت کی زندگی بسر کرنے کا موقع دیا.
رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی شروعات اگلے دن سے تھی. سحری میں اٹھ کر اس
کو ایک خوش آئند احساس ہوا کیونکہ عمران اس سے پہلے کچن میں موجود تھا.
دونوں نے مل کر سحری بنائی. افطار میں بھی صبا نے بہت تردد کیا. اس بابرکت
مہینے کے توسط سے صبا کو پتا چلا کہ اس کا جیون ساتھی صوم و صلاه کا پابند
شخص تھا. وہ تراویح کے لیے بھی اہتمام سے جاتا. صبا کے ساتھ رہنے کے باوجود
صبا نے محسوس کیا کہ وہ ہمیشہ احترام اور عزت کے ساتھ ہی اس کو دیکھتا تھا.
صبا اس کی قانونی اور مذہبی اعتبار سے اس کی شریک حیات تهی مگر عمران نے
صبا کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں کی تهی. وه اپنی زبان پر قائم تھا کہ جب تک
صبا دل سے اسے اپنا جیون ساتھی مان لیتی وہ اس پر کسی قسم کا حق نہیں جتائے
گا.صبا کب اور کیسے عمران کی محبت میں گرفتار ہوئی اس کو پتا ہی نہیں چلا.
اس نے خود بخود عمران کے کپڑوں کا اس کے کمرے کا خیال رکھنا شروع کر دیا.
وہ اکثر عمران کے کپڑے اپنی پسند کے نکال کر استری کر کے رکھتی اور عمران
بہت شوق سے وہ زیب تن کر کے آفس جاتا. کھانا پکاتے وقت وہ خاص اس بات کا
خیال رکھتی کہ عمران کی پسند کا ہو آج عمران کے ایک دوست نے ان کو افطار
پارٹی پر بلایا تھا. صبا پر آج صبح سے بوکھلاہٹ طاری تھی. اس کو یہ خیال
ہولائے جارہا تھا کہ اگر اسے کسی نے ایک طوائف زادی کے طور پر پہچان لیا تو
عمران کی سماج میں کیا عزت رہ جائے گی. سارا دن وہ اسی شش و پنج کا شکار
رہی. جب شام کو عمران گهر آیا تو اس کی اڑی اڑی رنگت دیکھ کر نرمی سے گویا
ہوا :
"صبا! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے. آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئی. "
صبا نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا :
"اگر وہاں کسی نے مجھے پہچان لیا تو؟
آپ کی کیا عزت رہ جائے گی؟
عمران نے مسکرا کر جواب دیا :
بس ! ہماری بیگم صاحبہ اتنی سی بات سے پریشان ہیں.
صبا نے حیرانگی سے سر اٹھا کر اس کو دیکھا. اس نے آگے بڑھ کر نرمی سے صبا
کو مخاطب کر کے کہا :
"اگر کوئی نام نہاد عزت کے ٹھیکیدار نے آپ پر انگلی اٹھانے کی غلطی کی تو
میں اس انگلی کو توڑنے کی جرات رکھتا ہوں. آپ کو پہچاننے کا مطلب ہے کہ وہ
نام نہاد عزت کا ٹھیکیدار بھی ان گلیوں میں جاتا ہے تو جو خود وہاں کا
خریدار ہے وہ آپ پر گندگی اچھالنے کی حماقت نہیں کرئے گا.
اگر کوئی احمق ایسا ہوا تو وہ اپنے انجام کے لیے تیار رہے.
میں آپ سے شادی کرکے ہرگز پشیمان نہیں ہوں."
عمران کے یہ جملے ٹھنڈی پهوار کی طرح اس کی زمین دل کو تر کرگئے. صبا نے
مسکرا کر کہا :
میں ابھی تیار ہو کر آتی ہوں.
عمران نے اسے آواز دے کر کہا پلیز! آج سرخ رنگ کا لباس پہنئے گا.
صبا دل ہی دل میں اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتی تیار ہونے کےلیے چل پڑی.
(باقی آئندہ). |