پہلی خاتون پرجوش انداز میں “ بہن میری زندگی میں تو سُکھ
آگیا٬ پیر صاحب کی تعویز نے ساس اور نند دونوں سے ہی پیچھا چھڑوا دیا اور
میاں بھی قابو میں آگئے “-
دوسری خاتون عاجزانہ لہجے میں “ اگر واقعی ایسا ہی تو مجھے بھی لے چلو پیر
صاحب کے پاس٬ کیا بتاؤں بیٹی سسرال میں بہت دکھی ہے٬ اس کے بھی مسئلے حل
ہوجائیں گے٬ جو نذرانہ ہی میں پیش کردوں گی“-
پہلی خاتون “ ہاں ہاں کیوں نہیں جب بولو چلتے ہیں٬ بڑے پہنچے ہوئے پیر ہیں“-
آپ نے اس قسم کے جملے یقیناً اپنے اردگرد کی اکثر خواتین کے منہ سے سن رکھے
ہوں گے جو ہمارے معاشرے کی بھرپور عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں- ناخواندگی
کے سبب ہمارے ملک کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد ایسے جعلی پیروں٬ فقیروں٬
عاملوں اور بابوں کے در پر اپنے مسائل حل کروانے پہنچی ہوتی ہے جن کے خود
کے مسئلے حل نہیں ہورہے ہوتے-
یہاں میں ان جعلی پیروں فقیروں سے کیوں شکوہ کروں کیونکہ وہ تو اپنی دکان
اسی وجہ سے سجا کر بیٹھے ہیں کہ لوگوں کو بیوقوف بنائیں اور مال و دولت
کمائیں- بات تو ہماری عقل کی ہے جو ہم لوگوں کی سنی سنائی باتوں پر آنکھیں
بند کر کے یقین کر لیتے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے آستانوں پر حاضری کے لیے
پہنچ جاتے ہیں-
اور پھر یہاں سے ایک بلیک میلنگ اور لوٹ کھسوٹ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ
شروع ہوجاتا ہے- یوں تو ان جعلی عاملوں اور پیروں کا شکار بننے والوں میں
مرد و خواتین دونوں ہی شامل ہیں لیکن ان زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو
آسانی سے ان کی عقیدت مند بن جاتی ہیں اور مزید نئے مسائل کو جنم دے بیٹھتی
ہیں-
اگر بات نوجوان مردوں کی کی جائے تو ان بنیادی مسائل میں من پسند لڑکی سے
شادی اور اچھی نوکری ہی شامل ہوتے ہیں چاہے باقی دنیا جائے بھاڑ میں٬ اور
پھر وہ انہی مسائل کو لے پیروں اور عاملوں کے پاس اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے
یا کوئی اچھی نوکری لگنے کے لیے کوئی تعویذ طلب کرتے دکھائی دیتے ہیں- اس
طرح یہ عامل اور بابے بھی خوب ان نوجوانوں کی نفسیات سے کھیلتے ہیں اور
اپنی جیبیں بھرتے ہیں- بعض اوقات تو نوجوان محبوبہ سمیت ہی ان آستانوں پر
موجود ہوتا ہے اور پھر بات وہی محبوب آپ کا لیکن قدموں میں میرے- وہاں سے
معاملہ کچھ اور ہی رنگ پکڑ لیتا ہے-
دوسری جانب خواتین اپنی ساس٬ نندوں٬ شوہر سے ناچاقی٬ بیٹی کے سسرال کے ظلم
جیسے کئی مسائل کا رونا لیے ان جعلی آستانوں پر پہنچ جاتی ہیں جس کے بعد ان
خواتین کے یہ مسائل مزید عذاب بن جاتے ہیں کیونکہ یہ پیر فقیر ان سے مختلف
چلوں کے نام پر یا حیلے بہانوں کے ذریعے بھاری رقوم بٹورنے لگتے ہیں اور جب
وہ خواتین کے پاس کچھ نہیں بچتا اور وہ بےبس ہوجاتی ہیں تو پھر یہ پیر
انہیں بلیک میل بھی کرنا شروع کردیتے ہیں- اسی بلیک میلنگ کا شکار ہو کر
بعض اوقات یہ خواتین اپنی عزت بھی گنوا بیٹھتی ہیں-
یقین مانیے تمام مسائل کا حل کسی آستانے یا درگاہ پر نہیں بلکہ خود آپ کے
اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے- حل تلاش کرنے کی کوشش کیجیے٬ اپنی خاندان کے افراد
کے سامنے اپنے مسئلہ رکھیے٬ ان سے بات کیجیے٬ انہیں اعتماد میں لیجیے اور
ان پر اعتماد کیجیے٬ آپ کے ہر قسم کے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے- بیٹی
ماں کی عکس ہوتی ہے٬ بیٹی کی اچھی تربیت اور اسے صبر کا دامن تھام کر رکھنے
کی تلقین کیجیے اور اخلاق سے پیش آنا سکھائیے٬ اس کی ہر غلط بات میں اس کا
ساتھ مت دیجیے - کیسے ممکن نہیں کہ وہ سسرال کا دل نہ جیت سکے- اور یہی چیز
جب خواتین اپنے گھر کے اندر بھی رائج کریں گی تو پھر چاہے ساس کا رویہ غلط
ہو یا نند کا٬ انہیں خود اپنے رویے پر شرمندگی ہوگی-
ان بابوں کے پاس آپ کے مسائل کا حل نہیں ہے کیونکہ آپ کو کیا پتہ کہ یہ خود
بھی روز گھر میں بیوی سے جلی کٹی سنتے ہوں اور آج تک اسے قابو میں نہیں
کرسکے-
اگر بات کی جائے ان عاملوں اور بابوں کے طریقہ واردات کی تو وہ بھی انتہائی
دلچسپ ہوتا ہے٬ کچھ تو یہ اپنے اشتہارات سے آپ کو متاثر کرتے ہیں جن میں
ایسے مسائل کا ذکر ہوتا ہے جو تقریباً ہر دوسرے گھر میں پائے جاتے ہیں جیسے
کہ من پسند شادی٬ ساس نندوں سے رنجش٬ دوسری شادی کی خواہش٬ شوہر سے ناچاقی
اور بہترین روزگار٬ تمام مسائل کا حل صرف چوبیس گھنٹوں میں (چاہے بابا کے
اپنے مسائل برسوں پرانے ہوں)٬ کام نہ ہونے کی صورت میں رقم واپس-
دوسرا طریقہ وہی ہے جو میں کالم کے آغاز میں بیان کر چکا ہوں- جی ہاں ایسی
خواتین بھی درحقیقت ان جعلی پیروں کی آلہ کار ہوتی ہیں جو مسائل میں گھری
مختلف خواتین کے سامنے ان پیروں کے جھوٹے کمالات کا بڑھ چڑھ کا تذکرہ کرتی
ہیں اور پریشان خاتون کو گھیر کر آستانے تک لے جاتی ہیں اور اپنا کمیشن لے
کر غائب ہوجاتی ہیں- ایسی خواتین سے بھی بچیے اور کسی بھی فرد چاہے وہ مرد
ہو یا خاتون کی بات پر بغیر تصدیق کے یقین مت کیجیے- ورنہ آپ اپنے گھر کو
اپنے ہاتھوں سے خود برباد کر ڈالیں گے-
ان بابوں کا سب سے متاثر کن طریقہ جو اکثر کارگر ثابت بھی ہوتا ہے وہ یہ ہے
کہ بالفرض آپ براہ راست ان کے جعلی عامل کے آستانے پر پہنچ گئے تو باہر
انتظار گاہ میں بیٹھے ان کے کارندے (جو خود تعویز کے گاہک بن کر بیٹھے ہوتے
ہیں) آپ سے آپ کے تمام مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کر لیں گے اور پھر
یہ معلومات اندر بابے تک پہنچا دی جائے گی جس کی آپ کو خبر بھی نہیں ہوگی-
اس کے علاوہ انتظار گاہ میں موجود ان کے کارندے آپ کے سامنے اپنے عامل یا
پیر کی تعریفوں کے پُل بھی باندھیں گے اور وہ بھی آپ کے دماغ پر سوار
ہوجائیں گی- جس کے بعد آپ جیسے ہی اندر بابے کے سامنے حاضری دیں تو وہ آپ
کے بولنے سے قبل ہی آپ کو آپ کے تمام مسائل کے بارے میں بتا دے گا جسے سن
کر آپ حیران رہ جائیں گے اور اسے کوئی پہنچی ہوئی شخصیت سمجھنے لگیں گے اور
یوں آپ کو ان پر یقین پختہ ہوجائے گا-
کالم بہت طویل ہوگیا کیونکہ یہ عنوان ہی کچھ ایسا ہے٬ اس جتنا لکھا جائے کم
ہے- آخر پر بس ایک بار پھر اتنا کہنا چاہوں گا اپنے مسائل کا حل صرف اﷲ
تعالیٰ سے طلب کیجیے اور کسی پیر اور عامل کا شکار بننے سے بچیے- یاد رکھیے
انسان صرف کوشش کر سکتا ہے کامیابی اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے- آپ اپنی کوشش
کیجیے اور کامیابی کے لیے اﷲ سے دعا کیجیے- ضروری نہیں کہ وہ سب کچھ ہو جو
آپ چاہتے ہیں بعض کاموں میں اﷲ تعالیٰ کی مصلحت بھی ہوتی جس سے آپ بے خبر
ہوتے ہیں- اس کے علاوہ مردوں کو بھی چاہیے کہ نہ تو وہ خود اپنی کسی خواہش
کے حصول کے لیے ان جعلی بابوں آستانوں پر حاضری دیں اور ساتھ ہی اپنی گھر
کی خواتین کو بھی معاشرے میں پھیلی اس قسم کی گمراہیوں٬ خرابیوں اور جعلی
پیروں کے ہتھکنڈوں کے حوالے سے باخبر رکھیں-
کالم شئیر کیجیے تاکہ پیغام دور تک پھیل سکے اور لوگوں کی اصلاح ممکن
ہوسکے- |