ذہنی پسماندگی ایک قابلِ علاج مرض ہے، ہمارے ہاں اس مرض
کو مرض سمجھا ہی نہیں جاتا، اس ذہنی پسماندگی، غفلت اور جہالت کی وجہ سے
لوگوں پر جوظلم بھی ہو وہ اسے نعوذباللہ ،اللہ کی مرضی سمجھتے ہیں،ہمارے
ہاں بعض اوقات ظلم کے خلاف بولنا تو درکنار سوچنا بھی معیوب سا لگتا ہے،
لوگوں کے پاس پینے کے لئے صاف پانی نہیں ، بچوں کے لئےمعیاری سکول نہیں اور
روزگار کے مواقع نہیں تو لوگ اس کو اپنے حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی نہیں
سمجھتے بلکہ اکثر مقامات پر تو ٹریفک حادثات کو بھی اللہ کی مرضی کہہ کر
لاشوں کو دفنا دیا جاتا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایف آئی آر تک درج
نہیں کروائی جاتی۔
گزشتہ دنوں آزادکشمیر کےضلع نیلم کے علاقےجاگراں میں پل گرنے سے تقریبا
چالیس طلبا وطالبات نالےمیں ڈوب گئے۔ اس موقع پر میڈیا نے یہ تو بتایا کہ
آزاد کشمیر کے وزیراعظم امدادی سرگرمیوں کی براہ راست نگرانی کے بعدنیلم
سے فوری واپسی پر سی ایم ایچ پہنچے جہاں انہوں نےنیلم حادثے کے زخمیوں کی
عیادت کی نیز وزیراعظم کے حکم پر اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں باقی بچ جانے والے
طالب علموں کے کھانے اور رہائش کا بھی فوری انتظام کیا گیا۔
لیکن عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر سال پرانے پلوں اور سڑکوں کی تعمیر
نو کے لئے آزادکشمیر حکومت اربوں روپے کا جو بجٹ منظور کرتی ہے ، وہ اربوں
روپے سالہا سال سے کہاں جاتے ہیں!؟یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پورے آزادکشمیر
سے مسلسل ٹریفک حادثات کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں اور حکمران تعزیتی
بیانات دے کر خاموش ہو جاتے ہیں۔
عوام کے مسلسل اس طرح کے حادثات میں مارے جانے میں آزاد کشمیر کے وزیر
سیاحت اور صدر نیز وزیراعظم برابر کے شریک ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ان
غافل حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائیں نیز شاہرات اور پلوں کی تعمیر کے
سلسلے میں اربوں روپے کے بجٹ کے ہڑپ ہونے کے خلاف زبان کھولیں اور حادثات
کی صورت میں مذکورہ اتھارٹیز پر ایف آئی آر درج کروائیں۔
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دیں ہے
یاد رہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے سال ۲۰۱۷ و ۲۰۱۸ کےلئے سڑکوں کے کنارے
حفاظتی دیوار بنانے اور سڑکوں و پلوں کی مرمت کے لئے نو ارب روپے مختص کر
رکھے ہیں۔ یہ نو ارب روپے اگر دیانتداری سے آزاد کشمیر میں صرف کئے جائیں
تو پورے آزادکشمیر کی تقدیر سنور جائیگی لیکن پورے پاکستان میں اور خصوصاً
آزاد کشمیر میں ٹریفک حادثات پر عوامی احتجاج کا تصور ہی نہیں لوگوں کو
پتہ ہی نہیں کہ ان کے پیارے کس کی غفلت کی وجہ سے ان سے جدا ہورہے ہیں۔
یہ نہ ہی تو کوئی سیاسی مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی پارٹی سے متعلق ہے بلکہ ایک
خالص عوامی مسئلہ ہے کہ عوامی بجٹ کو کالی بھیڑیں چٹ کرجاتی ہیں جبکہ لوگ
اپنے پیاروں کے بچھڑنے پر محض کفِ افسوس ملتے رہتے ہیں۔
بحیثیت پاکستانی ہمیں جاننا چاہیے کہ ہمارے ہاں سڑکوں کے گرد ناجائز
تجاوزات،اپنی باری کا انتظار نہ کرنا، تنگ سڑکیں، پرانے پُل، برق رفتاری،
گنجائش سے زیادہ وزن ، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی،موبائل فون کا
استعمال،غیرمعیاری و پرانی گاڑیاں اور گاڑیوں میں غیر معیاری پرزوں کا
استعمال ٹریفک حادثات کی اہم وجوہات میں سے ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اناڑی ڈرائیور اور غیر معیاری گاڑی کو روٹ پر کون
آنے دیتا ہے!؟ سالہا سال سے پرنی سڑکوں اور پُلوں سے گر کر مرنے والوں کا
خونِ ناحق کس کی گردن پر ہے؟کیا اربوں روپے کا بجٹ ہڑپ کرنے والے سرکاری
بابو شہریوں کی جان و مال اور تحفظ کے ذمہ دار نہیں ہیں؟
اگر آپ یہ آگاہی اور شعور رکھتے ہیں اور اس بات کو سمجھتے ہیں کہ حکومت
اپنے فرائض سے غفلت برتتی چلی آرہی ہے تو پھر حکومت کو بیدار کرنے کے لئے
اپنے عوام کو شعور دیں، شعور اور آگاہی کے ذریعے لوگوں کی ذہنی پسماندگی
کا علاج کریں، ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کا خون رائیگاں نہ جانے دیں اور
اس خون کو بنیاد بنا کر غافل حکمرانوں کے خلاف احتجاج کا آغاز کریں۔
|