جب عشق سکھاتا ہے

غزوۂ بدر کے موقع پر ایک کم سن نوجوان مجاہدینِ اسلام کی صفوں میں چھپتا پھر رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صف بندی کے دوران اس نوجوان کو دیکھ کر فرمایا : بیٹا! ابھی تمہاری عمر لڑنے کی نہیں ہے، اس لئے تم واپس چلے جاؤ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم سن کر وہ نوجوان جو کم عمری کے باوجود دل میں شہادت کی شدید آرزو رکھتا تھا آبدیدہ ہوگیا، اور عرض پرداز ہوا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں جنگ میں شریک ہونے کی اجازت کا طلب گار ہوں، شاید میرا لہو اللہ کی راہ میں کام آجائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نوجوان کا جذبہ ایمان دیکھ کر اُسے اجازت مرحمت فرما دی اور اسے تلوار بھی عطا کی۔ تاریخ اس نوجوان کو حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے۔ جنگ کا آغاز ہوا تو حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دشمن پر ٹوٹ پڑے، آخر دادِ شجاعت دیتے ہوئے فقط سولہ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے اور اپنا نام اسیرانِ مصطفیٰ کی فہرست میں لکھوانے کی سعادت حاصل کی۔
:: الاصابه، 4 : 9725،ابن حجر عسقلانی،
طبقات الکبریٰ، 3 : 2149، ابن سعد
مستدرک، 3 : 208، رقم : 34864
اسد الغابه في معرفة الصحابه، 4 : 5287،ابن اثير
سيرة الحلبيه، 2 : 380
تیرے نام پر ہو جاں فدا

سب سے پہلے حق کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت بھی ایک خاتون کو حاصل ہوئی۔ یہ خاتون حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا تھیں۔ آپ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، جنہوں نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی ان کے جذبہ ایمانی کو طرح طرح سے آزمایا گیا لیکن جان کا خوف بھی ان کے جذبہ ایمان کو شکست نہ دے سکا۔ روایات میں مذکور ہے کہ انہیں گرم کنکریوں پر لٹایا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا، لیکن تشنہ لبوں پر محبتِ رسول کے پھول کھلتے رہے اور پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ عورت تو نازک آبگینوں کا نام ہے جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا ایمان کا حصارِ آہنی بن گئیں۔ ابوجہل نے ان کے جسم کے نازک حصے پر برچھی کا وار کیا جس سے وہ شھید ہو گئیں، یہ اسلام کی پہلی شہید خاتون ہیں، جن کو ہجرت سے پہلے شھید کر دیا گیا اور یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلام کے ابتدائی دور میں اپنے اسلام کا اعلانیہ اظہار کیا تھا۔’’اُمِ عمار حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا کو بنی مغیرہ نے اسلام لانے کی پاداش میں تکلیفیں پہنچائیں مگر اس نے (اقرار اسلام کے سوا) ہر چیز کا انکار کیا حتی کہ اُنہوں نے اسے شھید کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب حضرت عمار اور ان کے والد اور والدہ کے پاس سے گزر ہوتا جن کو کفار کی طرف سے مکہ کی شدید گرمی میں وادی ابطح میں عذاب دیا جا رہا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اے آلِ یاسر! صبر کرو، جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔
:: فتح الباری، 7 : 24، رقم : 53460
تهذيب الکمال، 21 : 216، رقم : 34174
اسد الغابه، 7 : 153،ابن اثير
شعب الايمان، 2 : 239، رقم : 21631
طبقات الکبري، 3 : 549
معجم الکبير، 24 : 303، رقم : 4769
مستدرک، 3 : 432، رقم : 35646
سيرة النبويه، 2 : 6162،ابن هشام
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1382982 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.