تیرے عشق میں سب قربان کیا

عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین تھا، مدینہ پاک میں حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل اسے یثرب کا بادشاہ بنانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں، لیکن حضور نبی مکرم شفیع معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد مدینہ پاک سے یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا اور ریاستِ مدینہ پاک کا قیام عمل میں آیا۔ عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقینِ اسلام اور نبی برحق شافع روز شمار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ روکنے کے لئے در پردہ سازشوں کا جال بننے لگے اور مہاجرینِ مکہ کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔ اسی طرح منافقینِ طبقاتی کشمکش کو ہوا دے کر ریاستِ مدینہ کے امن کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اسی عبداللہ بن اُبی کے بیٹے تھے لیکن منافق باپ کے سازشی ذہن سے انہیں دُور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار صحابی تھے اور اپنے باپ کی حرکتوں پر اندر ہی اندر کھولتے رہتے تھے۔ وہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے باپ کی جملہ منفی سرگرمیوں کے پس منظر میں عرض پرداز ہوئے۔ یا رسول اﷲ! مجھے حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کا کانٹا راستے سے ہٹا دوں تاکہ دینِ مبین کی پیش رفت میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔

حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن ابی) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے باپ (عبداللہ بن ابی) کو قتل کرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے باپ کو قتل نہ کر۔
:: مستدرک، 3 : 679، رقم : 26490
الاحادو المثاني، 4 : 23، رقم : 41967


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ۔ ’’عبداللہ بن ابی ایک بلند ٹیلہ کے سایہ میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے پاس سے گزر ہوا تو عبداللہ بن ابی کہنے لگا : ابن ابی کبشہ کا یہاں سے گذر ہوا۔ اس پر اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبد اﷲ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو مکرم و محترم بنایا ہے، اگر آپ چاہیں تو میں (اپنے) اس (بدبخت باپ) کا سر (قلم کرکے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اپنے والد کے ساتھ حسنِ سلوک اور حسنِ محبت سے پیش آؤ۔
:: اصابه، 4 : 155،عسقلانی
موارد الظمآن، 1 : 498، رقم : 42029
’مجمع الزوائد (9 : 318)ھيثمی
معجم الاوسط، 1 : 80، رقم : 5229


غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر ایک مقام پر ابن ابی نے حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بعض گستاخانہ الفاظ کہے۔ اس پراس کا حقیقی بیٹا حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تلوار سونت کر اپنے باپ کے سر پر کھڑے ہو گئے اور اسے خوب ذلیل کیا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں۔ ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ بنی المصطلق سے واپس لوٹے تو ابن عبداللہ بن ابی اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے باپ پر تلوار سونتی اور فرمایا : بخدا! میں اس وقت تک اپنی تلوار میان میں نہیں رکھوں گا جب تک تو زبان سے یہ نہیں کہہ دیتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معزز ہیں اور میں ذلیل ہوں۔ اس نے کہا : تو ہلاک ہو، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معزز ہیں اور میں ذلیل ہوں۔ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جرات کو پسند فرمایا اور سراہا۔
:: الجامع لاحکام القرآن، 18 : 4129
مجمع الزوائد، 9 : 317، 2318
روح المعانی، 28 : 116،علامہ آلوسی
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1292463 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.