بیمار معاشرہ حضرت انسان کیا ھے ؟ اور اس کا کردار کیا ھونا چاہیے!!

انسان کو اپنی پیدائش, کردار ؤ اخلاق پر توجہ کی ضرورت ھے اور یہ سب سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات میں پوشیدہ ھے

قرآن پاک کی عالی سے عالی ترین تعریفیں بھی انسان کے بارے میں اور سخت سے سخت ترین مذمت بھی۔ جہاں اسے زمین و آسمان, فرشتوں ,کل مخلوق سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ قرآن پاک کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے, لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے.ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺟﺐ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧﺳﻼﻡ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮮ ﺗﻮﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧﺟﺒﺮﺍﯾﻞ ﮐﭽﮫ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﮯﺁﭖﻧﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﻮﻏﻤﺰﺩﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺍﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﻞﺟﮩﺎﮞ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﮯﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﺎﻧﻈﺎﺭﮦ ﮐﺮﮐﮧ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮑﻮﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﻏﻢ ﮐﮯﺁﺛﺎﺭ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﮮﮨﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﻨﻢﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺑﺘﺎﻭﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﮯ ﮐﻞ ﺳﺎﺕ ﺩﺭﺟﮯﮨﯿﮟﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﺭﺟﮧ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟﻣﻨﺎﻓﻘﻮﮞ ﮐﻮﺭﮐﮭﮯ ﮔﺎﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﭼﮭﭩﮯﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻣﺸﺮﮎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﻟﯿﮟﮔﮯﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﮐﺮﻧﮯﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯﭼﻮﺗﮭﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎﺁﺗﺶ ﭘﺮﺳﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟﮔﮯﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﯾﮩﻮﺩ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽﻋﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﺊ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯﭘﻮﭼﮭﺎ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ علیہ سلام ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮐﯿﻮﮞﮨﻮﮔﺌﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﻭ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯﺩﺭﺟﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥﮨﻮﮔﺎﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻋﺮﺽﮐﯿﺎ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ صلی اللہ علیہ وسلم ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺭﺟﮯﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺁﭘﮑﮯ ﺍﻣﺖ ﮐﮯﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮﮈﺍﻟﮯ ﮔﮯﺟﺐ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ صلی اللہ علیہ وسلم ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻨﺎ ﮐﮧﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟﮈﺍﻻ ﺟﺎﮮﮔﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﺑﮯ ﺣﺪ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮮﺍﻭﺭ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺍﯾﺴﮯ ﮔﺰﺭﮮﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟﻧﻤﺎﺯﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺗﮯﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺣﺠﺮﮮ ﻣﯿﮟﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯﺣﻀﻮﺭ ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﺮ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯﺻﺤﺎﺑﮧ رضی اللہ تعالی ﺣﯿﺮﺍﻥﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﭘﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽﮐﯿﻔﯿﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯﺣﺠﺮﮮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟﮔﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﯿﮑﺮ ﻧﮩﯿﮟﺟﺎ ﺭﮨﮯ۔ ﺟﺐ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﺩﻥ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮرضی اللہ تعالی ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧﺁﮮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎﻟﯿﮑﻦ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ۔ ﺁﭖ رضی اللہ تعالی ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﮮ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﻤﺮ رضی اللہ تعالی ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮮﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﻟﮩﺬﺍ ﺁﭖ رضی اللہ تعالی ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺁﭖ رضی اللہ تعالی ﮐﻮ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻞﺟﺎﮮ ﺁﭖ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ رضی اللہ تعالی ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮرضی اللہ تعالی ﻧﮯ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ رضی اللہ تعالی ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮﺑﮭﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺁﯾﺎﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ رضی اللہ تعالی ﻧﮯﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ,ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍتھی ﻋﻈﯿﻢ ﺷﺤﺼﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧﻣﻼ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﻧﮭﯽﺟﺎﻧﺎ ﻧﮭﯽﭼﺎﮬﯿﺌﮯﺑﻠﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﻮﺭ ﻧﻈﺮﺑﯿﭩﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ رضی اللہ تعالی ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮭﯿﺠﻨﯽﭼﺎﮬﯿﺌﮯ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﺁﭖصلی اللہ علیہ والہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﻮﺳﺐ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺁﭖ رضی اللہ تعالی ﺣﺠﺮﮮﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮﭘﮧ ﺁﺋﯽ" ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺍﺳﻼﻡ ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ"ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺍﭨﮭﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭﺳﻼﻡ ﮐﺎﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺁﭖصلی اللہ علیہ والہ وسلم ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮬﮯ ﮐﮧﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺸﺮﯾﻒﻓﺮﻣﺎ ﮨﮯﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ علیہ سلام ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼﺍﻣﺖﺑﮭﯽ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮮ ﮔﯽﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻣﺖ ﮐﮯﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﻏﻢ ﮐﮭﺎﮮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﺎﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻧﮑﻮ ﻣﻌﺎ ﻑ ﮐﺮ ﺍﻭﺭﺟﮩﻨﻢ ﺳﮯ ﺑﺮﯼ ﮐﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮﺁﭖ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﭘﮭﺮﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻧﺎﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮨﮕﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﺭﺣﻢ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﻮ ﺟﮩﻨﻢ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩﮐﺮﮐﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺁﮔﯿﺎ "ﻭَﻟَﺴَﻮْﻑَ ﻳُﻌْﻄِﻴﻚَ ﺭَﺑُّﻚَ ﻓَﺘَﺮْﺿَﻰ
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻏﻢ ﻧﮧ ﮐﺮﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﺩﻭﮞ ﮔﺎﮐﮧ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم ﺭﺍﺿﯽﮨﻮﺟﺎﻭ ﮔﮯﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮐﮭﻞ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯﻭﻋﺪﮦﮐﺮﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﻭﺯ ﻗﯿﺎﻣﺖﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯﻣﯿﮟ ﺧﻮﺏﺭﺍﺿﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺭﺍﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﺟﺐﺗﮏ ﻣﯿﺮﺍﺁﺧﺮﯼ ﺍﻣﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮧﭼﻼ ﺟﺎﮮﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮﺁﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭے ﻧﺒﯽ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﺍﺗﻨﺎ ﺷﻔﯿﻖﺍﻭﺭ ﻏﻢﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﻮ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﺎ ؟
اسلام انسان دوستی اور عظمت ِ انسانیت کا علمبردار ہے, اسلام نفرت اور قتل و غارت نہیں امن، سلامتی اور محبت کا درس دیتا ہے۔ سب انسان مٹی سے بنے ہیں ،حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں ،کسی بھی گورے کو کالے پر کالے کو گورے پر ،غریب کو امیر یا امیر کو غریب پر ،کسی رنگ ،نسل ،قوم،علاقے کی وجہ سے کوئی فوقیت نہیں ہے ۔سب انسان برابر ہیں اللہ نے ان کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے ۔ذات قبیلے رنگ روپ نسل سب ایک دوسرے کی پہچان کو بنائے ہیں ۔اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں ۔اے لوگو ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اسی سے پیدا کیا اس کا جوڑا اور پھیلائے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں ( النسائ) اے ابن آدم (انسانوں) ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو ( الحجرات )
حضرتِ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضرتِ سیدنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلیہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی تخلیق سے دوہزارسال پہلے زمین پر جنات رہتے تھے ۔ انہوں نے زمین پر فسادبرپا کیااور خونریزی کی ۔ جب انہوں نے زمین میں فساد پھیلانے کو اپنا وتیرہ بنا لیا تواللہ تعالیٰ نے ان پرفرشتوں کے لشکر بھیجے جنہوں نے انہیں مارا اور سمندری جزیروں کی طرف بھگادیا۔(اَلدُّرُّالْمَنْثُوْرُ،ج۱، ص۱۱۱)
ابلیس بھی جِنَّات میں سے ہے
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
فَسَجَدُوْآ اِلَّآ اِبْلِیسَط کَانَ مِنَ الْجِنِّ (پ۱۵،الکہف۵۰)
ترجمۂ کنزالایمان :
تو سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے قومِ جن سے تھا ۔
حضرتِ علّامہ جلا ل الدین سُیُوطِی الشّافِعی علیہ رحمۃ اللہ القوی (اَ لْمُتَوَفّٰی۹۱۱ھ) نقل کرتے ہیں : شیاطین جنات ہی کی نافرمان قسم کا نام ہے جو ابلیس کی اولاد سے ہیں۔(لَقْطُ الْمَرْجَانِ فِیْ اَحْکَامِ الَجَانِّ ،ذکر وجودھم،ص۲۴
صدر الافاضل حضرت مولانا سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃاللہ الھادی (اَ لْمُتَوَفّٰی۱۳۶۷ھ) تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں :شیطان دو قسم کے ہوتے ہیں ایک جنوں میں سے ایک انسانوں میں سے جیسا کہ قراٰن پاک میں ہے{شَیٰطِینَ الاِنْسِانسان (انگریزی: Human) (سائنسی نام: Homo sapiens) کا لفظ زمین پر پائی جانے والی اس نوعِ حیات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو جنس انس (homo) سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا میں پائی جانے والی دیگر تمام تر انواع حیات سے برتر دماغ رکھتی ہے۔ انسان کہلائی جانے والی مخلوق کی شناخت اس کی سیدھی قامت اور دو ٹانگوں سے چلنے والی مخلوق کے طور پر باآسانی کی جاسکتی ہے مزید یہ کے نوعِ حیاتِ انسان ایک معاشرتی مخلوق ہونے کے ساتھ ساتھ شعور (consciousness) و ادراک (cognition) میں دیگر تمام مخلوقات کی نسبت اعلٰی معیار تک پہنچی ہوئی مخلوق ہے۔ انسان کو آدمALAYHE.PNG کی مناسبت سے اردو عربی اور فارسی میں آدمی بھی کہا جاتا ہے اور اس کے لیے بشر کا لفظ بھی مستعمل ہے۔ آدمی اور بشر کی طرح انسان کا لفظ بھی اردو میں عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس انس سے ماخوذ ہے اور انسان ہی کے معنوں میں انس بھی استعمال ہوتا ہے، اسی لفظ انس سے ناس اور مرکب الفاظ عوام الناس وغیرہ بھی تخلیق کیے جاتے ہیں۔ قرآن میں بھی اس نوع حیات کے لیے انسان کے ساتھ ساتھ متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں ؛ جن میں ایک انس (سورۃ الرحمٰن آیت 39) بھی ہے۔ انسان کے لیے اساس بننے والا لفظ انس اپنے الف کے نیچے زیر ہمزہ کا حامل ہے جس کو الف پر پیش کے ساتھ والے انس سے مبہم نا کرنا چاہیے جس کے معنی محبت کے ہوتے ہیں۔
کینیڈا میں یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی تحقیق کے مطابق رضا کارانہ طور پر دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کا دوسرے انسانوں کے ساتھ رابطہ بڑھتا ہے، انسان کے جسم میں ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے انسان کا ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔ دوسروں کا درد رکھنے والوں کے دل زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ دل اور شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے اور دل مختلف امراض سے محفوظ رہتا ہے۔
انسان کا لفظ عربی سے اردو میں آیا ہے یہ انس سے ماخود ہے انس کا مطلب محبت لیا جاتا ہے ،اسی طرح انس سے ناس ،الناس یعنی نوع انسانی جیسے الفاظ بھی ہیں ۔انسان دوستی کا مطلب ہم دوسرے انسانوں کے لیے وہی سب چاہیں جو اپنے لیے چاہتے ہیں ،جس طرح اپنی ذات کے لیے انسان ،آرام ،عزت،انصاف،آزادی،ترقی وغیرہ چاہتا ہے ایسا ہی دوسرے انسانوں کے لیے چاہے ۔انسان دوسرے تمام انسانوں کے لیے ویسی ہی خواہشات و جذبات رکھے ۔دوسروں کے حقوق کا احترام کرے (رہبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مسلمان نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے (صحیح بخاری) اور یہ بھی کہ ”تم میں سے بہتر وہ ہے جودوسرے لوگوں کیلئے فائدہ مند ہے ”انسانوں میں بہتر انسان وہ ہے جو دوسروں کے فائدہ مند ہو وہ جتنا فائدہ مند ہو گا اتنا بہتر ہے۔
دوسروں کے کام آنے سے انسان کی روح کو سکون ملتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہماری ضرورت کے وقت کام آئے تو ہمیں دوسروں کی ضرورت کے وقت بھی کام آنا ہوگا۔
جناب اشفاق احمد صاحب انسان سے بندہ بننے تک کے سفر کو یوں لکھتے ہیں کہ ایک دن......
ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻝ ﮐﺮ رﻭﮈ ﭘﺮ ﭼﻼ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ کہﺍﯾﮏ ﺑﺎبا ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺭﮔﮍ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ:
ﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ- ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺩﻭ، ﺟﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮑﺮ ﮐﺮﻭ ‘ ﺟﻮ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﻭ، ﺟﻮ
ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎؤ- ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎؤ ﮔﮯ، ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﮨﺠﻮﻡ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻭ،
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﻨﺎﺋﻮ،
ﺟﺴﮯ ﺧﺪﺍ ﮈﮬﯿﻞ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺣﺘﺴﺎﺏ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﺑﻼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺳﭻ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﻮ،
ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﭼﭗ ﺭﮨﻮ،
ﻟﻮﮒ ﻟﺬﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﺬﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺑﺮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﯿﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻞ ﺟﺎؤ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻥ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ،
ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ،
ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ،
ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺭﮎ ﺟﺎؤ ﮔﮯ،
ﭼﻮﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭼﻮﺭ ﮨﻮ ﺟﺎؤ ﮔﮯ،
ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺟﮓ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ،
ﻭﮦ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺍﮌ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ،
ﺳﺎﺩﮬﻮؤﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺳﺎﺩﮬﻮ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ،
ﺗﻢ ﺟﺐ ﻋﺰﯾﺰﻭﮞ، ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ، ﺍﻭﻻﺩ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﮍﻧﮯ ﻟﮕﻮ
ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﺍللہ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﮯ،
ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﺣﻢ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﻮ ﺗﻮ ﺳﻤﺠھ ﻟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺧﺎﻟﻖ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺎﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ-
ﺑﺎﺑﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﮐﮭﻮﻟﯽ،
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﺟﺎؤ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺗﮏ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ، ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ، ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﻨﺎ،
ﯾﮧ ﺍللہ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ، اللہ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ، ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌﺗﯽ ﮨﮯ-
ﺍﻭﺭ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺟﻮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﮕﺮﺟﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ، ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍللہ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮨﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ- ﺗﻢ ﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ، ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﻣﯿلہ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ-
ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ!!
انسان کو اس دنیا میں کس نے بھیجا ہے ؟
انسان کو کیوں بھیجا گیا ہے؟
تعلیم حاصل کرنا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا اور مر جانا یہ تو کوئی زندگی نہ ہوئی۔ کیا صرف یہی کچھ کرنے آئے ہیں انسان اس دنیا میں ؟
کھانا،پینا،سونا،جاگنا،بچے پیدا کرنا اور کل کے لئیے مال جمع کرنا اگر یہی زندگی گزارنے کا صحیع طریقہ ہے تو ایسی زندگی تو جانور بھی گزارتا ہے تو انسان اور جانور میں فرق کیا ہے ؟
اس ختم ہو جانے والی زندگی کے لئے ہمیشہ کی زندگی کو تباہ کرلینا بیوقوفی نہیں کیا ؟
يہ دنیا کی زندگی دھوکے کا مال ہے، مکڑی کا گھر ہے، مچھر کا پر ہے۔ ( القرآن )
اس دنیا کی بے وقعتی کو جانتے ہوئے بھی اسی دنیا کو اصل ٹھکانہ سمجھ لینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟تم کیا سمجھتے ہو تمہیں بے مقصد پیدا کیا گیا ہے، تم کیا سمجھتے ہو تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے؟ ( القرآن ) ایسا نہیں ہے کے ہمارہ مواخذہ نہیں ہو گا۔ ہمیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور حساب لیا جائے گا ایک ایک نعمت کا حساب ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہو گا ہمیں۔ مگر ہم بے فکر زندگی گزار رہے ہیں۔ قریب آ گیا انسانوں کے حساب کا وقت مگر انسان ہیں کے غفلت میں پڑے ہوئےہیں۔ ( القرآن )
ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد ہے کے ہم اپنے رب کو راضی کریں اور اپنے خالق کے بتاۓ ہوۓ طریقے کے مطابق زندگی گزاريں۔
*ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟*
*ﺁﺝ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﺲ ﭘﺸﺖ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﮭﺎ،*
*ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻼﺗﻤﮩﯿﺪ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ،*
*ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻧﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺟﺬﺏ ﺳﮯ ﺩُﻋﺎ ﺩﯼ:*
*"ﺍﻟﻠﮧ پاک ﺗﺠﮭﮯ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭩﻨﮯﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ"*
*ﺩﻋﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ:*
ﺣﻀﺮﺕ! ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﮨﻢ ﻣﺎﻝ ﭘﺎﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮬﺮ ﺳﺎﻝ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﺯﮐﺎۃ ﻧﮑﺎﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ،ﺑﻼﺅﮞ ﮐﻮ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺣﺴﺐِ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺻﺪﻗﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ،ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻣﻼﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ،ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﺧﺮﭼﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ،ﷲ پاک ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭧ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺩﺭﻭﯾﺶ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ:
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ! ﺳﺎﻧﺲ، ﭘﯿﺴﮯ، ﮐﮭﺎﻧﺎ ... ﯾﮧ ﺳﺐ ﺗﻮ ﺭﺯﻕ ﮐﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ!
"ﺭَﺍﺯِﻕ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﺮَّﺯَّﺍﻕ" ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﮨﮯ، ﺗﻢ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻧﮩﯿﮟ.
ﺗﻢ ﺟﻮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ، ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﺗﻮ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﯾﮧ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ."ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻧﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻻ:ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ! ﺁﺅ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅﮞ ﮐﮧ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﮐﺴﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ. ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺍﺩﺍﺱ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ، ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮑﻦ ﻻﺋﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﭩﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻣﻘﺼﺪ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﻨﺎ بھی ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ!ﺍﭘﻨﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﻮﮦ ﮐﯽ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﻨﺠﯿﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺗﮓ ﻭﺩﻭ ﮐﺮﻧﺎﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! ﺻﺒﺢ ﺩﻓﺘﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﯾﺘﯿﻢ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﻟﯿﻨﺎ ﯾﮧ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ!ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﯾﺎ ﺑﮩﻨﻮﺋﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺹ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﻀﻞ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ!ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﭙﮭﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﮐﮍﻭﯼ ﮐﺴﯿﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﻠﻂ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ! ﭼﺎﮰ ﮐﮯ ﮐﮭﻮﮐﮭﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﻭﺋﮯ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑُﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑُﻼﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ!ﮔﻠﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﯿﻠﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﺤﺚ ﻣﺒﺎﺣﺜﮯ ﺳﮯ ﺑﭻ ﮐﺮ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﮧ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ.ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻓﺘﺮ، ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﯾﺎ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﮐﮯ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﺍﻭﺭ کم آمدن والے ﻣﻼﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ چھوٹا نہ سمجهنا، انہیں ﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻞ ﮐﺮﻧﺎ، ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﺮﻡ ﺟﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ، ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺭﮎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ!
ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺗﺴّﻠﯽ ﺩﯾﻨﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ, ﭨﺮﯾﻔﮏ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﮨﺎﺭﻥ ﻧﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ .
*ﺳﻤﺠﮭﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﮯ!"*
ﺩﺭﻭﯾﺶ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﺷﻔﻘﺖ ﺳﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮬﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﮐﻼﻡ ﺟﺎﺭی ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ:
"ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ! ﺗﻢ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﮯ؟جاؤ بیٹا ابتدا گھر سے کرو اور ﺁﺝ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﮬﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐُﮭﻠﻨﮯ ﺗﮏ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ،ﺁﺝ ﺳﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﮈﺍﻧﭧ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻨﻨﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﮔﺎﻧﮯ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ،ﺁﺝ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﺮ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﻥ ﮐﮯ پاسﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﻧﺎ، ﺍﺏ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﻧﻮﺑﺖ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ، ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮ دﯾﺎ ﮐﺮﻭ، ﺁﯾﻨﺪﮦ ﺳﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﭘﺮ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭧ ﮈﭘﭧ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ،ﺳﺎﻟﻦ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﺣﺮﻑِ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺑﻠﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ،ﮐﺒﮭﯽ ﮐﭙﮍﮮ ﭨﮭﯿﮏ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﺩﺭﺳﺖ ﮐﺮﻟﯿﻨﺎ،
*ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ !*
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﻧﮩﯿﮟ، ﺗﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮨﻮ،ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﭼﮭﻮﮌﻭ، ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺁﺳﺎﻥ ﺑﻨﺎﺅ،ﺍﻥ ﺷﺎﺀﷲ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽﺁﺋﯿﮟ ﺻﺪﻕِ ﺩِﻝ ﺳﮯ ﺩُﻋﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ 'ﷲ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ' ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺎﻧﭩﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ،
ہم نے جنوں اور انسانو کو اسلئیے پیدا کیا ہے کے ہماری عبادت کریں۔ ( القرآن )
عبادت کا اک وسیع مفہوم ہے نماز روزہ حج زکاۃ سے لیکر کھانا پینا بولنا چلنا اخلاق معاملات معاشرت معاشیات تک ہرکام اگر اللّہ کے احکام کے تابع ہو تو عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ غرض یہ کہ ہر وہ کام جواَللّٰه کی رضا کے لئیے کیا جائے یااَللّٰه کی رضا کے لئیے چھوڑ دیا جائے وہ عبادت ہے۔
اے نفس مطمئنہ لوٹ آ اپنے رب کی طرف اس حال میں کے تو اپنے رب سے راضی ہو اور تیرا رب تجھ سے راضی ہو ( القرآن )".
قرآن کریم میں ارشاد الہی ہوتا ہے : خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کر لے۔ انسان سے گھر بنتا ہے اور گھر سے ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے. انسان کا کردار اس کی فکر پر منحصر ہوتاہے. انسان ایک معاشرہ تشکیل دیتا ہے . جب ایک شخص پیدا ہوتا ہے تو نہ وہ پیدائشی طور پر شریف ہوتا ہے اور نہ ہی مجرم بلکہ اس کے ایک اچھے انسان بننے اور مجرم بننے میں یہ معاشرہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچہ اگر ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو جس جگہ کے افراد پڑھے لکھے، با شعور اور با اخلاق ہوں تو فطری طور پر وہ بچہ اچھے اخلاق کا مالک ہوگا. ایک اچھا انسان بنے گا لیکن اس کے برعکس اگر ایک بچہ ایسے معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے جس جگہ کے لوگ بے شعور، بد اخلاق اور ان پڑھ ہوں تو یہ باتیں بچے پر منفی اثرات مرتب ضرور کریں گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر وہ معاشرہ مختلف طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو تو یہ سب باتیں چھوٹی چھوٹی برائیوں سے برے کاموں کی طرف لے جاتی ہیں اور ایک اچھے بھلے انسان کو مجرم بنا دیتی ہیں. اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پر سکون ہو اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہو تو ہمیں سب سے پہلے اپنے نفس کو ٹھیک کرنا ہوگا اور دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے خود اپنے آپ کو بےعیب کرنا ہوگا کیونکہ اچھا معاشرہ بہترین انسانوں سے ہی تشکیل پاتا ہے۔
ہر قوم کی قوت اخلاق و کردار ہوا کرتی ہیں اور اس کی عظمت و سر بلندی کی تاریخ اسی سے رقم ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اخلاق پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میں اخلاق کی تکمیل کے لئے خدا کی جانب سے دنیا میں بھیجا گیا ہوں مگر افسوس کہ مسلمان رفتہ رفتہ اپنی تہذیب وثقافت بھول گئے اور مذہب سے دوری کے ساتھ ساتھ بے راہ روی کا شکار ہوگئے اور اسلام کی دعوت و تربیت کو فراموش کرگئے۔ جس کی وجہ سے ان میں اخلاقی زوال، بے شرمی و بے حیائی ,جھوٹ و چغلخوری, فریب, غرور و تکبر سرایت کر گئے اور اس طرح دنیا کو تہذیب و تمدن کا درس دینے والی قوم خود غیر مہذب ہو کر رہ گئی۔ دوسری قوموں کو اپنے عمدہ اخلاق و کردار اور حسن سلوک سے زیر کرنے والی قوم آج خود ان اوصاف سے عاری ہو کر رہ گئی ہے۔
قرآن مجید کو اﷲ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے لئے ضابطہء حیات کے طور پر اتارا اور ایسا جا مع بنایاکہ اس میں اب کسی تبدیلی کی ضرورت باقی نہ رہے چنانچہ اپنے نزول کے وقت سے لیکر دنیا کے باقی رہنے تک قرآن انسانیت کے لئے "ہدی للناس " "شفاء للصدور" اور "بیان للناس" ہے ۔ کردار کے لغوی معنیٰ ہیں طرز ، طریق ،قاعدہ ، شغل، کام ، چلن ، خصلت، عادت اور اصطلاحی طور پرکردار ان امتیازی خصوصیات کو کہتے ہیں جو انفرادی طور پر انسان میں نشونما پاتی ہیں جن کا تعلق انسانی زندگی کے اس ردّعمل سے ہے جو مخصوص حالات میں ظاہر ہو تا ہے ۔ قرآن مجید میں سب سے زیادہ زوراس بات پر دیا گیا ہے کہ ربّ العالمین نے اس کائنات کو اور تمام مخلوقات کو ایک اعلیٰ مقصد کے تحت بنایا ہے اور انسان کو اس زمین پر اشرف المخلوقات بنایا، اپنا نائب اور منتظم بنایا ، اور اس کے مقامِ بلند کو اس طرح روشناس کیا ۔ ولقد کرمنا بنی آدم وحملنٰہم فی البر و البحر ورزقناہم من الطیّبٰت وفضلنٰہم علیٰ کثیرٍ ممّن خلقنا تفضیلا۔(بنی اسرائیل: ۷۰)۔ (ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں اور انکو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی )۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہو نے کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس عقل اور اخلاق و کردار نام کا وہ ملکہ ہے جو اس کو دوسری تمام مخلوقات سے یکسر علیحدہ کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن جہاں عبادت کے دائرہ میں شرک سے روکتا ہے اور ایک خدا کی عبادت کا حکم دیتا ہے وہاں وہ اخلاق و کردار کے دائرہ میں جھوٹ بولنے ، وعدہ خلافی ، خیانت ، بدی ، رشوت، بغض و حسد اور دوسری برائیوں سے بھی منع کرتا ہے۔قرآن مجید ان بری باتوں کے بر خلاف جن خوبیوں کو اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے ان میں سچ بولنا ، عفت و پاک بازی ، عفو و درگزراور ایثار و قربانی جیسے نیک اوصف کی طرف توجہ دلاتا ہے ، انسان جس حد تک ان اوصاف سے متصف ہو جائے اسلام اسے اس حد تک انسان کے معیار کی بلندی قرار دیتا ہے اور ایک صحت مندو توانامعاشرۂ انسانی کے وجود و بقا کے لئے یہ ہدایت کرتا ہے۔ انّ اﷲیأمر بالعدل ولأحسان وأیتاء ذی القربیٰ وینہیٰ عن الفحشاء والمنکر والبغی یعظکم لعلّکم تذکّرون (سورۃ نحل ۔۹۰) (اﷲانصاف اور احسان سے کام کرنے اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے وہ بے حیائی نا پسندیدہ بات اور سر کشی سے روکتا ہے تمہیں وہ نصیحت کرتا ہے شاید کے تم نصیحت پا جاؤ)۔ قرآن نے صر ف احکام و ہدایات دینے پرہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس مقصد کے تحت اپنے آخری پیغمبر ﷺ کو اخلاق وکردارکاپیکربناکربھیجااور تمام لوگوں کے لئے نمونۂ عمل قرار دیا ،فرمایاجاتاہے۔ لقد کان لکم فی رسول اﷲأسوۃحسنۃ . (تم لوگوں کے لئے اﷲ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے)۔
ہمیں چاھئیے کہ ہم اَللّٰه اور رسول آخر محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکام کے مطابق زندگی گزاریں تاکہ جب ہم دنیا فانی سے ابدی زندگی کا سفر کریں تو اَللّٰه پاک ہم سے راضی ہوں اور ہم قبر کی سختیوں اور جہنم کی آگ سے بچ سکیں اور اَللّٰه پاک کے انعامات کے حقدار بن سکيں۔ اَللّٰه پاک ہمیں عمل کی توفیق دیں آمین‏"کردار انسان کا وہ حسن ہے جسے زوال نہیں....آمین
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455391 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More