غزوۂ احد میں یہ خبر جنگل کی آگ
کی طرح پھیل گئی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاذ اللہ شہید
کر دیئے گئے۔ اس خبر کا سننا تھا کہ مدینے میں ہر طرف کہرام مچ گیا۔ اہلِ
مدینہ شہر سے باہر نکل آئے۔ ان میں قبیلہ انصار کی ایک خاتون حضرت ہند بنت
حزام رضی اﷲ عنہا بھی تھی جس کا باپ، بھائی اور خاوند حضور رسالت مآب صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوۂ احد میں شریک ہوئے تھے، اور تمام کے تمام
اس غزوہ میں شہید ہوگئے تھے۔
جب اس خاتون سے کوئی صحابی ملتا تو وہ اطلاع دیتا کہ تیرا باپ وہاں شہید
ہوگیا اور کوئی اس کے خاوند کی شہادت کا تذکرہ کرتا تو کوئی بھائی کی شہادت
کی خبر دیتا۔ تو وہ خاتون سن کر کہتی کہ یہ بات نہ کرو بلکہ یہ بتلاؤ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کيسے ہيں؟
صحابہ رضی اللہ عنھم نے جواب ديا۔ ’’الحمد ﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسی طرح خیریت سے ہیں جس طرح تو پسند کرتی ہے۔ رؤف ورحیم آقا صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی خیریت کی خبر سن کر وہ کہنے لگی۔ ’’مجھے کریم آقا صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کراؤ، حتیٰ کہ میں خود اُنہیں دیکھ لوں۔‘‘
جب اس خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نظر دیکھا تو پکار اٹھی۔
یا رسول اللہ! آپ کے ہوتے ہوئے ہر غم و پریشانی ہیچ ہے۔
:: بدايه والنهايه، 4 : 547
مواهب اللدنيه، 2 : 93
سيرة الحلبيه، 2 : 528، 3542
تاريخ الامم و الملوک، 2 : 374 |