حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض
کیا کہ قیامت کے دن میری (خصوصی) شفاعت فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : میں ہی ایسا کرنے والا ہوں، میں نے عرض کیا : یا رسول
اللہ! میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا، میں نے عرض کیا : اگر آپ وہاں نہ ملیں؟ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میزان کے پاس ڈھونڈنا، میں نے عرض کیا
: اگر وہاں بھی نہ ملیں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم مجھ
کو حوضِ کوثر پر تلاش کرنا کیونکہ میں ان تین جگہوں کو نہیں چھوڑوں گا۔
:: ترمذی شریف، کتاب صفة القيامة والرقائق، 4 / 621، الرقم 2433،
تاريخ کبير، 8 / 453،امام بخاری
ترغيب والترهيب، 4 / 230، الرقم 5486
’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں مسجد میں تھا کہ ایک
شخص نے داخل ہو کر نماز میں ایسی قرات کی جس کا میں نے انکار کیا، پھر ایک
دوسرے شخص نے داخل ہوکر اپنے ساتھی سے الگ لہجہ میں قرات کی۔ پس ہم سب نماز
سے فراغت کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں چلے
گئے تو میں نے عرض کیا : اس شخص نے ایسی قرات کی جس کا میں نے انکار کیا
اور پھر ایک دوسرے شخص نے داخل ہوکر اپنے ساتھی سے الگ لہجہ میں قرات کی تو
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو قرات کرنے کا حکم فرمایا : انہوں
نے قرات کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کی تحسین فرمائی، جس
سے میرے دل میں اسلام کی ایسی تکذیب اتری کہ کبھی زمانہ جاہلیت میں بھی
ایسی نہ تھی۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اس (باطنی) حال کو
ملاحظہ فرما کر میرے سینہ پر ہاتھ مارا جس سے میں پسینہ سے شرابور ہوگیا (اور
مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی) گویا کہ میں خشیت سے اللہ کو دیکھ رہا ہوں تو
آپ نے مجھ سے فرمایا : اے اُبیّ! مجھے حکم دیا گیا کہ قرآن ایک حرف (لغت)
پر پڑھوں تو میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرمائیے،
پھر مجھے دو حرفوں پر پڑھنے کا حکم دیا گیا تو میں نے دوبارہ عرض کیا کہ
میری امت پر آسانی فرمائیے، پس مجھے تیسری بار سات حروف (لغات) پر قرآن
پڑھنے کا حکم ہوا، (اس کے ساتھ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا) امت کے لیے
ہر بار دعا کرنے کے عوض ہم سے کچھ طلب کرلو۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ!
میری امت کی مغفرت فرما! اے اللہ! میری امت کی مغفرت فرما اور تیسری بار کی
دعا میں نے اس دن کے لیے محفوظ کرلی ہے جس دن تمام مخلوق یہاں تک کہ
ابراہیم علیہ السلام بھی میری طرف متوجہ ہوں گے۔
:: مسلم شریف،کتاب صلاة المسافرين وقصرها، 1 / 561، الرقم : 820
دلائل النبوة، 1 / 83
مخزوم کے مولیٰ زیاد بن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ایک غلام مرد یا عورت سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اپنے خادم سے فرمایا کرتے تھے : کیا تمہیں کوئی حاجت درپیش ہے؟
وہ فرماتے ہیں : یہاں تک کہ ایک روز اس نے عرض کیا : یارسول اللہ! مجھے ایک
حاجت ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری حاجت کیا ہے؟ اس
نے عرض کیا : میری حاجت یہ ہے کہ آپ روزِ قیامت میری شفاعتِ خاصہ فرمائیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کس نے تمہاری اس بات کی طرف
رہنمائی کی ہے؟ اس نے عرض کیا : میرے رب نے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : کیوں نہیں! پس تو کثرتِ سجود سے میری مدد کر (کے اس کی حقدار بَن)
:: جامع الصغير : 237، الرقم : 397
مجمع الزوائد، 2 / 249
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں احمد ہوں، محمد ہوں، میں حاشر ہوں کہ لوگ
روزِ محشر میرے بعد اُٹھائے جائیں گے اور میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے
ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ پس جب روزِ قیامت ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی حمد کا
جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور میں سب رسولوں کا امام ہوں گا اور ان کو اللہ
تعالیٰ سے شفاعت کا حق دلانے والا ہوں گا۔
:: مجمع الزوائد، 8 / 284
معجم الکبير، 2 / 184، الرقم : 1750
حضرت مصعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے ایک غلام نے حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں آپ
کی بارگاہ میں سوالی بن کر حاضر ہوا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : کیا سوال ہے؟ اس نے عرض کیا : میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے
ان لوگوں میں شامل فرما لیں جن کی آپ یومِ قیامت شفاعت فرمائیں گے؟ حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کس نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے؟ یا
(فرمایا) کس نے تمہیں یہ سکھلایا ہے؟ یا (فرمایا) کس نے تمہاری اس بات کی
طرف رہنمائی کی ہے؟ اس نے عرض کیا : صرف میرے دل نے مجھے ایسا کرنے کا حکم
دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس بے شک تو ان لوگوں میں
سے ہے جن کی روزِ قیامت میں شفاعت کروں گا تو وہ غلام (خوشی کے عالم میں)
کندھے اُچک کر جانے لگا کہ اپنے گھر والوں کو یہ خبر سنائے، پس جب وہ مڑا
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس غلام کو میرے پاس واپس لاؤ،
جب وہ اسے واپس لائے اس حال میں کہ وہ غمگین اور ڈر رہا تھا کہ شاید (حکم
میں) کچھ ترمیم ہوچکی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنی
جان پر کثرتِ سجود لازم کر کے میری مدد کر (تاکہ شفاعتِ خاصہ کا حقدار بن
سکے)۔
:: اصابة فی تمييز الصحابة، 6 / 125، الرقم : 8010
معجم الکبير، 20 / 365، الرقم : 851
’’حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے سامنے حاضر ہوکر درج ذیل اشعار عرض کیے
فَأَشْهَدُ أَنَّ اﷲَ لَا رَبَّ غَيْرُهُ
وَأَنَّکَ مَأْمُوْنٌ عَلَی کُلِّ غَائِبٍ
وَأَنَّکَ أَدْنَی الْمُرْسَلِيْنَ وَسِيْلَةً
إِلَی اﷲِ يَاابْنَ الْأَکْرَمِيْنَ الْأَطَايِبِ
فَمُرْنَا بِمَا يَأْتِيْکَ يَاخَيْرَ مَنْ مَشَی
وَإِنْ کَانَ فِيْمَا جَائَ شَيْبُ الذَّوَائِبِ
وَکُنْ لِي شَفِيْعًا يَوْمَ لَا ذُوْ شَفَاعَةٍ
سِوَاکَ بِمُغْنٍ عَنْ سَوَادِ بْنِ قَارِبِ
ترجمہ ؛میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی رب نہیں اور آپ ہر غائب
(کی خبر پہنچانے میں) امانت دار ہیں. اور اے پاک بزرگ لوگوں کے بیٹے! بے شک
آپ رسولوں میں سے وسیلہ ہونے کے اعتبار سے اللہ کے زیادہ قریب ہیں. اے چلنے
والوں میں سے بہترین! پس آپ ہمیں ہر وہ حکم کیجیے جو آپ کے پاس آئے اگرچہ
وہ (امور شدید ہوں جو ) پیشانیوں کو سفید کرنے والے ہوں. سو آپ اس دن میرے
سفارشی ہوجائیں جس میں آپ کے سوا کوئی بھی ایسا شفاعت کرنے والا نہیں جو
سواد بن قارب کو فائدہ دے۔
:: استيعاب فی معرفة الأصحاب، 2 / 675، الرقم 1109
معجم الکبير، 7 / 94، الرقم : 6475
مستدرک، 3 / 705، الرقم : 6558 |