حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مجھے حقِ شفاعت اور (بغير حساب) میری نصف امت کے جنت میں داخل کئے جانے کا
اختیار دیا گیا؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کرليا کیونکہ یہ زیادہ عام اور
زیادہ کفایت کرنے والی ہے، تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ متقین کے لئے ہے؟ نہیں!
بلکہ وہ تو گناہگاروں، خطاکاروں اور معصیت میں آلودہ لوگوں کے لئے ہے۔
:: ابن ماجہ شریف، کتاب زهد، باب ذکرشفاعة، 2 / 1441، الرقم : 4311
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے حقِ شفاعت اور (بغير حساب) میری نصف امت
کے جنت میں داخل ہونے کے درمیان اختیار دیا گیا؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار
کرليا کیونکہ یہ زیادہ عام اور زیادہ کفایت کرنے والی ہے، تمہارا کیا خیال
ہے کہ وہ متقین کے لئے ہے؟ نہیں! بلکہ وہ تو معصیت میں آلودہ لوگوں اور
خطاکاروں کے لئے ہے۔
:: بداية والنهاية، 10 / 455.
مجمع الزوائد، 10 / 378
عبد الرحمٰن بن ابی رافع سے روایت ہے کہ حضرت ام ہانی بنتِ ابی طالب رضی اﷲ
عنہا آراستہ ہوکر ایسے نکلی کہ ان کے کانوں کے زیورات نمایاں ہو رہے تھے۔
عمر بن خطاب نے انہیں دیکھ کر کہا : تو جان لے کہ بے شک محمد (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) تجھے کچھ فائدہ نہ دیں گے تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی خبر دی، پس حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : اس قوم کا کیا انجام ہوگا جو یہ گمان کرتی ہے کہ
میری شفاعت میرے اہلِ بیت کو فائدہ نہیں دے گی حالانکہ میری شفاعت تو حَا
اور حَکَم قبیلوں تک پہنچے گی۔
:: مجمع الزوائد، 9 / 257،
معجم الکبير، 24 / 434، الرقم : 1060
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے عبدالواحد نصری روایت
کرتے ہیں کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی نے بیان کیا کہ میں تمہارے
دادا عبدالواحد بن عبداللہ بن بسر کے پاس سے گزرا جبکہ وہ ان دنوں حمص کے
امیر تھے تو انہوں نے مجھے فرمایا : اے ابو عمرو! میں تجھے ایسی حدیث بیان
نہ کروں جس سے تو خوش ہو؟ اللہ کی قسم! اکثر اوقات حاکموں نے اسے چھپایا
ہے، میں نے کہا : کیوں نہیں! بیان فرمائیں، انہوں نے فرمایا : مجھ سے میرے
والد عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : ہم ایک روز حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس (خوشی سے) چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ تشریف لائے تو
ہم (ادباً و تعظیماً) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کے رخ کھڑے ہوگئے
اور عرض کیا : یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے، آپ کے دمکتے ہوئے
چہرے کو دیکھ کر ہمیں خوشی ہو رہی ہے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : بے شک جبرئیل نے ابھی مجھے خوشخبری سنائی ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے مجھے شفاعت کا حق عطا کیا ہے، یہ میری امت کے گناہگاروں اور گناہ
سے بوجھل افراد کے لئے ہے۔
:: مجمع الزوائد، 10 / 377
اصابة فی تمييز الصحابة، 4 / 24، الرقم : 4568
معجم الأوسط، 5 / 304، الرقم : 5382
حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنی امت کے برے لوگوں کے لئے سب سے بہتر آدمی
میں ہوں. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی نے عرض کیا :
یا رسول اللہ! امت کے اچھے لوگوں کے لئے آپ کیسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کے گنہگار لوگوں کو اللہ تعالیٰ میری
شفاعت سے جنت میں داخل کرے گا، جبکہ میری امت کے اچھے لوگوں کو اللہ تعالیٰ
ان کے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل فرمائے گا۔
:: مجمع الزوائد، 10 / 377.
معجم الکبير، 8 / 97، الرقم : 7483
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی کریم رؤف الرحیم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین مرتبہ فرماتے ہوئے سنا : درختوں اور پتھروں
کی مقدار سے زیادہ، ہم نے (بغیر سمجھے تائید کرتے ہوئے) عرض کیا : جی ہاں!
(ایسے ہی ہے تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی
قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، بے شک میری شفاعت پتھروں اور درختوں
کی مقدار سے بھی زیادہ ہو گی۔
:: کشف الخفاء، 2 / 462، الرقم : 2965
مجمع الزوائد، 10 / 379
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ہم نے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کے دوران راستہ میں
قیام کیا. رات کا ایک حصہ گزرنے پر میری آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی جس کے
باعث میں سو نہ سکا تو اٹھ کھڑا ہوا، اس وقت لشکر میں کوئی بھی ایسا جانور
نہ تھا جو سو نہ گیا ہو، کجاوہ کے پچھلے حصہ کی جانب سے (کچھ گڑ بڑ ہونے
کا) میرے ذہن میں خیال آیا تو میں نے اپنے آپ سے کہا : میں نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤں گا تاکہ ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے
سکوں یہاں تک کہ صبح ہوجائے، پس میں کجاووں کے درمیان سے گزرتا ہوا حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کجاوے تک پہنچا تو آپ اپنے کجاوے پر موجود نہ
تھے۔ لہٰذا میں کجاووں کو عبور کرتا ہوا لشکر سے باہر نکل گیا تو اچانک میں
نے کسی چیز کا سایہ دیکھا، میں نے اس کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا تو وہ ابو
عبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل تھے، انہوں نے مجھ سے کہا : کس چیز نے تمہیں
(اس وقت لشکر سے) نکالا ہے؟ میں نے کہا : جس نے تمہیں نکالا ہے، ہم سے
تھوڑا ہی دور ایک باغ تھا، ہم اس باغ کی طرف بڑھنے لگے، اس دوران ہم نے اس
میں مکھیوں کے بھنبھنانے یا ہلکی سی ہوا چلنے جیسی آواز سنی، پس (ہمیں اس
میں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سنائی دی) آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا یہاں ابو عبیدہ بن جراح ہے؟ ہم نے عرض کیا : جی
ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور معاذ بن جبل بھی ہے؟ ہم
نے عرض کیا : جی ہاں! آپ نے فرمایا : عوف بن مالک بھی ہے؟ ہم نے عرض کیا :
جی ہاں موجود ہے، پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لے
آئے تو ہم اٹھ کھڑے ہوئے نہ ہم نے آپ سے کچھ عرض کیا اور نہ آپ نے ہمیں کچھ
ارشاد فرمایا، یہاں تک کہ آپ اپنی سواری کی طرف لوٹ آئے تو حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں خبر نہ دوں کہ میرے رب نے ابھی
مجھے کیا اختیار دیا ہے؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں! یارسول اللہ! آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس نے مجھے یہ اختیار دیا ہے کہ میری
تہائی امت بغير حساب کتاب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوجائے یا میں شفاعت
کروں؟ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ! آپ نے کیا اختیار فرمایا؟ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا، ہم تمام نے عرض
کیا : یارسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں آپ کی شفاعت میں
شامل فرما لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا : بے شک میری
شفاعت ہر مسلمان کے لئے ہے۔
:: ترغيب والترهيب، 4 / 234، الرقم : 5501
الجامع، 11 / 413، معمر بن راشد
مجمع الزوائد، 10 / 369
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرئیل نے رات کو میرے پاس حاضر ہوکر مجھے
خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاعت کا حق عطا کیا ہے۔ ہم نے عرض کیا
: یارسول اللہ! کیا یہ بنی ہاشم کے لئے خاص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : نہیں. ہم نے عرض کیا : کیا یہ قریش میں ہی عام ہے؟ فرمایا :
نہیں. ہم نے عرض کیا : کیا یہ آپ کی ساری امت کے لئے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ کیا اور فرمایا : یہ میری امت کے
گناہگاروں اور گناہ سے بوجھل افراد کے لئے ہے۔
:: احاديث المختارة، 9 / 78، الرقم : 60،مقدسی
تاريخ دمشق الکبير، 27 / 163،ابن عساکر |