حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت
میں سے جو کوئی بھی مدینہ طیبہ کی سختی اور شدت پر صبر کرے گا میں قیامت کے
دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔
:: مسلم شریف،کتاب الحج،2 / 1004، الرقم : 1378
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص مدینہ طیبہ کی بھوک پیاس اور
سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی
شفاعت کروں گا۔
:: مسلم شریف،کتاب الحج،2 / 1004، الرقم : 1377
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں مدینہ کے دونوں سیاہ پتھریلے کناروں کی
درمیانی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں نہ اس کے کانٹے دار درختوں کو کاٹا جائے
نہ اس کے شکار کو قتل کیا جائے۔ اور فرمایا : کاش اہلِ مدینہ جانتے کہ
مدینہ ان کے لئے بہتر ہے، جو کوئی مدینہ سے اعراض کر کے اسے چھوڑے گا اللہ
تعالیٰ اس کے بدلے اس سے بہتر کو مدینہ میں سکونت عطا کرے گا، اور جو کوئی
بھی اس کی بھوک، سختی اور مشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت
کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔
:: مسلم شریف،کتاب الحج،2 / 1002، الرقم : 1363
ابو سعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ جنگِ حرہ کے زمانہ میں اس نے حضرت ابو
سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہو کر مدینہ سے چلے جانے کے بارے مشورہ
کیا اور ان سے مدینہ کی مہنگائی اور اپنے کثرتِ عیال کی شکایت کی اور یہ
بھی بتایا کہ اب وہ مدینہ کی مشکلات پر مزید صبر نہیں کرسکتا. آپ رضی اللہ
عنہ نے اس سے کہا : اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے! میں تمہیں یہاں سے چلے جانے
کے بارے میں نہیں کہوں گا کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو کوئی بھی اس کی بھوک پیاس اور سختی پر صبر
کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا
بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔
:: مسلم شریف،کتاب الحج،2 / 1002، الرقم : 1374
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ایک لونڈی نے ان
کے پاس آکر کہا : ہم پر حالات تنگ ہو گئے ہیں اس لیے میں عراق جانا چاہتی
ہوں. آپ نے فرمایا : کیا شام تو نہیں جانا جو زمین محشر ہے؟ نادان صبر کر
کے یہاں رہو کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
فرماتے ہوئے سنا : جو کوئی بھی اس کی سختی و مشقت اور بھوک پیاس پر صبر کرے
گا میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔
:: ترمذی شریف،کتاب مناقب، باب ما جاء فی فضل المدينة، 5 / 719، الرقم 3918
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں مہنگائی کی بدولت سخت تنگی
ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (صحابہ کرام رضی اللہ
عنھم سے مخاطب ہوتے ہوئے) فرمایا : تم صبر کرو اور خوشخبری سناؤ کہ میں نے
تمہارے ناپ تول کے پیمانوں میں برکت کی دعا کی ہے۔ تم مل کر کھاؤ اور جدا
جدا نہ ہوا کرو کیونکہ ایک شخص کا کھانا دو کو کفایت کرے گا اور دو کا
کھانا چار کے لیے، چار کا کھانا پانچ اور چھ اشخاص کو کافی ہوگا اور یقیناً
جماعت میں برکت ہے۔ جس نے مدینہ کی بھوک پیاس اور مشقت و سختی پر صبر کیا
میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا، اور جو
کوئی مدینہ سے منہ موڑ کے نکلے گا اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کو مدینہ میں
سکونت عطا کرے گا، اور جس نے اس کے ساتھ کسی قسم کی برائی کا ارادہ کیا تو
اللہ تعالیٰ اُسے (دوزخ میں) اِس طرح پگھلائے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا
ہے۔
:: مجمع الزوائد، 3 / 305. نوٹ : ذرا سوچیں کہ یزید لعین نے مدینہ کی کتنی
بے حرمتی کی اس کو لعنتی کیوں نہ کہا جائے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے دوزخی کہا ہو
حضرت ابو اُسید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب
رضی اللہ عنہ (کو دفناتے وقت ان) کی قبر پر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ صحابہ اونی چادر سے ان کا چہرہ ڈھانپتے تو
پاؤں ننگے ہو جاتے اور اس کو ان کے قدموں پر کرتے تو چہرہ ننگا رہ جاتا. اس
پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : تم اس چادر کو ان کے
چہرے پر ڈال دو اور ان کے پاؤں اس درخت کے پتوں سے ڈھانپ دو۔ بیان کرتے ہیں
: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا سر اٹھایا تو آپ کے صحابہ یہ
(کسمپرسی کی حالت) دیکھ کر رونے لگے اسوقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ مدینہ سے دوسروں
علاقوں کی طرف نکلیں گے تو وہاں انہیں کھانا پینا، لباس اور سواری یا
فرمایا : سواریاں میسر ہوں گی تو وہ اپنے خاندان والوں کو لکھیں گے کہ
ہمارے پاس آجاؤ، تم تو اخروٹ والی خشک و بنجر سرزمین میں ہو، کاش وہ جانتے
کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔ جو کوئی بھی اس کی بھوک پیاس اور مشقت و سختی
پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی
دوں گا۔
:: مجمع الزوائد، 3 / 300
معجم الکبير، 19 / 265، الرقم : 587
ترغيب والترهيب، 2 / 145، الرقم : 1856
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام افلح سے روایت ہے کہ
اس کا گزر حضرت زید بن ثابت اور ابو ایوب رضی اﷲ عنہما کے پاس سے ہوا جبکہ
وہ جنازہ گاہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے اپنے
ساتھی سے کہا : آپ کو وہ حدیث یاد ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اس مجلس میں ہمیں بیان فرمائی جس میں ہم موجود تھے؟ انہوں نے کہا :
ہاں! مدینہ کے متعلق، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا اور آپ
گمان کرتے : عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں زمینی فتوحات ہوں گی
تو لوگ آسودہ حالی، عیش و عشرت اور معاشی خوشحالی کی تلاش میں ان کی طرف
نکل کھڑے ہوں گے۔ وہ حج کرنے والے یا عمرہ کرنے والے بھائیوں کے پاس سے
گزریں گے تو انہیں کہیں گے : کس چیز نے تم کو سختی و مشقت اور بھوک پیاس کی
شدت میں رکھا ہوا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس (ان میں
سے بعض) جانے والے اور بعض وہیں رہنے والے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے یہ جملہ کئی بار فرمایا۔ اور (فرمایا) مدینہ ان کے لئے بہتر ہے، جو
کوئی بھی اس کی بھوک پیاس اور مشقت پر صبر کرتے ہوئے ثابت قدم رہے گا یہاں
تک کہ وفات پا جائے تو میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی
شفاعت کروں گا۔
:: معجم الکبير، 4 / 153، الرقم : 3985 |