بچپن کی تلاش
(RIAZ HUSSAIN, Chichawatni)
کون کہتا ہے وقت دہراتا ہے اپنے آپ کو ۔۔۔۔گر یہ سچ ہےتو میر بچپن تو لوٹائے کوئی محترم والدین یہاں آپ دن رات اپنے انمول اولاد کے لیے بیل کی طرح کام مٰیں مصروف ہیں ۔ وہاں ان کے لیے چند لمحات نکال کر ان کے بچپن کو خوبصورت ضرور بنائیں ۔ اسے خوبصورت بنانے میں روپے پیسے نہیں آپ کے چند قیمتی لمحات ہوتے ہیں۔ تاکہ بچے کو بڑا ہو بچپن تلاش کرنا پڑے تو وہ ایک خوبصورت بچپن ہو جس میں قہقے تھے ماں باپ کا پیار تھا۔ ادب تھا۔ شعور تھا۔ نہ کہ مایوس بچپن۔۔۔ |
|
|
میرا بچپن |
|
کلاس میں جب بھی میں S.St کا پیریڈ لیتا
ہوں تو سب سے پہلے وائٹ بورڈ پر Social Studies ہیڈنگ دیتا ہوں اور ساتھ
بچوں سے پوچھتا ہوں اس کا مطلب کیا ہے؟ بچے جواب میں معاشرتی علوم کہتے ہیں۔
پھر میں پوچھتا معاشرتی علوم سے ہم کیا مراد لیتے ہیں۔ جواب ملتا ہے
معاشرہ۔اپنے علم کے مطابق بچوں کو معاشرہ کے مطابق دو تین منٹ کے لیے لیکچر
دیتا ہوں۔ تاکہ ہمیں معاشرہ کے رول کا متعلق آگاہی ہو سکے۔ صحیح معنوں میں
ہم معاشرہ تعمیر کر سکیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں دل و جان سے کام آ
سکیں۔ اپنے اردگر د کے معاشرتی ماحول کو بہتر سے بہتر کر سکیں۔ کیونکہ ان
بچوں نے بڑے ہو کر قوم کا معمار بننا ہے، ابھی سے انہیں اس کے مطابق شعور
دیا جائے۔ کلاس میں بچوں سے میں اکثر سوال کرتا ہوں کہ جب آپ سکول آتے ہو
تو اس وقت والدین (اماں جی یا اباجی، ماما، پاپا) آپ کو کیا کہہ کر بھجتے
ہیں۔ کوئی نصیحت وغیرہ، ایمانداری سے بتاؤں۔ تقریبا ً کلاس میں سب بچوں کو
ایک ہی ملتا جلتا جواب ہوتا ہے کچھ نہیں۔اس کا مطلب ہوا ہم صرف خوابوں کی
دُنیا میں اپنی اولاد کو بہتر سے بہتر، اور وقت سے پہلے بہت اونچے مقام پر
دیکھنا چاہتے ہیں حقیقت میں ان کی ذہنی تربیت کے لیے کوئی خاص کردار ادا
کرنے سے قاصر ہیں۔ عین ممکن ہے والدین میری اس بات سے انکاری ہو ں لیکن جو
میں تحریر کر رہاہوں ذاتی تجربہ کی بنا پر کر رہا ہوں۔ والدین سے ملاقات
ہوتی ہے تو ان سے بھی یہی سوال کرتا ہوں کہ بچوں کو سکول بھیجتے وقت کیا
بات، نصیحت یا مشورہ دے کر بھیجتے ہوں تو خاموش ہو جاتے ہیں۔ پھر پوچھتا ہو
کہ سکول، کالج کے گیت کے آس پاس سکول والے کچھ ہدایات برائے طلبا لکھواتے
ہیں تو جواب ملتا ہے کہ سکول والوں کو شوق ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ سکول کی
خوبصورتی کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔ لیکن ہم نے کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ آپ اس
بات سے اندازہ لگا لیں ہم بچے کی تعلیم و تربیت میں کتنا اہم کردار کر رہے
ہیں۔ تو اس سے صاف عیاں ہے کہ والدین خود کچھ نہیں کرنا چاہتے بس سکول جانے
اور اس کا کام جانے۔ والدین بچے کو ایڈمشن کے لیے دفتر آتے ہیں۔ اکثر بچوں
کی عمر اڑھائی تیس سال ہوتی ہے۔ لیکن میں یہ کہہ واپس کر دیتا ہوں بی بی /باجی
ابھی بچے کے کھیلنے کے دن ہیں ابھی ایک دو سال ان کو اپنا بچپن انجوائے کر
نے دو۔ کچھ نہ کچھ گھر میں ہی پڑھاتے رہا کرو۔ جواب ملتا ہے۔ اس نے ناک میں
دم کر رکھا ہے۔ میں اس سے بہت تنگ آچکی ہوں۔ یہ ماں کے الفاظ ہوتے ہیں جس
نے اسے اپنی کوکھ سے جنم دیا ہے۔ بعض اوقات والدین بچے کو پلے گروپ میں
داخلہ کے لیے لاتے ہیں، ابھی اس کا داخلہ نہیں ہوا بات ہی چل رہی ہے تو وہ
کہتے ہیں ہم اس سے تنگ آچکے ہیں، یہ ہماری بات ہی نہیں مانتا، اس کو ذرا
ڈانٹ کر رکھنا تاکہ یہ ہماری بات مانے اور باادب ہو جائے۔ میں ایک لمحہ کے
لیے خاموش ہو کر اپنے بچپن میں چلا جاتا ہوں تو پھر اس بچپن اور اپنے بچپن
کا موازنہ کرتا ہوں، نتیجہ میں اپنے والدین کو سلام پیش کرتا ہوں اور
ڈھیروں دعائیں دیتا ہوں کہ جنہوں نے میرا بچپن کھونے نہیں دیا۔ خاموشی
تھوڑتے ہوئے کہتا ہوں باجی پھر آپ نے اسے چار سال اپنے پاس رکھا، پالا پوسہ
اس کی تربیت کیوں نہ کر سکیں۔ کوئی مناسب جواب نہ پا کر مجھے بہت دکھ ہوتا
ہے کہ آج کے دور کے کیسے والدین ہیں جو مشین کی طرح انہی بچوں کے لیے بیل
کی طرح دن رات کام میں مصروف ہیں لیکن اپنی اولا د کے لیے کوئی خاص وقت یا
ایجنڈا نہیں ہے۔
اس نفسا نفسی کی دوڑ نے انسان کو پاگل کر رکھا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی ہمارے
ہاتھ میں ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ہم دُنیا کے کونے کونے سے جڑے ہوئے ہیں۔
اتنے جدید دور میں ہم پھر بھی پیچھے ہیں۔ پھر حکومت کی طرف سے وقت فوقتاً
جاری ہو نے والی ہدایات مار نہیں پیار، ڈانٹ نہیں پیار۔ شکایت کی صورت میں
فلاں نمبر پر رابطہ کریں۔ اس زمرے میں ہم نے اپنی اولاد کا بچپن اور مستقبل
دونوں تباہ کر دیئے۔ ایسے ماحول میں استاد کیا بچے کو ڈانٹے گا یا وہ کتنا
استاد اور والدین کا باادب ہو گا۔
ایک واقع بھی تحر یر کرتا چلوں! بڑے گھرانوں میں اکثر نوکرانیاں، ملازم کام
کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دُنیا کے مال و متاع سے نواز رکھا ہے۔ گھر
کے ہر فرد کے پاس اپنی گاڑی ہے، کسی چیز کی کمی نہیں۔ بڑے بڑے شوق پالتے
ہیں۔ مہنگے سے مہنگے کتے بلیاں خود شوق سے رکھتے ہیں اوران کی ہر تکلیف کا
خیال بھی رکھتے ہیں، مگر اپنی اولاد کو ملازمہ پالتی ہے۔ دوسری طرف اپنی ہی
اولاد کے بچپن کو دفن کر دیتے ہیں۔ پوچھو تو کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ مار
دھاڑ، مال و زر، جائیدادیں سب ان کے لیے ہی ہیں۔
ایک دن مالکن کے پاس کچھ وقت ہوتا ہے وہ اپنی ملازمہ سے کہتی ہے آؤ بچوں کو
سکول سے لے آئیں۔ مالکن گاڑی چلاتی ہے اور ملازمہ پیچھے سیٹ پر بیٹھ جاتی
ہے۔ گاڑی سکول کے گیٹ کے قریب جا کر رک جاتی ہے۔ چند لمحوں بعد سکول کا گیٹ
کھل جاتا ہے اور بچے باہر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ والدین، ملازم، نو کر چاکر
اپنا اپنا بچہ لے کر جا رہے ہیں کوئی پیدل تو کوئی گاڑی پر۔ اب مالکن اور
ملازمہ اکٹھے ہی گاڑی سے اتر کر گیٹ کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ بچوں کی نظر
پڑتی ہے تو وہ بھاگ کر اپنی نوکرانی کے ساتھ لپٹ جاتے ہیں، اور سکول میں
بیتے وقت کی باتیں شروع کر دیتے ہیں لیکن ان بچوں نے اپنی حقیقی ماں کو
کوئی خاص توجہ نہ دی روایتی سلام کیا۔ لیکن وہ اپنی ملازمہ سے زیادہ خوش
اور فرینک نظر آرہے تھے۔ ملازمہ کے سامنے مالکن کو کچھ لمحے کے لیے شرمندگی
محسوس ضرور ہوئی لیکن وہ جلد ہی رفو چکر ہو گئی۔ اس بات سے نتیجہ اخذ ہوتا
ہے کہ جب بچوں نے ہوش سنبھالا اور چہرے کی شناسائی ہونے لگی تو انہوں نے
اپنی ملازمہ کو ماں کے روپ میں دیکھا۔ دوستو اس طرح کی بے شمار مثالیں ملتی
ہیں۔
جب میں نے سکو ل کا افتتاح کیا تو ایک گھر میں جانے کا اتفا ق ہوا کہ یہ
بچہ ہمارے سکول میں داخل کروا دو۔ اس نے پوچھا کہ چھٹی کتنے بجے ہوتی ہے،
وقت بتایا۔ وہ سوچ میں پڑگئی ہے پوچھا کیا ہوا کہنے لگی جب میں سکول سے
پڑھا کر واپس آتی ہوں تو مجھے بچوں کو دیکھ کر بہت غصہ آتا ہے خاص طور پر
تین سے پانچ تک تو مجھے یہ زہر دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہ وقت میرے آرام کا
ہوتا ہے۔ میں خاموشی سے واپس آگیا۔ جس ماں کو اپنے ہی بچے تھکاوٹ کی وجہ سے
زہر نظر آتے ہیں وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کیا کرے گی۔ اور وہ اپنا
بچپن کہاں ڈھونڈیں گے۔
ایک دفعہ ایک بیٹی گائیڈنس کے لیے میرے پاس آئی، اس نے کیڈٹ کالج اوکاڑہ
میں بطور ٹیچر جائن کیا، پھر دو سال کے بعد اس سے ملاقات ہوئی تو پوچھا
بیٹے اب جاب کیسی جارہی ہے؟اس نے کہا سر جی میں نے اوکاڑہ کی جاب چھوڑ دی
ہے اور اب ادھر ہی جاب کا پروگرام ہے۔ میں نے پوچھا اچھا یہ بتاؤاس ماحول
اور وہاں کے ماحول میں کیا فرق ہے؟ اس نے جواب دیا جی بہت سارا فرق ہے۔ میں
نے کہ بیٹی اسی معاشرہ کے وہ لوگ ہیں جن کی اولاد ہے پھر اتنا فرق کیوں
محسوس کر رہی ہو۔ کہنے لگی سر جی میں نے بڑا غور کیا لیکن اس فرق کو تلاش
نہ کر سکی، لیکن بہت فرق ہے، وہ بچے بڑ ے سلجھے ہوئے، سلیقہ مند، پڑھنے
والے، باادب وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا چلو پھر میں اس کا فرق میں بتا تاہوں۔
میرے اس آرٹیکل کو پڑھنے والے بھی اگر اس فرق کو ذہن میں رکھیں گے اور بچوں
کے ساتھ ایسا ہی کرو گے تو بہت جلد بہت ہی اچھی تبدیلی رونما ہو گی۔ میں نے
کہا وہاں یہ فرق ہے کہ ایک سپاہی سے لے کر بڑے سے بڑے عہدے والا جب اپنے
بچے کو گھرسے سکول کے لیے نکلتا ہے تو وہ روزانہ کی بنیاد پر چند فقرے
دہراتا رہتا ہے، ”بچے ٹیچر کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آنا، ٹیچر کا کہنا
ماننا اور ادب کرنا، کسی بچے کی کوئی چیز چوری نہیں کرنی، ٹیچر کی بات کو
غور سننا تاکہ تجھے دوبارہ کسی اور مدد کی ضرور ت نہ محسوس ہوں، کلاس میں
اچھا رویہ اپنانا، کسی بچے سے جھگڑا نہیں کرنا، کوئی شکایت ہو تو اپنی
متعلقہ ٹیچر کو بتاناوغیرہ“ اس طرح کی مزید چند باتیں وہ اپنے بچے کے ساتھ
روزانہ کی بنیاد پر شیئر کرتے جاتے ہیں۔ خواہ کوئی پیدل ہے یا گاڑی میں
لیکن تربیتی کورس ایک ہی ہے۔ یہی وہ فرق جو ان بچوں کو ہمارے اس بگڑے ہوئے
معاشرے کے بچوں میں فرق بتاتا ہے۔ یہاں کیا ہوتا ہے۔ ٹیچر نے بچے کو کچھ
کہا تو غصے والا فون آگیا۔ بچے آپس میں لڑ پڑیں تو ذات برادری تک پہنچ گئے
وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے رویے بچوں کا نہ صرف اچھا اور خوش و خرم بچپن چھین
لیتے ہیں بلکہ بچے کی شخصیت کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔
میری تمام والدین سے درخواست ہے کہ خدارا اگر اللہ کریم نے آپ کو اولاد
جیسی نعمت سے نواز دیا ہے تو اس کی قدر کرو۔ ان کے بچپن کو یونہی ضائع نہ
کرو۔ بچپن زندگی میں ایک ہی بار میسرآتا ہے اگر آپ نے اپنے بچے کا بچپن ہی
کھو دیا بتاؤ وہ بڑھے ہو کر کہاں سے تلاش کریں گے۔ جب بھی وہ دوستوں کے
ساتھ بیٹھ کر بچپن کی یادوں کو چھیڑیں گے تو ان کے بچپن کی تاریں ٹوٹ جائیں
گی۔ وہ مایوس چہرہ لے کر بیٹھ جائیں گے۔ میری اس گزارش پر ذرا سوچیں تاکہ
بچے کو اپنا بچپن تلاش کرنے میں آسانی ہو اور یہ بچپن خوشیوں بھرا ہو۔ یہ
خوشیاں روپے پیسے سے ہی نہیں آتیں بلکہ آپ کے پیاراور شفقت کے ساتھ گزر ے
ہوئے چند لمحات ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس دور میں
اپنے بچوں کو وقت دینے کی توفیق عطا فرماے آمین۔
|
|