پیش لفظ

مجھے لگتا ہے کہ ہماری سیکھنے کی صلاحیت دن بدن بہت کم ہو گئی ہے ،یاں ہم نے اپنے سیکھنے کے ذرائع بہت محدود کردیئے ہیں اور اسی طرح ہمارے سیکھنے کی ضروری چیزوں کو غائب کر دیا گیا ہے ۔اصل حقائق ہم سے چھپا دیئے گئے ہیں اور ہم کو لگی بندھی عبارتوں کا محتاج کر دیا گیا ہے اگرچے وہ ہم کو صحیح لگیں یاں نہیں مگر اسے ماننا ضرور ہے اور اس سب کو وقت کی ضرورت قرار دےدیا گیا ہے ۔جیسے آج بہت سی بے بنیاد رسمیں ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئی ہیں، ہم سب ان سے بہت پریشان ہیں مگر ان سب کے باوجود ہم ان کو سماج کے ڈر سے اپنی زندگیوں سے نکالتے نہیں ، اسی طرح وہ ہماری زندگیوں سے نکلتی نہیں ۔

شاید آج سے پہلے ٹیچنگ کے شعبے کے ساتھ اتنا ظلم نہیں ہوا ہو گا ایک تو ٹیچر معاشی طور پر مفلوج دوسرا ان پر پابندیوں کی بھرمار ، اسے لگے بندھے کورس کو ختم کرنا ہے اس سب میں وہ روبوٹ کی طرح کام کرتا ہے باقی learning کا تو آپ نام ہی نہ لو کیوں کہ وہ کورس کا حصہ ہی نہیں ۔ ٹیچرز کا مشہور مکالمہ، جب طالبعلم کسی سوال کے متعلق پوچھتا ہے تو استاد محترم کہتے ہیں کہ اس کی وضاحت تو بہت ہے مگر چونکہ آپ کے کورس میں نہیں اس لئے آپ اس سے دور رہیں ۔ سکول کے زمانے میں استاد بچوں کو سوال سے ایسے دور رکھتے ہیں جیسے دوائی کی شیشی پہ لکھا ہوتا ہے کہ بچوں سے دور رکھیں ۔ استاد بھی کیا کریں انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سسٹم کا حصہ بننا پڑتا ہے ،تعلیم تو ہے مگر صرف نمبروں کیلئے مگر تربیت نام کی چیز ختم ہوگئی ہے ۔

کورس اور کتابیں چھاپی ہوئیں اور مواد وہی پرانا دوسروں کی ریسرچ سے لیا ہوا ہے جس میں اپنے کلچر اور تہذیب کا نشان نہیں ملتا ،جس میں امریکہ اور انگلینڈ کے نقشے توملتے ہیں مگر پاکستان کا نام بھی نہیں ملتا ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتابیں ہوں یاں لٹریچر کا سامان سب دوسروں کے مواد سے لیا ہوا ۔ کورس میں Mr chips تو ہے سیرت سے متعلق کچھ نہیں جو زندگی گزارنا سکھائے ۔نمبروں کی بھرمار ہے مگر زندگی گزارنے کے ہنر سے ناواقف ہیں ۔پی ایچ ڈی کوالیفائی مگر زندگی کے میدان میں فیل ۔ادارے سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں تو بانٹ رہےہیں مگر بنے بنائے روبوٹ فارغ کر رہے ہیں جنہیں اپنا دماغ استعمال کرنا بلکل نہیں آتا ۔ٹیچرز کہتے ہیں کہ کتاب میں لکھی گئی یہ لائن، یہ بات غلط ہے مگر چونکہ کورس میں ایسے لکھا ہے اس لئے اس کو ایسے پڑھا جائے گا کیونکہ چیکر امتحان کے پرچے پہ کتاب کا کاپی پیسٹ دیکھ کر ہی زیادہ نمبر دیتا ہے ۔ یوں اچھا خاصا طالبعلم جو نیا نیا اور دلچسپ سیکھنے کرنے اور کھوجنے کی نیت سے ادارے میں داخل ہوتا ہے مگر وہاں سے ڑٹوں طوطا بن کر نکلتا ہے اسے جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس ڑٹا سسٹم کو قبول کر نا ہو تا ہے اگر شاندار نمبر چاہیے ہیں تو جس کیلئے اسے گھر اور سکول ہر طرف سے پریشر کا سامنا رہتا ہے ۔اسے سمجھایا جاتا ہے کہ اگر اسے اس سسٹم میں سروائیو کرنا ہے تواسے اس سسٹم کا حصہ بننا ہو گا، ایساہی کرنا ہو گا جیسے اس کے بڑے کرتے آئے ہیں اور آخر وہ بھی اس کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ پھر دوسروں کو بھی اس کا حصہ بنا لیتا ہے ۔ اس سے بڑی کیا مفلوج خالی ہو گی کہ ہم کو علم بھی ہو کہ سامنے کیا غلط اور صحیح ہے مگر اسے تبدیل کر نہ سکتے ہوں کیوںکہ شروع سے ہی ایسے ہی چلتا آیا ہے ۔کیوں کہ سسٹم ان کو ایسے ہی طے کرتا آیا ہے اور ہم کو تو بس اسکی پیروی کرنی ہے اور اس ضمن میں اگر ہمارا دماغ کام کرنا شروع کر دے تو پھر یہ آپ کیلئے بڑے خطرے کی بات ہے ۔

اس ضمن میں بڑے غور وفکر کی ضرورت ہے جس کیلئے ہر ایک ارادے اور فرد کو ذمہ داری قبول کر نا ہو گی اور اپنے کردار کو مضبوط بنانا ہو گا تاکہ اس پہ بے بنیاد رسمیں اور سسٹم اثر انداز نہ ہو سکے ۔

مگر زندگی میں سیکھنے کا عمل کبھی نہیں رکنا چاہیے اور اس لیے جہاں سے سیکھنے کو ملے سیکھ لینا چاہئے اور یہی چیز صحیح اور غلط میں تمیز کرنا سیکھائے گی اور آپ کو ہمیشہ بدلتے ہوئے زمانے میں خود کو adjust کرنے میں مدد کرے گی ۔دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں جو آپ کے بڑھاپے کو روک سکے سوائے مسلسل سیکھنے کے عمل کے جو واحد اینٹی ایجنگ پروڈکٹ ہے ،جو آپ کو کسی بھی زمانے میں ایجیڈ نہیں ہونے دیتا ۔

اللہ آپ پر رحم کرے اور آپ کو دوسروں سے رحم کا معاملہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
Asma Tariq
About the Author: Asma Tariq Read More Articles by Asma Tariq: 86 Articles with 67252 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.