فوڈ سٹریٹ کا نامکمل منصوبہ اور خوابیدہ نیب کا سوتیلی ماں کا سلوک

ہمارا تو سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کا شکار اس صوبے کے عوام کے ٹیکسوں سے وصول ہونیوالا پیسہ اتنا ہی بے وقعت ہے کہ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ پانچ کروڑ روپے کی رقم کس طرح بغیر منصوبہ بندی کے اس پراجیکٹ پر ضائع کئے ، غیر معیاری کام کس کے کہنے پر کیا گیا، اور اب تک اس سے کتنے نقصان ہوا.اور کیا تبدیلی کے دعوے پر سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے پارٹی اور ا ن کے سپورٹر اس کیلئے کیا دلیل پیش کرینگے.ہے کوئی اس کو پوچھنے والا ...نیب کو تو سونے دو . ابھی تو وہ خوابیدہ ہے جبکہ احتساب کمیشن آٹھ کروڑ سے کم رقم کی انکوائری بھی نہیں کرسکتا..یعنی .. چپڑی چپڑی اور دو دو..

اسے اختیارات کا ناجائز استعمال کہا جائے یا خیبر پختونخوا کے عوام کے خون پسینے کی کمائی کو اڑانے اور من پسند ٹھیکیداروں کو نوازنے کا سلسلہ قراردیا جائے کہ سال 2016 میں تبدیلی کے نعرے سے حکومت میں آنیوالے حکمرانوں نے باقاعدہ اعلان کرکے کہہ دیا تھا کہ حیات آباد میں فوڈ سٹریٹ بنایا جائیگا جس کیلئے پانچ کروڑ روپے مختص کئے گئے اور اسے سال 2017 میں شروع کرنے کا اعلان کیا گیا. مگر پشاور کے پوش علاقے حیات آباد کے فیز سکس میں واقع فوڈ سٹریٹ جس کیلئے پانچ کنال سے زائد کمرشل زمین پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے لے لی اور من پسند کنٹریکٹر کو کام شروع کرنے کا کہہ دیا گیا.حالانکہ سال 2016 میں حیات آباد کے مقامی لوگوں نے اس پر اعتراض بھی کیا تھا سب سے زیادہ اعتراض اس وقت حیات آباد ریذیڈنٹس سوسائٹی کے صدر اور سابق ناظم نواب خٹک نے اٹھایا تھا کہ حیات آباد کے فیز سکس میں واقع اس فوڈ سٹریٹ کی طرف جائے گا کون .اگر اس کی نسبت فیز ون اورٹو میں فوڈ سٹریٹ بنایا جائے تو اس کا نتیجہ بہتر نکل سکتا ہے . انہوں نے اس منصوبے کو عوام کے پیسوں کا ضیاع قرار دیا تھا تاہم اس وقت پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی انتظامیہ نے عوام کی طرف سے اٹھائے جانیوالے تحفظات کو کچرے کے ڈھیر میں ڈال دیا اور سوشل میڈیا پر دعوے کئے جاتے رہے لیکن.جس کنٹریکٹرنے اس جگہ کو تعمیر کرنے کا ٹھیکہ لیا. انہوں نے بھی فوڈ سٹریٹ کے اس منصوبے کو صرف مال بناؤ منصوبہ بنایا جس کا ثبوت یہاں پر تیار کئے جانیوالے چھبیس دکانوں کی دو نمبر فائبر گلاس کی چھتیں ہیں ساتھ میں واش رومز اور ان دکانوں کی چھتیں جو لیک ہوگئی ہیں اور بعض دکانوں میں دراڑیں بھی آگئی ہیں ان دکانوں کو پانی اور بجلی بھی فراہم نہیں کی گئی جبکہ جو دروازے یہاں پر لگائے گئے وہ انتہائی بیکار اور گھٹیا معیار کے ہیں جبھی تو سوراخ کا شکار ہوگئے ہیں-

مزے کی بات تو یہ ہے کہ صوبائی حکومت دعوے تو سوشل میڈیا پرکام شروع کرنے کے حوالے سے جو کہ سال 2016 میں کئے گئے تھے ابھی تک موجود ہیں لیکن حال یہ ہے کہ ابھی اس فوڈ سٹریٹ پر سستا بازار بنانے کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ جو رہی سہی کسر ہے وہ پوری کی جائے دوسری اس منصوبے پرخرچ ہونیوالی رقم کو نیب ، انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے نظروں سے بچایا جائے کیونکہ یہاں پر ایک طرف غیر معیاری کام ہوا ہے جس کا ثبوت فیز سکس حیات آباد میں نئے بننے والے سستے بازار پر جا کر کیا جاسکتا ہے تو دوسری طرف علاقہ مکینوں سے بھی رائے لی جاسکتی ہیں. سب سے مزے کی بات کہ پشاور کے پوش علاقے حیات آباد کے مکین اب اتوار بازار کو جو کہ فیز 5 میں موجود ہیں اس کو چھوڑ کر سستے بازار کی طرف جائینگے. یہ نہ سمجھنے والی تک ہے.کیونکہ حیات آباد کے سات فیزوں کے مکینوں میں سے فیز فائیو کے لوگ اتوار بازار جاتے ہیں تو پھرپشاور یونیورسٹی اور بورڈ انہیں نزدیک پڑتا ہے جہاں پر اشیائے خوردنوش حیات آباد کے مقابلے میں سستی پڑتی ہے.پھر فیز سکس میں سستا بازار کا مقصد.. اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ غیر ضروری ، غیر قانونی اور کرپشن کی بنیاد پر بننے والے فوڈ سٹریٹ کو شہریوں کی نظروں سے باہر نکالا جائے.کیونکہ.

پی ڈی اے کے جن صاحب نے یہ منصوبہ شروع کیا تھاوہ وزیراعلی پرویز خٹک کے رشتہ دار تھے اور خلاف ضابطہ کام اور مختلف اداروں میں کی جانیوالی کرپشن پر ان کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں کیسز بھی چل رہے ہیں جبکہ ان کے خلاف نیب بھی کارروائی کررہی ہیں دوسری طرف حیات آباد ریذیڈنٹس سوسائٹی نے فوڈ سٹریٹ سمیت متعدد منصوبوں میں کرپشن پر نیب کو درخواستیں بھی دی ہیں جس پر کارروائی کسی حد تک سست روی کا شکار بھی ہیں اس کی وجہ شائد نیب حکام کی مصروفیات ہوگی .لیکن یہاں پر بھی عجیب طرح کی صورتحال ہے کہ جن صاحب نے یہ منصوبہ شروع کیا پانچ کروڑوں سے زائد کی رقم اس منصوبے پر اڑائی ، وہ آج کرپشن کے الزام میں آفیسر بہ کار خاص بنا دئیے گئے ہیں جبکہ ان کے خلاف ہونیوالی کیسز نیب کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد بھجوا دی گئی ہیں کیونکہ بقول ایک دل جلے کہ پی ڈی اے کے ان صاحب کا تعلق پنجاب سے ہے اسی وجہ سے ان کے کیسز پنجاب منتقل کردئیے گئے ہیں اور یہ پاکستان کی تاریخ کا انوکھا انصاف ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہونیوالے نیب کے کیسز اب اسلام آباد منتقل کئے جارہے ہیں. ادارے کے چیئرمین انصاف اور اصول پسندی کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کے اس اقدام کو کس زمرے میں لایا جائے. اس کا جواب نیب ہی بہتر دے سکے گی .کیونکہ اگر کوئی ملزم کہیں پر جرم کرتا ہے تو اسے سزا متعلقہ جگہ پر دی جاتی ہیں اس کی بڑی مثال راؤ انوار کا کیس ہے جس نے نقیب اللہ کا قتل کراچی میں کیا اور پنجاب میں اسے گرفتار کرکے پھر کراچی لے جایاگیا .لیکن.. خیر سرکار کی باتیں سرکار ہی جانے.

ہمارا تو سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کا شکار اس صوبے کے عوام کے ٹیکسوں سے وصول ہونیوالا پیسہ اتنا ہی بے وقعت ہے کہ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ پانچ کروڑ روپے کی رقم کس طرح بغیر منصوبہ بندی کے اس پراجیکٹ پر ضائع کئے ، غیر معیاری کام کس کے کہنے پر کیا گیا، اور اب تک اس سے کتنے نقصان ہوا.اور کیا تبدیلی کے دعوے پر سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے پارٹی اور ا ن کے سپورٹر اس کیلئے کیا دلیل پیش کرینگے.ہے کوئی اس کو پوچھنے والا ...نیب کو تو سونے دو . ابھی تو وہ خوابیدہ
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499632 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More