تم سبھی کچھ ہو ،بتاؤ تو سہی مسلماں بھی ہو؟

مولانا محمد الیاس ندوی، انڈیا

ذیل کا مضمون مولانا محمد الیاس ندوی نے ہندوستان کے تناظر میں تحریر کیا ہے ، تاہم اس تحریر میں ذکر کیے گئے خطرات کا سامنا ہُو بہ ہُو پاکستانی مسلمانوں کو بھی ہے۔ نیز مضمون میں درج تجاویز بھی پاکستانی مسلمانوں کے لیے قابل عمل اور انتہائی اہم ہیں، چناں چہ مضمون کی افادیت کے پیش نظر یہ تحریر شائع کی جارہی ہے۔ (مدیر)

مجھے اس وقت اپنے بچپن میں، جب میری عمر غالباً پندرہ سال تھی، اپنے گھر میں والد صاحب مرحوم کی طرف سے روزانہ منگوائے جانے والے اخبارات میں صفحہ اول پر شائع ہونے والی ایک تصویر رہ رہ کر یاد آرہی ہے، جس میں ہندوستان کے سابق صدر گیانی ذیل سنگھ اپنی عین صدارت کے دوران، جس پر وہ 1982ء تا1987 فائز تھے، ایک دن اپنے مذہبی مرکز گردوارہ ٹیمپل امرتسر پنجاب میں مندر کے باہر دروازہ پر بیٹھ کر، کنارے رکھے ہوئے زائرین کے جوتوں کو صاف کر رہے تھے، یہ سزا ان کو سکھوں کی مذہبی قیادت کی طرف سے گولڈن ٹیمپل پر فوجی حملے میں حکومت ِ ہند کے ساتھ شریک ہونے کی وجہ سے دی گئی تھی اور ان کے مذہبی مرکز کے تقدس کی پامالی کا کفارہ ان سے اس صورت میں کرایا جارہا تھا، جس کو انہوں نے بسر وچشم اپنے عہدے کی پروا نہ کرتے ہوئے قبول بھی کیا، ابھی کچھ دن پہلے ہماری موجودہ صدرِ جمہوریہ محترمہ پرتیبھاپاٹل کی ایک تصویر بھی نظر سے گذری، جس میں وہ ہمارے ایک مسلم پڑوسی ملک کی خاتون ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات کر رہی تھیں، محترمہ سر سے پیر تک ہند ومذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود اتنی پردہ پو ش تھیں کہ فل آستین کی بلاوز میں، ٹخنوں سے نیچے تک ساڑھی میں ایسی ملبوس تھیں کہ پیر کے ناخن تک نظر نہیں آرہے تھے، سوائے ان کے چہرے اور ہتھیلیوں کے ان کا پورا جسم ڈھکا ہوا تھا ، ان کی یہ تصویر ہمیں ان کے بیرونی ممالک کے سفر میں بھی نظر آئی اور خود ہمارے ملک میں یورپی سربراہوں کے استبقال میں بھی ، لیکن افسوس کہ دوسری طرف ہماری جن مسلم بہنوں کا وہ استقبال ل کر رہی تھیں بحیثیت مسلم خواتین شریعت کی ہدایات کے مطابق ان میں سے کسی کا سر ڈھکا ہونا تو دور کی بات اکثروں کی گردنیں اور بعضوں کے سینے بھی ان کی بے حیائی اور آزادیٴ فکر کا واضح ثبوت دے رہے تھے اور کچھ خواتین تو کہنیوں سے اوپر شانوں تک اپنے کھلے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اسلام سے اپنی نسبت کا مذاق اڑا رہی تھیں۔ تیسرا واقعہ بھی اسی سلسلے کا سنیے! وہ زیادہ پرانا نہیں،1979ء سے84ء تک ہمارے ملک کے ایک نائب صدر جمہوریہ جسٹس ہدایت الله ہوا کرتے تھے، جن کی نسبت اتفاق سے اسلام ہی کی طرف تھی، وہ1969ء میں دو ماہ قائم مقام صدر جمہوریہ بھی رہے ، اس کے علاوہ 1968ء سے 70ء تک ملک کے سب سے بڑے قانونی عہدے یعنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بھی فائز رہے ، اسلام سے ان کی نفرت ووحشت کے تعلق سے اگر میں ان کی زندگی کے کچھ واقعات بیان کروں تو آپ کہیں گے کہ شاید انہوں نے انتقال سے پہلے اپنے ان غیر اسلامی کاموں سے توبہ کر لی ہو ، اس لیے میں ان کے آخری لمحے کا واقعہ سناتا ہوں ، انہوں نے مرتے وقت وصیت کی کہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کے بجائے ہندؤوں کی رسم کے مطابق جلا دیا جائے ، چناں چہ ان کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا۔

مذکورہ بالا واقعات میں موجود تینوں شخصیات کی ان حرکات وسکنات اور افعال واقوال پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے، تینوں کا تعلق اگرچہ الگ الگ مذاہب ہندوازم، سکھ ازم اور اسلام سے ہے ، لیکن تینوں ہمارے اسی ملک کے باشندے اور یہاں کے سب سے بڑے منصب پر فائز رہ چکے ہیں، ایک طرف اول الذکر دونوں صدور ہند کا اپنے مذہب پر کس قدر اعتماد ہے ! گیانی ذیل سنگھ ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کے متعلق یہ تاثر قائم ہو کہ ان کو سکھ مذہب سے کسی جرم کی پاداش میں خارج کر دیا گیا، اپنے مذہب سے اپنی وابستگی کو باقی رکھنے کے لیے وہ حقیر وذلیل کام کرنے کے لیے تیار ہوئے، چاہے دنیا والوں نے ان کی اس تصویر سے جو کچھ بھی تاثر لیا ہو ، اسی طرح محترمہ پرتیبھا پاٹیل عہدہ صدارت پر برقراری کے لالچ میں کوئی ایسا کام کرنا نہیں چاہتیں، جو آج کے ترقی یافتہ دور میں فیشن کے نام سے ایک سفارتی ضرورت ہے اور اس منصب سے میل کھانے والی بات ہے، اپنے سر سے لمحہ بھر کے لیے دوپٹہ ہٹانا یا اپنی ہتھیلی یا پیر کے ٹخنوں تک کی نمائش ان کو قبول نہیں، دوسری طرف جسٹس ہدایت الله ہیں، جن کو اپنے مذہب سے، جو اس کائنات کا سب سے برحق ، معقول، منطقی، فطری اور عقلی مذہب ہے، اپنی زندگی میں اس کی طرف نسبت پر ان کو نہ صرف عار ہے، بلکہ مرنے کے بعد بھی مسلم قبرستان میں دفن ہو کر اس کی طرف منسوب ہونے پر وہ شرم محسوس کر رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں آپ یوں کہیے کہ اول الذکر دونوں صدور کو اپنے مذہب پر کس قدر اعتماد ہے اور آخر الذکر کو کس قدر عار!

آخر اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جب ہم ان تینوں واقعات کے پس پردہ موجود اسباب ومحرکات کا سنجیدگی سے تجزیہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ بچپن میں ان دونوں صدور کی مستحکم مذہبی تعلیم نے ان کا اپنے مذاہب پر اعتماد بحال رکھا اور آخر الذکر کو ان کی ابتدائی عمر میں اسلامی ودینی تعلیم دلانے میں ان کے والدین اور سرپرستوں کی کوتاہی نے اس عبرت ناک انجام تک پہنچا دیا، ان سب کا خلاصہ یوں سامنے آیا کہ حق ہو یا باطل جب تک اس پر محنت نہیں ہوتی وہ اپنا اثر نہیں دکھاتا، باطل مذاہب پر جب محنت ہوئی تو اس کے اثرات ظاہر ہوئے اور حق پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کا اثر ظاہر نہیں ہوا، دنیا میں اثرات ونتائج محنتوں پر مرتب ہوتے ہیں ، جن والدین نے اپنے مذاہب پر اپنی اولاد کو باقی رکھنے کی کوششیں کیں، اس کے نتائج سامنے آئے اور اسلام کے برحق ہونے کے باوجود والدین کی طرف سے اس سلسلہ میں بے توجہی برتی گئی تو اس کے منفی اثرات سامنے آئے، آج ہم اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر دوڑائیں توہ ہمارے پورے ملک یا صوبے ہی میں نہیں، بلکہ ہمارے گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں ایسے سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں ہدایت الله نظر آئیں گے جو اگرچہ مرنے کے بعد اپنے آپ کو جلانے کی وصیت تو نہیں کر رہے ہیں، لیکن اسلام پر ان کا اعتماد ختم ہو چکا ہے ، مومن اور مسلم کہلائے جانے کے باوجود اسلام سے متعلق اپنے تشکیکی افکار وخیالات اور غیر اسلامی نظریات کی وجہ سے چاہے دنیا والوں میں ان کا شمار مسلمانوں میں ہوتا ہو، لیکن عندالله عملاً وہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں، دنیا کی ترقیات سے مرعوب ہو کر وہ اسلامی قوانین واحکام میں لچک ونرمی کا مطالبہ کرنے اور اپنے کو سیکولر اور ملک کے وفادار وہمدرد ثابت کرنے کے لیے غیر مسلم دانشوروں کے وہ نہ صرف شانہ بشانہ، بلکہ بعض اوقات ان سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں ، عیسائی مشنری اسکولوں میں اپنے بچوں کے زیر تعلیم ہونے پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ روزانہ ان اسکولوں کی صبح کی اسمبلیوں اور کلاسز میں ان کی زبانوں سے کفریہ اور شرکیہ کلمات ادا ہو رہے ہیں، کلچرل پروگراموں اور تفریح کے نام سے وہ ایسے پروگراموں کا حصہ بنتے ہیں جن میں ناچ گانوں اور نغمات و سرور ہی نہیں، بلکہ غیر اسلامی حرکات وسکنات کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے، یہ خیر غیر اسلامی اور مشنری اسکولوں اور کالجوں کا حال ہے، جہاں بڑی تعداد میں خود عیسائیوں سے زیادہ مسلم بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں، خود اپنے مسلم مینجمنٹ اسکولوں کا یہ عالم ہے کہ اس کے ذمہ داروں کا وہاں زیر تعلیم مسلم طلبا کو دین پر باقی رکھنے کی فکر کرنا تو دور کی بات، ان کو اسلام سے ان کے اسکولوں کی نسبت پر بھی شرم محسوس ہوتی ہے اور خود عیسائیوں کی طرح ان کے اسکولوں کے نام بھی میری اور سینٹ سے شروع ہوتے ہیں، تاکہ دور دور تک کسی کو ان کے اسکول کے مسلم اسکول ہونے کا شبہ نہ ہو، جہاں اپنی ضروریات سے فارغ ہونے کے لیے کھڑے ہو کر استنجا کرنے کے پیشاب خانے، بالغ بچیوں کے ساتھ بچوں کی مخلوط تعلیم، اسکول کیمپس میں وقفہ تعلیم میں طلباء وطالبات کے گارڈنوں میں بیٹھ کر بے تکلف ہنسی مذاق کے بے حیا مناظر کو بھی وہ ثقافت اور کلچر کا حصہ سمجھتے ہیں، ان سے اپنے اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کی گنجائش نکالنے کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے!

پھر اس کا تدارک کیسے ہو؟
اب سوال یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو جو 96 فیصد سے زیادہ عصری درس گاہوں میں زیر تعلیم ہے، کیسے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ان کو اسلام پر باقی رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ؟ اور کیسے اسلام پر ان کے اعتماد کو بحال کیا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے ہمیں عیسائی مشنریوں کے طرز عمل اور طریق کار سے سبق لینا چاہیے، عیسائی مشنریاں اپنے تبلیغی اور مشنری مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم کے حوالے سے بڑے بڑے انجینئرنگ اور میڈیکل کالجز قائم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرتیں، اس لیے کہ ان کو پتہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ان مراحل میں طلبا کی ذہن سازی علم نفسیات کی روشنی میں ممکن ہی نہیں ، نیم پختہ ذہنوں کو اگر منصوبہ بندی کے ساتھ ابتدائی درجات سے بالخصوص ساتویں سے بارہویں تک کی تعلیم کے دوران اگر کسی فکر یا نظریہ پر موڑ دیا جائے تو آئندہ چل کر دنیا کے کسی بھی مرحلے میں ان طلبا کے ذہنوں میں قائم نظریات وافکار کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے، اسی لیے ان کا پورا زور صرف بارہویں تک کے عصری تعلیمی نظام کے قیام پرہوتا ہے، چناں چہ آپ خود ہمارے ملک میں دیکھیں گے کہ خانگی اسکولوں میں عیسائی مشنریوں کا تناسب چالیس فیصد سے زیادہ ہے، جب کہ کالجز اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز میں ان کا یہ تناسب دس فی صد سے بھی کم رہ جاتا ہے ، ہمیں ان کی اس کامیاب حکمتِ عملی کو سامنے رکھتے ہوئے، جو درحقیقت اسلامی حکمت عملی ہی ہے، اس بات پر اب اپنی پوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ بارہویں تک چلنے والے ہمارے عصری تعلیمی مراکز خالص اسلامی ماحول میں قائم ہوں، جہاں عصری تعلیم تو سرکاری نصاب کے مطابق دی جائے، لیکن اسی تعلیم کو خالص اسلامی ماحول میں تربیت اور ذہن سازی کے ساتھ اس طرح عملی جامہ پہنایا جائے کہ آگے چل کر ہماری نئی نسل نہ صرف اس ملک کے دوسرے اداروں، بلکہ یورپ وامریکا کی کسی بھی دانش گاہ میں جانے کے باوجود اپنی اس تربیت کی برکت سے اسلام وایمان پر قائم رہنے میں کام یاب رہ سکے۔

ہمیں مسلم اسکولوں کی نہیں، اسلامی اسکولوں کی ضرورت ہے
ادھر ہندوستان میں دس پندرہ سال کے دوران مسلمانوں کے تعلیمی تناسب میں تو تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور مسلم تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں وجود میں آرہے ہیں، لیکن ان اداروں کے نظام تعلیم وتربیت کو دیکھتے ہوئے ان کو مسلم اسکولز وکالجز تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اسلامی اسکولز وکالجز کا نام نہیں دیا جاسکتا ، جن اداروں کو مسلمان چلاتے ہیں ان کو مسلم ادارے اور اسلامی اصولوں کے مطابق جو عصری درس گاہیں چلاتی ہیں اس کو اسلامی اسکول کہا جاتا ہے، ملت کو اس وقت ضرورت مسلم اسکولوں ودرس گاہوں کی نہیں، بلکہ اسلامی اور ایمانی تعلیم گاہوں کی ہے ، مخلوط تعلیم سے گریز ، کلچرل پروگراموں کے نام سے غیر اسلامی شعائر سے اجتناب، اسلام کی بنیادی تعلیمات کی نصاب میں شمولیت اور اسلامی بنیادوں پر بچوں کی ذہن سازی اور فکری تربیت کے ساتھ کیا آج ہم ہندوستان میں اعلیٰ معیار کی تعلیم گاہیں قائم نہیں کرسکتے؟ کیا دستور کی رو سے ہمارے لیے اس کی گنجائش نہیں؟ یقیناً کرسکتے ہیں، اس طرز پر، اس فکر کے ساتھ کچھ غیرت مند مسلمانوں نے ملک کے طول وعرض میں اس کا کامیاب تجربہ کیا تو اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے اور ایسے اداروں کی مانگ میں نہ صرف تیزی سے اضافہ ہونے لگا، بلکہ اپنے تعلیمی معیار کی بلندی اور دسویں وبارہویں کے سرکاری امتحانی نتائج میں ان اسلامی اسکولوں کے سرفہرست رہنے کی وجہ سے غیر مسلموں کی طرف سے بھی اپنے بچوں کو غیر فطری اور بے حیا ماحول سے محفوظ رکھنے کی ضرورت کے پیش نظر بڑی تعداد میں ان اسلامی اسکولوں میں داخلے ہونے لگے۔

یہ بہت آسان اور قابل عمل منصوبہ ہے
اسکولوں کا قیام اس وقت ملک کے موجودہ حالات میں جتنا آسان ، کم خرچ اور سہل ہے، شاید ہی اس سے پہلے کبھی اتنا آسان تھا، تعلیم کی طرف عوام کے میلان نے غریب سے غریب شخص کو بھی اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے پر مجبور کر دیا ہے، یعنی اسکولوں میں بچوں کی فراہمی اور معیار تعلیم کی شرط کے ساتھ بڑی سے بڑی فیس کی ادائیگی بھی اب کوئی مسئلہ نہیں ہے ، آپ صرف ایک لاکھ کے سرمایہ سے اپنے خود کے اسکول کا آغاز کرسکتے ہیں، شہر کے کسی بھی حصے میں آپ ایک خوب صورت، کشادہ اور معیاری مکان کرایہ پر لیجیے اور بیس پچیس بچوں سے نرسری، ایل کے جی اور یو کے جی کی کلاسز کا آغاز کر دیجیے، تین چار سو روپیہ ماہانہ بچوں سے لی جانے والی فیس سے ہی اساتذہ کی تنخواہ اور مکان وبجلی کا کرایہ بھی ادا ہو جائے گا ، طلبا کے لیے خوب صورت یونی فارم، کھیل کود کے کچھ سامان، شروع میں ان کو گھروں سے لانے کے لیے کرایے کے آٹو رکشہ کا نظام، چھٹیوں میں ان کے لیے پکنک کا انتظام ، ماہانہ سرپرستوں کی میٹنگ، وقفہ وقفہ سے بچوں کے اسلامی ثقافتی پروگرام وغیرہ کے ساتھ، جب وقت کے ان تقاضوں کی روشنی میں اسلامی وشرعی حدود میں رہتے ہوئے آپ ایک سال مکمل کریں گے اور محلے وشہر کے لوگوں کے سامنے بچوں کی یہ کارکردگی آئے گی تو اگلے سال خود بخود آپ کے یہاں دس گنا بچوں کے والدین آپ کے اس اسلامی اسکول میں داخلے کے لیے ویٹنگ لسٹ میں نظر آئیں گے ، یہاں ایک دن وہ آئے گا کہ آپ کے ادارے کا شمار نہ صرف شہر کے، بلکہ پورے ملک کے میعاری اور نامور ، قابل تقلید تعلیمی مراکز میں ہوگا اور یہ سب اسلام سے آپ کے ادارے کی نسبت کی برکت ہو گی ، کیا لاکھوں روپے کے عطیات سے مسجدیں تعمیر کرنے والے ، یتیم خانے بنوانے والے، غریبوں کی اجتماعی شادیاں کرانے والے ، لوگوں کو حج پر بھیجنے والے ہمارے یہ اصحاب خیر دو چار لاکھ روپے کسی سال ملت کی اس اہم ترین ضرورت کے لیے مختص کر کے اس کا تجربہ نہیں کرسکتے ؟ اگر آپ کے پاس اس طرح کے تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے وقت یا تجربہ نہیں ہے تو کم از کم آپ سرمایہ تو فراہم کر دیجیے اور تعلیمی میدان سے تعلق رکھنے والے کسی دین پسند اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کو اس کام میں لگا دیجیے، الحمدلله گزشتہ چند سالوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں اس کے کام یاب تجربے وجود میں آچکے ہیں، وہاں جاکر خود اس کا مشاہدہ کیجیے اور اسی کو بعینہ اپنے یہاں نافذ کرنے کی کوشش کیجیے، غیر شعوری اور غیر محسوس طریقے سے اسلام سے نکلنے والی فکری ارتداد میں مبتلا نئی نسل کو ایمان پر باقی رکھنے کی آپ کی یہ کوشش اس وقت ملت کی سب سے بڑی اور اہم ترین ضرورت ہے۔
شائع ہواالفاروق, محرم الحرام ۱۴۳۲ھ, Volume 27, No. 1

https://www.farooqia.com/node/474
Mohammad Mubeen
About the Author: Mohammad Mubeen Read More Articles by Mohammad Mubeen: 24 Articles with 83383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.