آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹنٹ جنرل (ر) اسد درانی ،
'را' کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت اور ادتیہ سنہاکی مشترکہ کتاب ''
سپائی کرانیکلز،را ، آئی ایس آئی اور امن کا سراب'' نے تہلکہ مچا دیا
ہے۔کتاب میں دونوں ملکوں کے درمیان ٹریک ٹو بات چیت کے حوالے سے دونوں
ملکوں کے کئی اہم امور پر کھلے انداز میں بات کی گئی ہے۔''ہارپر کولنگز ''
دہلی کی شائع کردہ اس کتاب کے سات باب، تیس عنوانات میںپاکستان اور انڈیا
کے اکثر اہم امور پر بات کی گئی ہے۔اس کتاب میں شائع انکشافات نے پاکستان
میں ایک صورتحال پیدا کی ہے ۔کتاب کے عنوان میں پاکستان اور انڈیا کی دوستی
کو سراب کہا گیا ہے ،جسے آپس میں ملتے تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن حقیقت میں
دونوں آپس میں کبھی نہیں ملتے اور ان کا آپس میں ملنا( دوستی) '' خلاف
قدرت'' ہے۔اسی حوالے سے کتاب کا نام رکھا گیا ہے کہ دوستی کے خواب دیکھتے
اور دکھاتے رہو لیکن ایسا ہو گا کبھی نہیں۔کتاب کا ایک بڑا حصہ کشمیر کے
بارے میں ہے اور اس سے دونوں ملکوں کی سوچ اور طرز عمل کا اظہار بھی ہوتا
ہے۔ب کتاب میں کشمیر پر بھرپور بات چیت اور انکشافات پاکستانی عوام خاص طر
پرکشمیریوں کے لئے نہایت اہم ہیں۔
کتاب کے تعارف میں سعادت حسن منٹو کا یہ جملہ تحریر کیا ہے کہ '' افق میں
جہاں سمندر اور آسمان ملتے نظر آتے ہیں،یہ صرف نظر کا دھوکہ ہوتا ہے کیونکہ
وہ کبھی نہیں ملتے ،لیکن کیا یہ تصور خوبصورت نہیں ہے،وہ دیکھنا جو اصل میں
وہاں نہیں ہے ۔امر جیت سنگھ دولت تعارف میں' کاش کہ ہم دوست ہوتے' کے عنوان
میں لکھتے ہیں کہ 2014میں جب وزیر اعظم مودی حلف کی تیاری کر رہے
تھے،سرینگر سے دو خاص شخصیات نے تجویز کیا کہ حلف کی تقریب میں پاکستان کے
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو بھی مدعو کیا جائے۔ پاکستان میں ایک
سنیئر سفارت کار نے رابطے پر مجھے مشورہ دیا کہ اس کا رسک نہ لیا
جائے،کیونکہ ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کو انڈیا جانے کی اجازت نہ ملے۔میں نے
جنرل(اسد درانی) سے رابطہ کیا ،انہوں نے کہا کہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ
نواز شریف تقریب میں شرکت نہ کرے۔پاکستان میں جنرلز عمومی طور پر درست تھے
اور ان سے زیادہ اسد درانی۔انڈیا پاکستان کے درمیان کسی بھی بات چیت میں
کشمیر ناگزیر طور پر آ جاتا ہے۔جنوری 2018میں گوا میں سالانہ یاترا کے موقع
پر میں درزی کی ایک دکان پہ ایک کشمیری سے ملا۔اس نے مجھے بتایا کہ کشمیری
آزادی چاہتے ہیں۔میں نے پوچھا کس کے لئے؟اس نے کہا کہ اگر تم میری دکان میں
داخل ہو کر مجھے مارو گے تو تم مجھ سے کیا توقع کر سکتے ہو؟سیکورٹی فورسز
کشمیر میں کیا کر رہی ہیں؟کسی کو بھی روک کر تشدد کا نشانہ بنایا جا تا
ہے۔عام احتجاجی مظاہروں یا پتھرائو پر آنسو گیس،پیلٹ گن کا استعمال کیا
جاتا ہے۔دلت لکھتے ہیں کہ اس صورتحال میں کہ کشمیر بدستور ابل رہا ہے،لائین
آف کنٹرول اور سرحد عام حالات کے برعکس غیر مستحکم ہیں،حکومت کی طاقت کی
پالیسی پر عمومی طور پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔حال ہی میںلشکر طیبہ سے الگ
ہو کر تائب ہونے والا ایک ملی ٹینٹ مجھے سے ملنے آیااور مجھ سے وادی
(کشمیر) میں ریڈیکل ازم میں اضافے کے خطرے کے بارے میں بات کی۔اس نے کہا کہ
جنوبی کشمیر کے نوجوان شہید ہونے کو تیار ہیں ،پاکستان کو اس پر کوئی تشویش
نہیں ہے کہ وہ اللہ کے لئے لڑ رہے ہیں۔پاکستان کے ایک سابق سیکرٹری خارجہ
ریاض احمد خان نے تسلیم کیا ہے کہ 2008میں ممبئی میں دہشت گردی کا حملہ
کشمیر کاز کے لئے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوا ہے۔دلت نے کہا کہ اس وقت سے
پاکستان معاملے سے باہر تھا،حتی کہ ہم نے انہیں 2016میں واپس لایا۔یہ ملی
ٹینٹ جو ایک دہشت گرد کی جگہ ایک پروفیسر معلوم ہوتا ہے،نے متنبہ کیا کہ
ایک وقت میں جماعت اسلامی کی پاکٹس صرف سوپور،شوپیاں ،کلگام اور پلوامہ میں
تھیں،اب غالبا نوجوانوں میں ریڈیکل ازم پھیلا رہی ہے۔ اس نے اپنے تجربے سے
بتایا کہ انہوں نے حکومت اور جموں و کشمیر پولیس میں بھی نفوذ کر لیا
ہے۔سرینگر میں سینٹرل جیل ریڈیکل ازم کا گڑھ ہے۔اس نے کہا کہ کشمیر میں
عسکریت ایک اچھی صنعت تھی،سب کا مفاد یہی نظر آتا تھا کہ '' سٹیٹس کو''
برقرار رہے۔دولت لکھتے ہیں کہ کشمیر کی صورتحال پاکستان سے ہمارے تعلقات کی
طرح کہیں بھی نہیں جا رہی۔دولت کہتے ہیں کہ میں نے' ٹریک ٹو'اور کشمیر
،افغانستان اور بلوچستان کی مماثلت سے بہت کچھ سیکھا ہے۔دولت نے ایک
پاکستانی مصنف احمد رشید کا حوالہ دیا کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا تو
افغانستان ایک '' کیک واک'' ثابت ہو گا۔
اپنے حصے کے ابتدائیہ میں اسد درانی نے زیادہ اپنے حالات زندگی بیان کئے
ہیں۔ سٹیج کی تیاری کے عنوان کے ابتدائی باب میں اے ایس دولت اور اسددرانی
ادتیہ سنہا کے سوالات کے جواب دیتے ہیں۔اسد درانی ایک مثال کے طور پر بیان
کرتے ہیں کہ کشمیر بغاوت کے وقت وہ ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ تھے اور اس
معاملے میں کئی پہلوئوں سے ملوث رہے۔اسد درانی کہتے ہیں کہ ہمیں اطلاعات کی
ضرورت تھی،غالبا1990میں بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت تھی،انہوں نے آئی ایس
آئی ،ایم آئی اور دفتر خارجہ کو اپنا اپنا تجزئیہ پیش کرنے کو کہا۔کچھ نے
کہا کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے،یہ ایک اور طرح کی ڈویلپمنٹ ہوئی ہے۔یقینا
یہ ہماری توقعات سے بھی طول پکڑتا گیا،ہماری طرف سے جو اس معاملے میں ملوث
تھے ،وہ حیران رہ گئے،ان کا تجزئیہ درست ثابت نہ ہوا۔دلت نے کہا کہ ہم نے
اس کتاب سے پہلے انٹیلی جنس تعاون پر ایک مشترکہ پیپر تیار کیا۔اس کے بعد
پیٹر کی تجویز پر کشمیر پیپر بھی تیار کیا۔اس موقع پر اسد درانی نے کہا کہ
سٹیفن کوہن نے انہیں پیغام میں کہا کہ وہ انٹیلی جنس تعاون کے بارے میں
ہمارے پیپر سے متاثر ہوئے ہیں۔وہ انڈو پاک افیئرز کے ایک ماہر ہیں۔حکومتوں
کی طرف سے ایسا پیپر تیار کرنے کے ردعمل کے سوال پر اسد درانی اور دولت نے
کہا کہ اس بارے میں حکومتوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔دولت نے کہا کہ کشمیر
مجھے پاکستان لے گیا اور جب میں نے پاکستان کو دیکھنا چاہا تو وہ مجھے
افغانستان لے گیا،اور افغانستان کو دیکھتے ہوئے مجھے کشمیر سے مماثلت نظر
آئی۔جنرل صاحب( اسد درانی) نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ کئی
حوالوں سے اسی طرح پھنسا ہوا ہے جیسا کہ کشمیر کا مسئلہ۔کشمیر کے بارے میں
لکھی گئی کتاب میں کشمیریوں کو پیسے دینے کی بات سے متعلق آدتیہ سنہاکے
سوال کے جواب میں دولت نے کہا کہ '' تم مجھے تہاڑ(جیل) بھیجوانا چاہتے
ہو''۔اس بات پر انڈیا میں مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا تاہم میں نے محسوس کیا
کہ اسٹیبلشمنٹ اس پر خوش نہیں تھی۔پیسے دینے میں انوکھی بات کیا ہے،ایسا ہر
جگہ ہوتا ہے ۔میں نے یہ بات ایک پیرائے میں کہی تھی۔2004میں پی ایم آفس سے
سبکدوش ہونے کے بعد بعض نے مجھ پر الزام لگایا کہ کشمیر میں ہونے والی
خرابیوں کا ذمہ دار میں ہوں،ایک سینئر افسر نے کہا کہ میں نے کشمیر کے
ذریعے رشوت لی ہے۔میں نے اسے جوابی طور پر کہا کہ تم کشمیر سے خود ڈیل کیوں
نہیں کرتے؟یا کم ازکم مجھے کرنے کا کوئی بہتر راستہ بتائو؟ادتیہ سنہاکے ایک
سوال کے جواب میں اسد درانی نے کہا کہ نواز شریف کی پہلی حکومت کے وقت میں
ڈی جی ا'آئی ایس آئی ' تھا،میاں صاحب چند خاص معاملات میں '' پیرا نوئڈ''
تھے ،جیسا کہ فوجی طاقت کیا کرنا چاہتی ہے؟آئی ایس آئی کیا کرے گی؟کیا
انہیں اپنا آدمی آئی ایس آئی کا سربراہ لگانا چاہئے؟ اسد درانی نے ایک سوال
کے جواب میں اپنے بیٹے کی ممبئی میں ممکنہ گرفتاری سے بچنے میں دولت کی مدد
کے واقعہ کا تفصیلی تذکرہ کیا جبکہ دولت نے انکشاف کیا کہ 2003میں ' را' کی
طرف سے ایک اطلاع کی مدد سے' آئی ایس آئی ' جنرل پرویز مشرف کی زندگی بچانے
میں کامیاب ہوئی۔دوسرے باب کے چارحصوں میںدولت اور درانی نے جاسوسی کے کام
پر بات کی ہے،اس میں آئی ایس آئی اور را کا تقابل کیا گیا ہے،دوسرے اہم
ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں سے موازنہ کیا گیا ہے۔اس میں دونوں
سابق سربراہان نے دونوں ملکوں کے خفیہ اداروں کے سربراہان کی بات چیت کے
فوائد بیان کئے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان جاسوس کمیونیکیشن چینل قائم
کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اسد درانی نے کہا کہ 2010میں امان اللہ گلگتی اپنے لوگوں کے ساتھ مظفر آباد
سے چکوٹھی لائین آف کنٹرول کی طرف مارچ کی قیادت کر رہا تھا،میں بھی اس کے
ساتھ گیا،وہاں لائین آف کنٹرول کی طر ف جانے سے روکنے کے لئے ایک بیریئر
لگا ہوا تھا،میں نے بتایا کہ میں ایک وقت میں کیا تھا،وہاں موجود ایک
جونیئر کمیشنڈ آفیسر نے کہا کہ صاحب آپ کبھی تھے تو تھے ،ابھی تو نہیں
ہیںناں۔اس پر دولت نے کہا کہ ایسا ہر وقت ہوتا ہے کہ جب آپ سسٹم سے باہر ہو
جاتے ہیں۔اسد درانی نے کہا کہ''آئی ایس آئی'' کی سب سے بڑی ناکامی کشمیر کی
بغاوت کے وقت تھی کہ جب ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کتنا چلے گی۔اس طرح کی
چیزیں چھ ماہ،سال چلتی ہیں۔جب یہ پائیدار ہوئی تو ہم حیران ہوئے کہ اسے
کیسے ہینڈل کریں۔ہم اسے 'آئوٹ آف کنٹرول' ہونے نہیں دینا چاہتے تھے،جو
صورتحال جنگ کی طرف جا سکتی تھی اور جو دنوں طرف سے نہیں چاہتے تھے۔ہمارا
چیلنج یہ تھا کہ کیا ہم اسے '' مائیکرو منیج'' کر سکتے ہیں۔آئی ایس آئی کے
فائدہ اٹھانے سے کشمیر کی بغاوت کامیابی کی طرف گئی۔مجھے آج بھی افسوس ہے
کہ ہم نے امان اللہ گلگتی کو مزید سنجیدہ کیوں نہیں لیا۔اس کے گروپ نے
بغاوت کی قیادت کی۔جب میں ان سے ملا اس وقت میں آئی ایس آئی میں تھا۔ا س
وقت وہ اہم نظر نہیں آیا۔ان کا آزادی کاتھرڈ آپشن غیر ضروری طور پر پانی کو
گدلا کر رہا تھا۔ویسے اس آزادی کا مطلب کیا ہے؟میرے خیال میں حریت کی تشکیل
مزاحمت کو سیاسی سمت فراہم کرنے کے حوالے سے ایک اچھا آئیڈیا تھا۔انہیں
تحریک کو ہینڈل کرنے دینا ،گروہوں کو کرنے دینا جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔اس
موقع پر دولت نے کہا کہ کشمیر میں پاکستانی اینگل کے بارے میں ،انہوں نے
اکثر کسی کو یہاں وہاں سے نکالنے یا کسی کو تنظیم بنانے پر مجبور کیا ہے،یا
ڈکٹیٹ کیا ہے،یہ ٹھیک ہے ،یہ ایک حد تک کام کرتا ہے۔کشمیر بہت دردناک ہے
اور تحمل کا متقاضی ہے،یہی ہے جو پاکستان نے کھو دیا ۔ایک عرصے کے بعد یہ
احساسات تھے جیسا کہ جنرل صاحب کہہ رہے ہیں،جانے دو ،انہیں کرنے دو ۔ممبئی
حملے کے بعد سے گزشتہ دس سال کی بات چیت پاکستان اسی بنیادوں پر ہی کر رہا
ہے۔جنرل ( اسد درانی)کا جواب تھا کہ وہ کشمیر پر بعد میںبات کر سکتے ہیں،اب
کے لئے وہ کشمیر کو پس پشت ڈال سکتے ہیں۔لیکن اب ایک بار پھرگزشتہ تین سال
سے ''گیم آن'' ہے کیونکہ ہم نے غیر یقینی پیدا کی۔میں (دولت) نے ٹریک ٹو
میں پاکستانی دوستوں سے کہا کہ آئیں آپ کے کور اشو کشمیر پر بات کریں۔حتی
کہ جنرل صاحب( اسد درانی) نے کہا کہ ہمیں کشمیر میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے
،فی الحال اسے بھول جائیں۔یہ ایسا ہی ہے۔یہ ملٹری ری ایکشن ہے،مسئلے سے
نمٹنے کا ایک طرح کاملٹری طریقہ ہے۔یہ ممکنہ طو ر پر آئی ایس آئی کی ایک
کمزور ی ہے۔اس پر اسد درانی نے کہا کہ یہ کچھ ہمارے سسٹم میںہے۔دولت نے کہا
کہ آپ نے اپنے راستے بلڈوز کر دیئے۔کشمیر ی جانتے ہیں کہ مختلف اطراف سے
کیسے کھیلنا ہے۔اس موقع پر آدتیہ سہنا نے کیا کہ چناچہ مصیبتیں اٹھانے کے
باوجود انٹیلی جنس گیم کشمیریوں نے جیتی ہے۔اس پر دولت نے کہا کہ ایک ساتھی
جسے میں سالوں سے جانتا تھا ،مجھے ایک بات بتاتا اور چھ ماہ بعد مجھے کچھ
اورہی بتاتا،اس کا تناظر،اس کی تاریخ سب کچھ تبدیل ہو جاتا۔وہ کٹورا ہو
گا،جنرل صاحب یہ ایک '' گگلی '' ہے۔کشمیر وقت چاہتا ہے۔اگر آپ اسے سمجھنا
چاہتے ہیں یا اس میں ملوث ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لئے وقت ،تحمل،ہمدردی کی
ضرورت ہے۔اسد درانی نے کہا کہ میں متفق ہوں،میں اس بات سے بھی متفق ہوں کہ
جن حالات میں کشمیر یا افغانستان رہ رہے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ آپ کو دو
یا تین مختلف اطراف رکھنے پڑیں گے،اچھا مزاح ہے۔اور بدستور زندہ ہے ،انڈین
آرمی یا امریکی آرمی سے لڑ رہے ہیں۔دولت نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے جانتے ہیں
کہ افغانستان کے بارے میں ہمیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔اگر سی آئی اے افغانستان
میں آئی ایس آئی کو ڈھیلا چھوڑتی ہے تو تب آپ کشمیر میں حزب،لشکر اور جیش
کو کھو سکتے ہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ براہ راست منسلک ہے ،اس میں ناگزیری
ہے۔اگر امریکہ نے یہ محسوس کیا کہ آئی ایس آئی قابو سے باہر ہو رہی ہے تو
ایسا محسوس کرتے ہیں کہ یہ قبل از وقت ہے،تب انڈیا کے تجزئیے تھے کہ اس کے
کشمیر میں طویل المدت اثرات مرتب ہوں گے۔اسد درانی نے کہا کہ امکانات اور
تناظر پر بات کرنا آسان ہے ،اگر آپ ایسا کرتے ہیں تب وہ یہ کریں گے۔یہ
ضروری نہیں ہے ، جیسے کو تیسا ہو۔دولت نے کہا کہ جیسے کو تیسا تو ہو رہا
ہے۔کشمیر افغانستان کے امور کے حوالے سے آتا ہے۔اسد درانی نے کہا کہ جب ایک
کشمیر کی طرف دیکھ رہا ہو تو ممکن ہے کہ وہ مکمل تصویر درست طور پر دیکھنے
کے قابل نہ ہو۔لیکن ابتدائی طور پر اگر صلاحیت مشتبہ ہو تو ہم انتظار کریں
گے اور دیکھیں گے۔دولت نے کہا یہ درست ہے۔اسد درانی نے کہا کہ تب ہم کہہ
سکتے ہیں کہ آپ کو جہاں بھی مسائل ہیں ،یہ ہمارے لئے مناسب وقت نہیں ہے کہ
ہم سکھ کارڈ،کشمیر کارڈ،الفا کارڈ استعمال کریں۔آخر میں آئیڈیا یہ تھا کہ
یہ معاملہ جنگ کی طرف نہیں جانا چاہئے جو دونوں فریق چاہتے ہیں۔یہ دھماکہ
ہو سکتا ہے جس سے دونوں ملک جنگ میں ملوث ہو جائیں جس کے لئے کوئی بھی
بارگینگ نہیں کرے گا۔آئیڈیا یہ تھا کہ اسے جاری رکھا جائے ۔ہم ٹریڈ اینڈ
کلچرل رابطوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
اسد درانی نے کہا کہ مئی1990میں رابرٹ گیٹس کشمیر میں بغاوت کے تناظر میں
انڈیا اور پاکستان کے دورے پر آیا۔انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سرحد پر اپنی
فوج لگادی تھی۔آئی ایس آئی کا تجزئیہ تھا کہ انڈیا پاکستان کی ساتھ جنگ
نہیں کرے گا کیونکہ اہم عناصرکنٹونمنٹس میں ہی چھوڑ دیئے گئے تھے۔انڈین
حکومت اپنے لوگوں پر اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہتی تھی۔اس لئے ہم نے
اپنی کئی فارمیشنز امن کی جگہوں پر ہی رکھیں۔تاہم امریکہ نے انڈین ٹروپس کی
نقل و حرکت اور کرینوں کو ہماری بیسز سے باہر نکلتے دیکھا اور اس سے یہ اخذ
کیا کہ یہ میزائیل ہو سکتے ہیں۔تاہم گیٹس ممکنہ ایٹمی جنگ کو روکنے کے لئے
تیار تھا۔سنہا کے ایک سوال کے جواب میں اسد درانی نے کہا کہ میں آئی ایس
آئی کے چیف کی حیثیت سے 1991میں را کے سربراہ باجپائی سے سنگا پور میں دو
دن ملا۔کشمیر کی بغاوت ہماری ملاقات کاموضوع تھا۔دولت نے کہا کہ جب
یونیورسٹی آف اٹاوہ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ملٹری ٹو ملٹری ڈائیلاگ
شروع کرائے ،وہ اچھے رہے۔جنرل درانی نے تجویز کیا کہ اسی طرح کے ڈائیلاگ
ریٹائرڈ انٹیلی جنس افسروں کے بھی کرائے جائیں،اور وہ اچھے جا رہے ہیں۔دولت
نے کہا کہ لندن میں جنرل احسان سے ایک سیمینار کے موقع پر ملاقات
ہوئی۔تقریب کا موضوع انٹیلی جنس تھا لیکن جنرل احسان نے انڈیا پاکستان
تعلقات پر بات شروع کر دی۔بنیادی طور پر ان کے ذہن میں کشمیر تھا۔میں نے ان
سے کہا کہ سر موضوع انٹیلی جنس ہے۔انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں ،انڈیا
،پاکستان ،کشمیر میں بہت کچھ ہوا ہے۔انہوں نے کشمیر سے بات شروع کی،انسانی
حقوق اور کشمیر میں کیا ہو رہا ہے اور انڈیا پاکستان تعلقات پر بات کی۔
چھٹے باب میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان اہم مسئلے کشمیر سے متعلق
ہے۔باہمی تعلقات ''سٹیٹس کو'' میں منجمد ہیں اور دولت اور درانی '' سٹیٹس
کو'' کی اپنی اپنی تشریح کرتے ہیں ۔انہوں نے کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بات کی
،انہوں نے بتایا کہ آئی ایس آئی نے شروع میں کشمیر کی آزادی کی وکالت
کی،نریندر مودی کے دور میں کشمیریوں کی غیر تکمیل شدہ توقعات،دونوں اس بات
پہ متفق ہوئے کہ آگے کا صرف یہی راستہ ہے کہ کشمیریوں سے کہا جائے کہ جو تم
لے سکتے ہوے لو،بجائے اس کے کہ ایک ہی بار مکمل حل کیا جائے۔کتاب میں بتایا
گیا ہے کہ آٹھ ماہ کے وقفے کے بعد پرا جیکٹ فروری2017میں بنکاک میں دوبارہ
شروع ہوا۔اسد درانی نے کہا کہ انڈیا '' سٹیٹس کو'' پاور کے طور پر سمجھا
جاتا ہے۔جس کا پاکستان یہ مطلب لیتا ہے کہ کشمیر پر کوئی موومنٹ نہیں۔ہم
کشمیر کے علاوہ کسی اور بارے میں نہیں سوچ رہے تھے۔آپ پی او کے( آزاد
کشمیر) کے بارے '' بار گینگ چب'' کے طور پر بات کر سکتے ہیں۔لیکن میں محسوس
کرتا ہوں کہ ضرورت ہے کہ ہم اس مسئلے کاحل نکالیں۔کوئی اسے سنجیدگی سے نہیں
لیتا۔پاکستان ''سٹیٹس کو'' تبدیل کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ کشمیر کی
صورتحال سے خوش نہیں تھا۔میں اس نتیجے پر پہنچا کہ 1998میںکمپوزٹ ڈائیلاگ
انڈیا پاکستان کے تنازعات حل کرنے کے لئے ایک شاندار فریم ورک فراہم کرتا
ہے۔اس کا فارمولا اچھا تھا،ہم اعتماد کا ماحول تیار کر سکتے تھے۔تب ہم
سیکورٹی اور کشمیر جیسے مشکل اشوز پر بات شروع کر سکتے تھے۔بعد کے مرحلے
میں ہم دہشت گردی کے موضوع پر آ سکتے تھے۔جامع مزاکرات نے کام کیا اور
انڈیا کے وزیر خارجہ نے2006میں اسلام آباد کے دورے میں ایک سنگ میل
ایگریمنٹ پر دستخط کئے۔توقعات تھیں کہ دونوں ملک امن عمل شروع کرتے ہوئے
کشمیریوں لیڈروں کو ایل او سی کے دونوں طرف کے دورے کے لئے سہولت فراہم
کرنے پر آمادگی ظاہر کریں گے۔بس سروس شروع کرنے کی بات ہوئی۔اسے صرف علامتی
سمجھا گیا۔اہم چیزیں دوسرے ٹریکس سے ہونی تھیں اور آسان چیزیں پہلے۔اور جب
آسان باتوں پر بھی کچھ بھی نہ ہوا ،تب میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انڈیا ''
سٹیٹس کو'' برقرار رکھنا چاہتا ہے۔میرے خیال میں انڈیا اس بات پر یقین
رکھتا ہے کہ اگر '' سٹیٹس کو'' میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو انڈیا کے لئے
صورتحال پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے۔اگر صورتحال خراب ہوتی ہے تو یہ نا
صرف پاکستان بلکہ انڈیا کے لئے بھی نقصاندہ ہو گا۔میں اس وقت سمجھ سکتا تھا
کہ دہلی مشرف کے انشیٹیوز کا جواب کیوں نہیں دیتا۔انڈیا کی خاموشی ظاہر
کرتی تھی کہ دہلی کوئی جواب دینا نہیں چاہتا۔سفارتی طریقوں کے مطابق دہلی
نے ہمیں بتایا کہ دفع ہو جائو ،جائو کھمبے پہ لٹک جائو،ہم اس سے اپنے طریقے
سے نمٹیں گے۔اے ایس دولت نے کہا کہ اس بیان پر ہم اپنی دلیل رکھتے تھے۔اگر
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کچھ نہیں ہے تو '' سٹیٹس کو'' کیا ہے؟صرف آنا
جانا ایک مسئلہ ہے۔اگر تعلقات بہتر ہو جائیں تو یہ باتیں دہلی اور لاہور
میں ہر ہفتے ہو سکتی ہیں۔میر ا یقین ہے کہ '' سٹیٹس کو '' کچھ نہیں ہے اور
ہمیں آگے بڑہنے کی ضرورت ہے۔اصل میں '' سٹیٹس کو'' سے اگر کسی کی مدد ہوتی
ہے تو یہ پاکستان کی مدد کرتا ہے۔میں '' سٹیٹس کو '' بزنس کی ایک مضبوط
مثال دیتا ہوں ۔چلیں کشمیر کو آج دیکھتے ہیں جو2012 سے '' سٹیٹس کو'' میں
پھنسا ہوا ہے۔لیکن آج سٹیٹس کو سے پاکستان کی فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ بی جے
پی اور پی ڈی پی کا کشمیر میں ا تحاد کو کشمیریوں نے کئی طریقوں سے ناکام
کیا ہے۔محبوبہ یہ جانتی ہے لیکن وہ پھنسی ہوئی ہے۔وہ اور پاکستان جانتے ہیں
کہ کشمیر میں ان کی ناپسندیدگی بڑہتی جا رہی ہے۔جب سے تحریک شروع ہوئی،اس
وقت سے پہلی بار وادی میںملی ٹینسی بہت زیادہ مقامی ہے۔لڑکوں کو شکایات
ہیں،امتیازی سلوک یا ناامیدی ہے۔صرف بیس تیس لڑکے لیکن وہ بری طرح کافی
ہیں۔تمام آبادی ان کے پیچھے چلنے کی تمنا رکھتی ہے۔یہ ہمارے لئے پریشان کن
باتیں ہیں ،چناچہ سٹیٹس کو کس طرح ہماری مدد کرتا ہے؟اس وقت سٹیٹس کو
پاکستان کی مدد کرتا ہے لیکن بڑے تناظر میں سٹیٹس کو کبھی مدد نہیں کر
سکتا۔اسد درانی نے کہا کہ ایک یا دو سال قبل مسٹر دولت نے یہ کہنا شروع کیا
کہ سٹیٹس کو پاکستان کو سوٹ کرتا ہے کیونکہ کشمیر میں ایک مسئلہ موجود
ہے۔برہان وانی کے قتل کے بعد میں نے آئیڈیا پر سوچنا شروع کیا کہ وادی
(کشمیر) میںکیا ہو رہا ہے۔پاکستان کو بیٹھ کر تماشہ دیکھنا چاہئیے۔ ہو سکتا
ہے کہ انڈیا اپنی اصل پالیسی،پرانے خطرات اور اپنی پرانی اپروچ کو تبدیل
کرنے پر مجبور ہو جائے۔اور تب ہمیں ایک نئے سٹیٹس کو کا سامنا ہو گا۔اس وقت
کوئی کہہ سکتا ہے کہ کشمیریوں کی تحریک جاری رہنے کا سٹیٹس کو پاکستان کے
مفاد میں ہے ۔اگر یہ ناگزیر طور پر جاری رہتا ہے، اگر آپ اس میں حصہ نہ لیں
تو اس کا فال آئوٹ لائین آف کنٹرول کے اس طرف بھی ہو سکتا ہے۔ابھی تک ہم
صرف اسی میں نہیں رہ رہے لیکن دوسری چیزیں بھی ۔بعض اوقات میں کہتا ہوں کہ
ہمارے تعلقات سٹریٹیجک استحکام حاصل کر چکے ہیں۔دولت نے کہا کہ اگر ہم
اکٹھے انٹیلی جنس پیپر تیار کر سکتے ہیں اور اگر ہم ہر میٹنگ میں اکٹھے اس
بات کی وکالت کرتے ہیں کہ انٹیلی جنس سربراہان کی ملاقات لازمی ہونا چاہئے
تو یہ سٹیٹس کو نہیں ہے۔ہم آل پارٹیز حریت کانفرنس کو نئی دہلی میں پاکستان
ہائی کمیشن میں چائے پینے کے لئے جانے سے روکتے تھے،تب 1995میں صدر فاروق
لغاری کے دورے کے موقع پر وزیر اعظم نرسیمارائو نے اس بکواس کو ختم کرنے کو
کہا ۔جو بھی جانا چاہتا ہے ،اسے اس کی اجازت ہونی چاہئے،جو باہر کا سفر
کرنا چاہتا ہے،اسے جانے دیا جائے۔واجپائی نے اس سے بھی آگے بڑہتے ہوئے حریت
کو پاکستان سفر کرنے میں سہولت فراہم کی۔چناچہ یہاں آگے بڑہنے کی تحریک تھی
جو پھر روک دی گئی اور اب ہم مزید پیچھے جا رہے ہیں۔دہلی کا موڈ یہ ہے کہ
حریت سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، حتی کہ فاروق عبداللہ سے بات کرنے
کی کوئی ضرورت نہیں۔دونوں طرف کے لئے یہ جیت نہیں ہے۔اسد درانی نے کہا کہ
سٹیٹس کو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی میٹنگ نہ ہو،کوئی حرکت نہ ہو،کوئی آنا
جانا نہ ہو۔اصل میں آپ اس وقت تک یہ کر سکتے ہیں کہ جب تک سیاسی انتظام میں
کوئی تبدیلی نہ ہو۔آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایل او سی کوتجارت کے لئے غیر
متعلق بنایا جائے،کل ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین کی طرح کے انتظامات کرنا
پڑیں۔میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر یقین رکھتا ہوں ،یہاں تک کہ
کشمیر میں محدود نہ ہو،مطلب امن لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بعض پالیسیوں
پر کمپرومائیز ز،کچھ دو کچھ لو۔ اس وقت امن کی قیمت تنازعہ کی قیمت سے بہت
زیادہ ہے۔تنازعہ کا انتظام کیا جا سکتا ہے ،کئی مواقع پر دونوں ملکوںکے
درمیان سرحد پہ فائرنگ ہوتی ہے اور لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔لیکن امن کی قیمت
کشمیر کی پرانی تقسیم کو قبول کرنا ہے یا پاکستان کے ساتھ انتظامات کو،سابق
انڈس واٹر ٹریٹی کو تبدیل کرنا وغیرہ۔دولت نے کہا کہ چار نکاتی فارمولہ (
مشرف فارمولہ) پاکستان سے آیا تھا اور کشمیریوں کی طر ف سے قبول کیا
گیا۔ہمیں اس پر بہت زیادہ اعتراضات نہیں ہیں ،چناچہ یہ قابل عمل ہو سکتے
ہیں۔مشرف نے جو چار یا چھ نکات میز پر رکھے،ہمیں اس پر بات کرنا چاہئے اور
جو ہمیں پسند نہیں اسے ختم کر دینا چاہئے۔2006-7کی کھڑکی مشرف کے جانے سے
پہلے ہی بند ہو گئی ۔مشرف نے کہا تھا کہ کرگل کو بھول جائیںاور آگے
بڑہیں،میں نے ایک غلطی کی تھی۔مشرف ایک سے زائد بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ
جو کشمیر اور کشمیریوں کو منظور ہو،وہ پاکستان کو بھی قبول ہو گا۔
درانی نے کہا کہ بیس سال پہلے سے اب تک بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں
تاہم دوسری طرف وہی مسائل ہیں،کشمیر ،انڈیا پاکستان کی کشیدگی،افغانستان۔یہ
بیانیہ کم و بیش ایک جیسا ہی ہے،دبائو برقرار ہے۔کشمیر کے تناظر میں کہتا
ہوں کہ ہم سٹیٹس کو میں کیوں پھنس کر رہ گئے ہیں۔دولت نے کہا کہ انڈیا
پاکستان تعلقات میں یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ یہاں
رابطے کا پل موجود ہے۔عوامی سطح پہ رابطے اہم ہیں ،امید نہیں یقین اہم
ہے۔میں کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان نے ہمیں کشمیر میں کس کر رکھا ہوا ہے،عوامی
رابطے سے مددگار ہو سکتے ہیں؟لیکن تب سے بہت کچھ دیکھا گیا ہے ،بہت تجربات
ہوئے ہیں۔درانی نے کہا کہ کئی لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اصل میں کشمیر میںکیا
مسئلہ ہے۔کشمیر میں بغاوت شروع ہونے کے بعد ایک بارمیں نے کشمیر میں ملوث
لوگوں سے پوچھا،جن میں کچھ پرانے کشمیری ہاتھ ہیں، کیا چیزیں بدلیں گی،ہاں
مختلف دکھائی دیتے ہیں،لوگ ناراض ہیں،وہ لڑنے کی باتیں کرنے کے بجائے شہادت
کی باتیں کرتے ہیں۔آدتیہ سنہاکے اس سوال کہ کیا آئندہ بیس سال کے دوران
مزید برہان وانی ہوں گے؟درانی نے کہا کہ کریک ڈائون ،سیاسی انتظام اور
کشمیری ہمارا ہے کی پالیسی بدستور لٹکائی جا سکتی ہے۔کشمیر کئی بار ابل پڑا
ہے،اس لئے نہیں کہ ہم نے کچھ کیا ہے ۔اس وقت ایک وجہ سے کشمیر ابل پڑا
ہے،کل کسی اور وجہ سے ابل پڑے گا۔کشمیر کے ایک ماہر کے مطابق کشمیر پیچیدہ
مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے کے لئے سادہ انتظام سے ہٹ کر کچھ کرنے کی ضرورت
ہے۔دولت نے کہا کہ یہاں کوئی ماہر نہیں ہے سر،بیس سال،پچاس سال سے کشمیر
وہیں ہے جہاں تھا۔لیکن اگر ہم نے اپنا سوچنے کا طریقہ تبدیل نہ کیا تو مزید
برہان وانی ہوں گے،کیونکہ ،مجھے کہنے دیں کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کشمیر
کے ساتھ ایماندار نہیں رہے ہیں۔کشمیر وادی میں ڈیمو گرافک تبدیلیوں کے عمل
کے حوالے سے سنہا نے سوال کیا کہ اس تبدیلی کے بعد سٹیٹس کو کہاں رہ جائے
گا،کیا اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیںہو جائیں گے؟اسد درانی نے کہا کہ بس
یاترا یا اوڑی کا واقعہ ایک طرف ،میں تجویز کرتا ہوں کہ نئے طریقہ کاراور
روئیے زیادہ اہم ہیں۔مثال کے طور پر ہم دونوں بات چیت کرتے ہیں،یہ شوشا
نہیں ہے کہ لوگوں کو راستے سے بھٹکایا جائے لیکن کچھ بحث کے لئے،تا کہ
سٹیٹس کو میں بہتری کی تبدیلی آئے۔کشمیر میں اکثر ایک جذبہ بھیجنے کی بات
کی جاتی ہے،یہ دونوں طرف سے کہا جاتا ہے،ایسا سرکاری سطح پہ نہیں ہونا
چاہئے ،بدقسمتی سے ایسا پہلے ہی ہو چکا ہے۔لوگ منظر عام سے ہٹ کر ایک آزاد
ریاست کشمیر کے خطرات اور تباہی کی بات کرتے ہیں۔ایک ٹی وی چینل اس کے
امکانات پر بات کرتا ہے کہ آزاد ریاست کشمیر سے انڈیا کو زیادہ نقصان ہو گا
یا پاکستان کو۔انڈیا تقسیم ہوا انڈیا اور پاکستان میں،پاکستان تقسیم ہوا
پاکستان اور بنگلہ دیش میں، اگر ایسا ہونے سے پہلے کوئی یہ بات کرتا کہ
انڈیا کو توڑ دو تو اس کا سر کاٹ دیا جا سکتا تھا، لیکن پھر ایسا ہو گیا۔آپ
آزادی چاہتے ہیں ،آگے بڑہیں اور اس کے لئے ووٹ دیں۔ہم سٹیٹس کو میں تبدیلی
چاہتے ہیں اور اسے بہتر بنانا چاہتے ہیں۔تاہم اسی کے ساتھ ہم اپنے یقین کے
آرٹیکلز پر سوالات نہیں چاہتے۔یہ سٹیٹس کو ٹوٹے گا نہیں بلکہ بد سے بدترین
ہوگا،ایسا چھ ماہ میں ہو جائے گا۔پھر مزید ایک سٹیٹس کو تخلیق کیا جائے گا
،اگلی بار جو ہو گا وہ بدترین ہو گا۔دولت نے کہا کہ ہم اس طرح کی وار گیمز
کھیل سکتے ہیںلیکن کون جانتا ہے کہ کیا ہو گا۔دہلی میں ایسے لوگ موجود
ہیںجو سمجھتے ہیں کہ پاکستان لازمی طور پر ٹوٹ جائے گا ،جو کہ بہت گندہ
خیال ہے۔اس پر اسد درانی نے کہا کہ چلیں پاکستان کے ٹوٹنے کے امکانات پر
بات کرتے ہیں ،ڈسکس کرو بھائی ،اچھا ہمارے لئے یا برا ہمارے لئے۔دولت نے
کہا کہ اوہ نہیں،ہمارے لئے یہ بہت بدتر ہے۔درانی نے کہا کہ نہیں اس بات پہ
بحث کرنے دو ۔دولت نے کہا کہ اسی لئے سمارٹ سیاستدان واجپائی مخالفت کے
تمام مشوروں کے باوجود مینار پاکستان چلے گئے تھے۔اسد درانی نے کہا کہ حمید
گل ایسی بات کرتا تھا کہ انڈیا ہمارے لئے بہت بڑا ہے لہذا ہمیں اسے توڑنے
کے لئے سب کچھ کرنا چاہئے۔ہم اس پر صرف ہنس دیتے،لیکن یہ کوئی نہیں کہتا
تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا اور کوئی کہتا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اچھا ہو
گا۔دولت نے کہا کہ یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتے
ہیں۔درانی نے کہا کہ مجھے اکھنڈ بھارت پر بات کرنے پر اعتراض نہیں ہے لیکن
ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔دولت نے کہا کہ جیسا کہ ادتیہ نے کہا کہ یہ تمام
علمی سطح کی بات چیت ہے۔اسد درانی نے کہا کہ ہم کنفیڈریشن کی طرف بڑہنے پر
غور کر سکتے ہیں اور تب ایک متحد انڈیا۔ہم کیسے سائیکل کو ریورس کر سکتے
ہیں؟کم از کم ڈسکس تو کریں۔یورپ نے نصف صدی تک بات کرنے کے بعد یونائیٹڈ
یورپ حاصل کیا،جس کا تصور چرچل نے پیش کیا تھا۔سنہا نے کہا کہ یورپ ایک
یونین بنا اور اب دوبارہ الگ ہو رہا ہے۔درانی نے کہا کہ ہاں اس طرح کی
چیزیں حتمی نہیں۔ ہر وقت سرحدوں کودوبارہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔دولت نے کہا
کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ناشتہ امرتسر،لنچ لاہور اور ڈنر کابل میں کرنے کی
بات کی تھی،کیا وہ خواب دیکھ رہا تھا؟درانی نے کہا کہ کوئی اس پر بات کر
سکتا ہے جب اس پربحث کی جائے۔
ادتیہ سنہا نے کہا کہ آخر میں ہم کشمیر پر آتے ہیں۔اے ایس دولت نے کہا کہ
کشمیر میں کئی حقیقتیں بھی شامل ہیں۔کشمیری قبول کرتا ہے کہ یہ کہیں نہیںجا
رہا،انڈیا اسے جانے نہیں دے گااور ایک مقام کے بعد پاکستان مدد نہیں کرے
گا۔پاکستان ایک دوست ہے اور ایک اچھاپشت بان ہے۔یہ مداخلت یا حملہ آور یا
جنگ کر سکتا ہے لیکن پاکستان کشمیر پر دعوی کرنے کے قابل نہیں اور نہ ایسا
ہو سکتا ہے۔لیکن کچھ ہونے کی ضرورت ہے،زمین پر کچھ مثبت ہونے کی۔کشمیر ایک
اشو ہے،تنازعہ ہے،ایک مسئلہ ہے۔ہم اسے تنازعہ یا مسئلہ نہیں سمجھتے لیکن اس
کے باوجود یہ ایک اشو ہے۔کہانی ختم نہیں ہوئی ۔کامن سینس کہتی ہے کہ سب کے
لئے ہمیں کوشش کرنا چاہئے اور بتدریج آگے بڑہنا چاہئے۔میرا کشمیر میں کیا
ہے؟ میں کشمیری نہیں ہوں،میں کسی سے منسلک نہیں ہوںلیکن میں کشمیریوں سے
باتیں کرتا ہوں،چناچہ وہ یقین کرتا ہے کہ دہلی میں ہر کوئی ان کی بات سننا
نہیں چاہتا۔یہ اہم ہے کہ جذبات زندہ رہیں۔عمومی طور پر دہلی میں سرکاری سطح
پر بھی کشمیریوں سے کوئی بھی ملنا نہیں چاہتا۔دولت نے کہا کہ ہم
نے1989-90میں کشمیر میں پاکستان کی مانیٹرنگ اور سپورٹ سے ہونے والی
ڈویلپمنٹ کو دیکھااور جیسا کہ جنرل صاحب کہتے ہیں، کشمیری بھی ہمیں کہتے
ہیں کہ یہ (کشمیر کا مسئلہ) پاکستان کے تصور سے بھی بڑا مسئلہ بن گیا
ہے۔بار گینگ یا کچھ چیزوں کے لئے تیار ہونے کے لئے،یہ آئوٹ آف کنٹرول ہو
گیا ہے،یہ صرف جاری ہے۔ اسی لئے نائن الیون کے بعد پاکستان پر الزام لگایا
گیا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کی حساسیت کو سمجھ نہیں رہا ہے۔اسد درانی نے کہا
کہ اے ایس دولت گرائونڈ کو ،لوگوں کو جانتا ہے،اس نے وہاں (کشمیر میں) کام
کیا ہے ،میں نے کبھی بارڈر کراس نہیں کیا تاہم میں نے آزاد کشمیر ( کتاب
میں آزاد کشمیر کے سامنے بریکٹ میں نام نہاد لکھا گیا ہے)میں کئی سال کام
کیا ہے۔سہنا نے سوال کیا کہ اگر انڈیا کشمیر کو کور اشو تسلیم کر تا ہے تو
کیا یہ باہمی تعلقات میں کوئی بریک تھرو ہوگا؟دولت نے کہا کہ مجھے معلوم
نہیں ،اس کا انحصار پاکستان کے ردعمل پہ ہے۔اسد درانی نے کہا کہ کئی مواقع
پر میں نے یہ سنا کہ انڈیا کشمیر کو کور اشو کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا
ہے۔پہلے سلمان حیدر سے جو کمپوزٹ ڈائیلاگ کا ایک ' 'کو آرتھر'' ہے، مجھے
صحیح طور پر یاد نہیں لیکن اس نے اسی طرح کی بات کی تھی کہ ہاں کشمیر کور
اشو ہو سکتا ہے۔کمپوزٹ ڈائیلاگ میں کور اشو پر شروع میں بات کرنے کی ضرورت
نہ تھی لیکن صرف امن عمل کو جاری رکھنے کے لئے۔ابتدائی فوکس ماحول کو بہتر
بنانے پر تھا۔اس کے بعد مشکل اشو کشمیر پر بات کا وقت آنا تھااور بعد میں
دہشت گردی پہ۔انڈیا میں کچھ لوگ کور اشو کہے بغیر کشمیرکو ایک بڑا مسئلہ
تسلیم کرتے ہیں ، اس کے ساتھ ہی وہ کہتے کہ پاکستان اس بات پہ یقین رکھتا
ہے کہ کور اشو پر شروع میں ہی بات کی جائے۔آپ اور سلمان حیدر(انڈین فارن
سیکرٹری) ہماری آپریشنل حکمت عملی کو جان گئے ہیں۔میں نے ان سے کہا کہ
آپریشنل حکمت عملی کے دو طریقے ہوتے ہیں،ایک جنگ ہے اور دوسرا مداخلت ہے۔آپ
کہیں لڑتے ہیں،مداخلت یا باہرسے توڑتے ہیں،یہ سب ایسے طریقے سے کیا جاتا ہے
کہ اس سے جنگ میں موافق ماحول میسر ہو سکے۔یہ جنگ اور مداخلت کا ایک مسلسل
عمل ہے،آپ نے ایسا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ مربوط مزاکرات مداخلت تھے اور اس سے
جنگ کے حوالے سے ضروری موافق ماحول تخلیق ہو ا،جو کشمیر کا حل تھا،کشمیر کے
لئے سویلین قسم کی جنگ۔
دولت نے کہا کہ کشمیر سے مزید براہ راست طریقے سے نمٹنے کی ضرورت
ہے۔2001-08کا عرصہ کشمیر کے حوالے سے ہمارے لئے اچھا تھاکیونکہ پاکستان پر
26/11کا دبائو تھا۔ان پانچ چھ سالوں میں پاکستان نے مسئلہ کشمیر نہیں
اٹھایا۔26/11کی وجہ سے ٹریک ٹو کے اجلاسوں میں پاکستان کو مزید شرمندگی کا
سامنا کرنا پڑا۔بعض پاکستانیوں نے کہا کہ اگر ہم نے اب بھی سبق حاصل نہیں
کیا تو تباہی ہے۔اسد درانی نے کہا کہ مشرف کے آگرہ دورے کے بعد میں نے
اخذکیا کہ کمپوزٹ ڈائیلاگ دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔تب میں نے پایا کہ اس
دوران کشمیرسے متعلق پیش رفت کے حوالے سے سوچا کہ کشمیر ماحول بہتر ہونے تک
پس پشت رہے گا۔انڈیا اور پاکستان کے پالیسی ساز چاہتے تھے کہ کشمیر پر
علامتی مظاہرہ کیا جائے اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان بس سروس شروع کی
گئی۔میرا خیال تھا کہ بس سروس کے علامتی اقدام سے کشمیری ملوث ہوں گے اور
پھر اسلام آباد اور دہلی،کلچرل ایکسچینج اور پھر دوسرے اختلافات کے سیاسی
حل کی طرف پیش رفت ہو گی۔لیکن پھر آسان امور،ویزہ،کلچر وغیرہ میں بھی کوئی
پیش رفت نہ ہوئی۔واحد پیش رفت جو ہوئی وہ کشمیر کے بڑے معاملے میں محض بس
سروس تھی۔میں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ انڈیا چھوٹے مسائل میں بھی حرکت نہیں
کر رہا ہے۔انڈیا نہیںچاہتا کہ سٹیٹس کو میں کوئی خلل پیدا ہو کیونکہ یہ اس
کے موافق ہے۔باوجود اس کے کہ مشرف کے اقدامات انڈیا اور کشمیر میں مقبول
ہوئے،انڈیا سے کوئی جواب نہیں آیا۔میں اس بات پہ متفق ہوا کہ انڈیا پاکستان
کے ساتھ تعلقات میں کسی تبدیلی کا خواہاں نہیں ہے۔انڈیا کا مقصد یہی نظر
آیا کہ زمین ہلے یا نہ ہلے، لیکن گل محمد نہیں ہلے گا۔وانی کے واقعہ سے
میری سوچ ہل کر رہ گئی۔انڈیا کے لئے مشکلات اتنی بڑھ گئیں کہ اجلاسوں میں
انڈین مزاکرات کاروں کے چہروں پہ گھبراہٹ واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔
وہ پریشان دکھائی دیتے تھے،مسٹر دولت نے کہا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ایسا ہوا
اور وہ ہمارے لئے اتنا برا ثابت نہیں ہوا۔اس صورتحال کو ٹیکٹیکل طریقے سے
ہینڈل کیا گیا۔اصل بریک تھرو کے لئے آپ کو بعض چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو
مشکل ہوتی ہیں،جس میں وقت لگتا ہے،کمپرومائیزز کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسا نہ
ہوا ،چناچہ ہمارے لئے بہتریہی تھا کہ صورتحال کو دیکھتے رہیں۔ ادتیہ سہنا
نے سوال کیا کہ انڈیا کی تقسیم سے پہلے کشمیری کام کے لئے کہاں جاتے
تھے،نقل مکانی بھی؟ان کے ثقافتی،تجارتی اور سیاسی رابطے کہاں تھے؟جدید
انڈیا کے ساتھ یا پاکستان کے ساتھ؟اسد درانی نے کہا کہ اعداد و شمار بھی
ایک جواب ہو سکتے ہیںبہت سے کشمیری مختلف اوقات میں کشمیر سے گئے،علامہ
اقبال،نواز شریف اور سلمان تاثیر یا اس کے والد اور دوسرے۔مرکزی راستہ
سرینگر مظفر آباد ہے،آج بھی یہ سڑک استعمال کے قابل ہے۔دولت نے کہا کہ میں
نہیں سمجھتا کہ یہ سوال کافی ہے۔جنرل صاحب درست ہیں کہ اکثر کشمیری جو
مختلف اوقات میں وادی سے گئے ،قدرتی طور پر ان کا رخ سیالکوٹ،اسلام آباد کی
طرف تھا۔تاہم میں اس بات کو متعلقہ نہیں سمجھتا۔اگر تاریخی طور پر دیکھا
جائے تو کشمیر ایران اور وسطی ایشیا اور پھر عرب کی طرف منسلک تھا۔اب
سرینگر میں امراء کی ایک نئی کلاس ہے جس طرح دہلی اور دوسرے شہروں میں
ہے۔جن کے پاس زیادہ پیسے ہیں ،اپر مڈل کلاس شاپنگ کے لئے دبئی جانا پسند
کرتے ہیں،حتی کہ سینٹری کا سامان بھی دبئی سے آتاہے۔یقینا کشمیری ترقی کرتے
انڈیا کا حصہ بننا چاہیں گے جو آئی ٹی انقلاب کا حصہ ہے۔اب بھی کشمیر انڈیا
کی ایک امیر ریاست ہے۔ سرینگر میں زیادہ بھکاری نظر نہیں آتے،اکثر کشمیریوں
کے پاس اپنا گھر ہے،وہ اچھا گوشت کھاتے ہیں،تاہم دیہاتی مٹن افورڈ نہ کرنے
کی وجہ سے بیف کھاتے ہیں۔اسد درانی نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کی کشمیر
میں فی کس سرمایہ کاری ملک میں سب سے زیادہ ہے۔کسی اور علاقے کو اتنی رقم
نہیں ملتی۔ایسا زمین پر نظر آتا ہے۔1990تک وہاں کا بنیادی ڈھانچہ باقی ملک
سے بہتر تھا۔کشمیری پاکستان کے کسی بھی علاقے سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کے
خواہاں ہیں،بچوں کا سکول جاناعام ہے۔ہو سکتا ہے کہ دوسری طرف کشمیری سوچتے
ہوں کہ ان کی اس طرح دیکھ بھال نہیں کی جاتی جیسے پاکستانی طرف(آزاد کشمیر)
میں ہے۔دولت نے کہاکہ میں ایسا نہیں سوچتا،آپ نے پی او کے(کتاب میں انڈیا
کے سرکاری موقف کے مطابق آزاد کشمیر کو پی او کے لکھا گیا ہے)کا ذکر
کیا،میں نے جان بوجھ کر اس کشمیر کی بات نہیں کی،میں اسے (آزاد کشمیر کو)
اچھی طرح نہیں جانتا،اس لئے اچھا ہے کہ خاموش رہوں۔لیکن مجھے معلوم ہے کہ
اس طرف بھی مسائل ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ اس طرف گھاس زیادہ سبز ہے،کیونکہ
مختلف موقعوں پر کشمیری مجھے بتا چکے ہیں۔انہیں وہاں جانے دیجئے،وہ
ناپسندیدگی سے فوری طور پر واپس آ جائیں گے۔ہمارے پاس ایسے کشمیری لڑکے ہیں
جو پاکستان سے واپس آ گئے،ان میں سے کچھ شادی شدہ تھے،بزنس شروع کر کے سیٹل
ہوگئے۔وہ ٹھیک ہیں۔تاہم چند نے ہی واپس آ نا پسند کیا ہے۔صلاح الدین جوان
نہیں ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ واپس آنا چاہتا ہواور گیلانی صاحب کے بعد ان
کی جگہ لے لے۔ان کے سیاسی ارادوں کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے۔اسد درانی نے کہا
کہ ٹریک ٹو یا رسمی اجلاسوں میں دونوں طرف کے کشمیریوں کو شامل کیاجانا
چاہئے۔وہ آپ کو بتاسکتے ہیں،دہلی تم شیطان ہو اور، اسلام آباد تم ہمارے
بہترین دوست نہیں ہو،ہمیں ان کے جذبات کو سننا چاہئے۔ورنہ آپ جن کشمیریوں
کا حوالہ دے رہے ہیں کہ ان کے پاس انڈیا کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے،
کہتے ہیں کہ ان کو دوسری طرف جا کر دیکھنے تو دیں۔دولت نے کہا کہ بہتر
تعلقات سے کشمیری خوش ہوں گے کیونکہ انڈیا پاکستان کشیدگی سے وہ زیادہ
متاثر ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ آپ کہہ
سکتے ہیں کہ کشمیر کلیدی،یا اہم یا پاکستان کا حل طلب ایجنڈا ہے لیکن بات
سٹیٹس کو سے آگے بڑہنے کی ہے۔اسددرانی نے کہا کہ انڈیا نے ماضی میں بس سروس
کی طرح کے علامتی عہد کئے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کا تصور ہے کہ اچھے اقدام سے
کشمیریوں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔اس سے کشمیریوں کے جذبات بیان کرنے کی
حوصلہ افزائی ہو گی،کشمیریوں کو تکنیکی طور پر ٹیکل کرنے سے کشمیر بہت
زیادہ بل چکے ہیں۔کشمیری پاکستان انڈیا کے'' پیچ اپ''پر کیا محسوس کریں
گے؟ان میں سے کچھ درست طور پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے
تعلقات بہتر ہونے سے پاکستان میں کشمیر کا مسئلہ پس پشت چلا جائے گا،ہم
تجارت کر رہے ہیںتو کیوں متنازعہ امور اٹھائیں؟اس سے ک کا لفظ سیاسی قیادت
کے لئے غیر متعلق بن جاتا ہے۔دولت نے کہا کہ یہ ہم نے کشمیریوں سے بھی سنا
ہے ۔ انڈیا کو کشمیر تب یاد آتا ہے کہ جب وہاں پرابلم ہوتی ہے،یہ میر واعظ
کے علاوہ دوسروں نے بھی کہا۔مجھے یقین ہے کہ اگر کشمیری خوش ہوں گے ،جو
پوزیشن آپ نے مہیا کی ہے ،اس میں کمی سے،تو امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ
ختم ہو جائے گا۔اگر کشمیری خوش ہوں گے تو انہیں پاکستان کے ساتھ جانے کی
کیا ضرورت ہو گی؟اس کو ضرورت ہو گی جب وہ مصیبت میں ہو گا۔اسد درانی نے کہا
کہ کشمیر میں بہتری کا یہ مطلب بھی ہے کہ پاکستان کا گریٹر اثرو
نفوذ۔جغرافیائی،تاریخی،مذہبی اور ساٹھ سال کے جبر اور دوسرے درجے کا برتائو
،حتی کہ آج بھی سیکورٹی فورسز وہاں ( کشمیرمیں) ہیں۔آپ کی طرف سے(کشمیر
میں) اچھی منیجمنٹ(انتظام) پر شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن مجھے کشمیری کے چہرے
پہ خوشی نظر نہیں آتی۔جن کے پاس پاسپورٹ ہیں ،جو باہر کا سفر کرتے ہیں،جو
روشن خیال ہیں،جنہیں ایسے مقامات(بنکاک)یا کہیں بھی جانے کی اجازت دی جاتی
ہے،وہ ٹھیک دکھائی دیتے ہیں لیکن موقع ملتے ہی کہتے ہیں کہ ہم ابھی بھی چیک
پوسٹ پہ ہیں۔پاکستان ان کے ساتھ آرام میں ہے۔اگر ایسا جاری رہتا ہے تو رد
عمل انڈیا کے مخالف ہو سکتا ہے۔انہیں(کشمیریوںکو) کچھ وقت کے لئے
فیس(سامنا) کریں۔پاکستان اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتا،پاکستان فیکٹر
(بھارت میں) کشمیریوں یا مسلمانوں کے لئے ہمیشہ اچھا نہیں ہو سکتا ۔دولت نے
کہا کہ باس(انڈیا ) سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں بہتری سے پاکستان کے اثر میں
اضافہ ہو گا۔کشمیری نقطہ نظر سے،انڈین نقطہ نظر اور امن کا نقطہ نظرکچھ پیش
رفت کی تحریک ضرور ہونی چاہئے۔
اسد درانی نے کہا کہ انڈیا،پاکستان ،کشمیر کے زمینی حقائق کے مطابق میرا
تجزئیہ ہے کہ ممکنات وغیرہ امیدوں،خواہشات کی بات نہیں کرتے۔وانی کے بعد جو
کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے،جب کشمیری لیڈر شپ،محبوبہ وغیرہ،خود کو بے مدد گار
پاتے ہیں،اور علامتی طور پر بھی اپنے لوگوں کے درد کا جواب نہیں دے سکتے،تب
آپ جنگ ہار چکے ہیں۔دولت نے کہا کہ اسی لئے کہتا ہوں کہ انڈیا اور پاکستان
کشمیر میں بہت کچھ کر سکتے ہیںجیسا کہ ہم افغانستان میں بھی کر سکتے ہیں۔ہم
کشمیریوں کو آپ سے بہتر جانتے ہیں ،وہ ہمارے ملک کا حصہ ہیں ،ہم ان کے ساتھ
روز ڈیل کرتے ہیں۔اسد درانی نے کہا کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تبدیل ہو
جائے گا تو کیسے؟دولت نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم لیکن اگر یہ تبدیل ہو گیا
تو اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم تبدیل کرنا چاہیں تو بہت کچھ تبدیل ہو سکتا
ہے۔دولت نے ایک کشمیری کے حوالے سے کہا کہ اس نے کہا کہ ٹریک ٹو میں مجھے
بھی ساتھ لے چلو،ہم تینوں فیصلہ کر سکتے ہیں۔سنہا نے سوال کیا کہ جنرل صاحب
کب سرینگر جا سکیں گے۔دولت نے جواب دیا کہ جب میں مری کا دورہ کر سکوں
گا۔اسد درانی نے کہا کہ آپ کے لئے مری جانا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔دولت
نے کہا کہ ایک بار میں نے ان سے کہا کہ میں مری جانا اور بیئر پینا چاہتا
ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں،میں آپ کو مری کی واٹکا اسلام آباد ہی لا
دوں گا۔
صلاح الدین اور امان اللہ سے ملاقات کے سوال کے جواب میں اسد درانی نے کہا
کہ بغاوت کے شروع میں ملاقات ہوئی تھی۔امان اللہ کا تھرڈ آپشن ،آزادی برا
نہیں تھا لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہیں تھا۔امان اللہ کے پاس ہم سے
ناراض ہونے کی وجہ تھی۔ہماری خواہش تھی کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق
ہو۔سردار قیوم کا نعرہ کشمیر بنے گا پاکستان،جماعت اسلامی،ان تینوں نے
ہماری سیاسی حمایت حاصل کی۔امان اللہ آئی ایس آئی کا یا پاکستان کا پسندیدہ
ترین نہ تھا۔میرا تجزئیہ تھا کہ اگر کشمیر آزاد ہوتا ہے تو انڈیا کو زیادہ
علاقے کھونا پڑیں گے۔اگر ساٹھ ،ستر سال کے بعد بھی کشمیری آزادی کی بات
کرتے ہیں تو ان کے جذبات کا احساس کیاجانا چاہئے۔اگر کشمیر آزاد ہو جائے تو
یقینا اس کے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات ہو ں گے اور وہ چین کے اثر سے باہر
ہو ں گے۔امان اللہ خان کو ہم نے صحیح طور ہینڈل نہیں کیا۔دولت نے کہا کہ
کشمیر کی آزادی پاکستان میں قابل قبول آپشن نہیں ہے۔درانی نے کہا کہ ہم نے
ہمیشہ کہا ہے کہ کشمیریوں کا دل ہمارے ساتھ ہے،چناچہ کشمیر آزاد ہو کر بھی
ہماری طرف آئے گا،مجھے کشمیر کی آزادی سے کوئی پرابلم نہیں ہے۔اسٹیبلشمنٹ
محتاط ہے ،کچھ بیوقوفی سے کہتے ہیں کہ کشمیر کا آزاد ہونا تباہ کن ہو
گا۔دولت نے کہا کہ کیا کشمیری قابل اعتماد ہے؟ کیا اس پر بھروسہ کیا جا
سکتا ہے؟ اسد درانی نے کہا کہ یہ برصغیر ہی نہیں عالمی طریقہ ہے کہ کسی پہ
بھروسہ نہ کرو۔پاکستان میں پنجابی کہتے ہیں کہ ہم سب سے زیادہ ہیں اور ہم
سب سے زیادہ برٹش اور مغل سلطنتوں کے وفادار رہے ہیں،تو انہیں سب سے زیادہ
وفادار کیوں سمجھا جائے؟ان میں سے کوئی نہیں سمجھتا کہ کشمیر کی آزادی بہتر
ہو سکتی ہے۔انہیں زیادہ فکر یہ ہے کہ منگلا ڈیم کا کیا بنے گا؟وہ دلیل دیتے
ہیں کہ ان کا پانی کسی اور ملک سے آ رہا ہوگا۔ایک سمجھدار کی طرف سے بدترین
دلیل کہ کشمیر آزاد ہو کر غیر ملکی حمایت حاصل کرے گااور ٹرپس،امریکہ
،جرمنی،جاپان سب وہاں ہوں گے۔وہ سب پیسے دیں
گے کیونکہ کشمیر جغرافیائی طور پر اہم ہے۔وہ افغانستان کی طرح کشمیر میں
اپنے بیسز قائم کریں گے،پاکستان اور انڈیا کا اثر کم ہو گااور طاقتور مغرب
کشمیر لے لے گا۔اسی لئے میں ٹریک ٹو میں کہتا ہوں کہ کشمیر کی آزادی کے
آپشن پر بات کریں،اگر کشمیر کے زیادہ لوگ آزاد رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اس
کی چوائس دیں۔دولت نے کہا کہ میں نے کشمیر کی آزادی پر یاسین ملک سے بات کی
تھی کیونکہ اس نے کہا کہ آپ سے کیا بات کریں ہم تو آزادی چاہتے ہیں۔میں نے
اسے کہا کہ اگر تم آزادی حاصل کر سکتے ہو تو میں تمہارے ساتھ کشمیری جھنڈا
لہرائوں گا۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔انڈیا کبھی
ایسی غلطی نہیں کر سکتا۔پاکستان بھی اس بارے نروس ہے اور یہ امان اللہ کے
معاملے سے واضح ہے۔یہ دلچسپ ہے کہ امان اللہ سمیت یہ انقلابی نیشنل کانفرنس
کا بیک گرائونڈ رکھتے ہیں۔امان اللہ گلگت سے تعلق رکھتا ہے،کچھ عرصہ کپواڑہ
میں رہا اور پھر باہر منتقل ہو گیا۔وادی میں وہ محاذ رائے شماری کا جنرل
سیکرٹری تھا،مرزا افضل بیگ کے ساتھ قریبی طور پر کام کیاجب شیخ عبداللہ
گرفتار تھا۔لبریشن فرنٹ کے لڑکوں کا اسی طرح کا بیک گرائونڈ
ہے۔1982میں،ضیاء کے دور میں جب وہ پاکستان آئے تو انہوں نے اپنی آئیڈیا
لوجی کم کر دی کیونکہ وہاں آزادی کا کوئی خریدار نہیں تھا۔وہ گھر بیٹھ
گئے،مارچ آرگنائیز کئے،اور جیسا کہ کشمیری کہتے ہیں کہ وہ انکل جی بن
گئے۔یہ ان کی کہانی کا افسوسناک اختتام ہے۔ان کی بیٹی بہت روشن ہیں ،ان کی
شادی سجاد لون سے ہوئی ہے۔اسد درانی نے کہا کہ پاکستان میں تھرڈ ؤپشن قابل
فروخت ہے۔آدتیہ سنہا نے کہا کہ امان اللہ خان کا داماد جموں و کشمیر حکومت
کا حصہ ہے۔اے ایس دولت نے کہا کہ وہ آدھا بی جے پی ہے۔جب تحریک شروع ہوئی
تو وہ پاکستان کے کنٹرول سے بھی نکل گئی،پاکستان نے فوری طور پر جماعت
اسلامی کا سامنے لایاکیونکہ پاکستان کو قابل اعتماد پیدل سپاہیوں کی ضرورت
تھی۔1989کے آخر میں کشمیر میں بحث ہوئی کہ آیا جماعت اسلامی کو اس میں شامل
ہونا چاہئے یا نہیں،گیلانی صاحب نے ان لڑکوں کو دہشت گرد کہا،تب انہیں
میٹنگ کے لئے کھٹمنڈو بلایا گیا اور چیزیں تبدیل ہو گئیں۔درانی نے کہا کہ
تحریک پر بہتر جماعتیں اپنا کنٹرول قائم کر لیتی ہیں۔دولت نے کہا بالکل
درست ہے۔میں2016میں سرینگر میں تھا،ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ صورتحال اچھی لگ
رہی ہے ،سیاح بھرپور آ رہے ہیں،ہوٹلوں میں کوئی کمرہ خالی نہیں ہے،تاہم
وہاں ایک سرگوشی تھی کہ دیکھتے ہیں کہ عید کے بعد کیا ہوتا ہے ،میں نے کہا
کہ کشمیر میں کچھ ہونے والا ہے اور وہ ہو گیا۔یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ
کشمیری کیا کریں گے کیونکہ وہ راتوں رات تبدیل ہو جاتے ہیںجیسا کہ برہان
وانی کے قتل سے ہوا۔لیکن ظاہری طور پر کشمیری بیمار اور تھکے ہوئے ہیں اور
امن چاہتے ہیں،پتھرائو ،یہ مظاہرے ختم ہو ہو سکتے ہیں۔یہاں سیکورٹی فورسز
کو کریڈٹ دینا چاہئے کہ انہوں نے2017میں اچھی ذمہ داری نبھائی۔ملی ٹینسی کے
بڑے ناموں کو ختم کیا،ملی ٹینٹس کو اٹھایا گیا یا مارا گیا یا وہ انڈر
گرائونڈ چلے گئے۔اب بھی عورتوں کے بال کاٹنے کی طرح کے عجیب واقعات ہو رہے
ہیں۔دہلی سے کشمیر کی صورتحال نارمل نظر آ سکتی ہے لیکن کشمیر میں چیزیں
ٹھیک نہیں ہیں۔اسی لئے خصوصی نمائندے کاملاقات میں خیر مقدم کیا گیا ۔ہم کم
از کم کشمیریوں سے بات تو کرتے تھے لیکن ہم نے ان سے بات کر نا بھی ختم کر
دیا( مودی کے دور میں)۔سنہا کے اس سوال کہ 2016کے واقعات کا پاکستان میں
کیا ردعمل ہوا؟ اسد درانی نے کہا کہ اس بارے میں وانی کے واقعہ کے بعد
پاکستان میں اتفاق رائے تھا کہ پاکستان کو مداخلت نہیں کرنا چاہئے اور نہ
ہی مداخلت کرتا نظر آئے۔تاہم اوڑی واقعہ اور نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کے
بعد ہمیں احساس ہوا کہ آرام سے بیٹھنا اور کچھ نہ کرنا ایک آپشن نہیں ہے،ہم
ناگزیر طور پر شامل ہو جائیں گے۔مجھے یقین ہے کہ اب فکر کی بات یہ ہے کہ
اگر2016کے واقعات دوبارہ رونما ہوتے ہیں جس میں دہلی کے ہاتھ میں سٹیرنگ
ہو،تو ہمیں کیا کرنا چاہئے۔دولت نے کہا کہ اگر علیحدگی پسند اور کشمیر کے
مین سٹریم اکٹھے آئیں تو کشمیریوں کے لئے اچھا ہو سکتا ہے کہ وہ اکٹھے بیٹھ
کر سوچیں۔لیکن یو پی کے الیکشن کے بعد انڈیا کی حکومت علیحدگی پسندوں اور
پاکستان سے بات نہیںکرنا چاہتی ۔حریت پاکستانی ٹیم ہے،انڈیا کی اپنی ایک
ٹیم ہے اور کشمیری درمیان میں ہیں۔اسد درانی نے کہا کہ جو کچھ بھی اچھا ہو
سکتا ہے وہ یہ ہے کہ کشمیر کو پل بنا لیا جائے،ہم دونوں کو لوگوں
(کشمیریوں)کو آرام مہیا کرنے پر توجہ دینا چاہئے۔دولت نے کہا کہ کشمیر کو
پل ہونا چاہئے،یہ شروع کرنے کا اچھا مقام ہے،میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر ہم
نے بات کرنی ہے تو چلیں کشمیر پر بات کریں،اگر آپ کشمیر پر مزید آگے آئیں
گے تو لازمی طور پر آپ آگے دہشت گردی (کے موضوع) کی طرف بڑہیں گے۔لیکن مجھے
ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔اہم بات یہ ہے کہ کشمیریوں کی ناک کو مزید زمین پر
نہ رگڑا جائے،انہیں شکست کا احساس نہ دلایا جائے جیسا کہ جب کشمیریوں نے
پتھرائو شروع کیا،اس وقت کیا گیا۔سیاچن پر بھی اس وقت تک کوئی پیش رفت نہیں
ہو سکتی جب تک کشمیر پر کوئی پیش رفت نہ ہو۔انڈین حکومت کے نامزد نمائندے
دنیش شرما کے بارے میں سنہا کے سوال کے جواب میں اسد درانی نے کہا کہ
اسٹیبلشمنٹ کا آدمی صورتحال کو بہتر بنانے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔وہ
کوئی ایسی تبدیلی نہیں کر سکتا کہ جس سے پاکستان حیران ہو جائے۔اب
انڈیا،امریکہ اور اسرائیل کا اتحاد کابل حکومت کے ساتھ ایک کھیل کھیل رہا
ہے۔ان کا ٹارگٹ پاکستان اور چین ہے اور سی پیک بھی ان کا ایک فوری اہم ہدف
ہے۔انڈیا نے امریکی عہدیدار ٹیلرسن کی آمد کے موقع پر کشمیر پر اپنے
نمائندے کا تقرر کیا ۔انڈیا امریکہ کو کہنا چاہتا تھا کہ وہ کشمیر کی فکر
نہ کریں،انہوں نے ایک قابل شخص کو مقرر کیا ہے۔ٹیلرسن نے کہا کہ
دیکھو،کشمیر مسلسل طور پر آج بھی ایک پرابلم ہے۔دولت نے کہا کہ میں نے جنرل
صاحب سے کہا کہ دنیش ورما کو چھ ماہ کا وقت دیں۔سنہا نے کہا کہ جنرل صاحب
نے اس پر کہا کہ اس طرح تو آئندہ دو سو سال بھی کشمیر کا مسئلہ اسی طرح رہے
گا۔اسددرانی نے کہا کہ نہیں نہیں میرا یہ نقطہ نہیں تھا،میر امطلب یہ تھا
کہ اگر ایسا غیر معینہ مدت تک ہوتا رہتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم
کشمیر(آزاد کشمیر) میں کچھ نہ کریں۔عمارات،سڑکیں ،انفراسٹریکچر ،وہاں مقامی
نمائندگی ہے،یہ میرا مطلب تھا۔سنہا نے کہا کہ یہ کتاب 2018کے موسم گرما میں
شائع ہو گی،تب آپ کشمیر کا کیا منظر نامہ دیکھتے ہیں؟دولت نے کہا کہ اس
بارے میں کہنا مشکل ہے،وہاں پاکستان فیکٹر ہے،اگر ہم کشمیر پر بات کرنا
شروع کر دیں ،کشمیریوں کو رعایت دیں تب وہ پاکستان کو بات کرنے کی اجازت
دیں گے،یہ ہوا ہے ماضی میں۔موسم گرما میںکیا ہو گا ،اس کا انحصار اس بات پہ
ہے کہ موسم سرما میں کیا ہوگا۔اسد درانی نے کہا کہ یہ معلوم کرنا کہ کیا
کرنے کی ضرورت ہے،کوئی راکٹ سائینس نہیں ہے۔کشمیر میں بغاوت شروع ہوئی تو
اس پر پہلا ری ایکشن کریک ڈائون تھا،فوج کے استعمال کے باوجود اگر صورتحال
بہتر نہیں ہوتی تو مزاکرات کی بات ہوتی ہے،لوگوں کی مشکلات کو مخاطب
کیاجاتا ہے۔لیکن جب صورتحال معمول پر آ جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اب کچھ
کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔دولت نے کہا کہ ہم بھول رہے ہیں کہ کشمیر ملٹری
پرابلم نہیں ہے۔کشمیر میں یہ ایک جذباتی معاملہ ہے۔انڈیا کو غیر ضروری
باتیں کر کے کشمیریوں کو اشتعال نہیں دلانا چاہئے،جیسا کہ آرمی چیف نے اپنی
نامزدگی کے بعد کہ ملٹری آپریشن جاری رہیں گے،سب جانتے ہیں کہ آرمی ایکشن
جاری رہیں گے لیکن ایسا کیوں کہا جاتا ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیش شرما کا
کوئی نتیجہ نہیں ہو گا۔اسی طرح اگر ہم کشمیریوں سے بات کرنے پر آمادہ ہیں
تو یہ سیٹ لائین ہے کہ ہمیں آئین کے اندر بات کرنا چاہئے۔پروفیسر بٹ نے مجھ
سے کہا کہ آئین سے باہر بات کر سکتے ہیں،انہوں نے کہا کہ آپ یہ باتیں کیوں
کرتے ہو،کشمیریوں کے زخموں پہ نمک چھڑکتے ہو،یہ کہنا چاہئے کہ ہم کھلے ذہن
سے بات کرنا چاہتے ہیں۔حریت نے ایڈوانی سے مزاکرات کے دو رائونڈ کئے ،حریت
کا پہلا مطالبہ قید افراد کی رہائی ہوتا ہے،ایڈوانی نے ان سے رہائی کے
مطالبے والے افراد کی لسٹ طلب کی اور کہا کہ اور آپ کیا چاہتے ہیں؟پروفیسر
بٹ نے کہا کہ ہم ایک روڈ میپ کے ساتھ واپس آئیں گے۔2004میں انہوں نے روڈ
میپ پیش کیا لیکن بی جے پی الیکشن ہار گئی،اگر بی جے پی الیکشن جیت بھی
جاتی تب بھی وہ روڈ میپ میز پر نہیں آنا تھا کیونکہ یہ دماغ میں تھا،سٹیٹس
کو کے قریب قریب،کہا جا سکتا ہے کہ اکاموڈیشن اور آبرو مندانہ امن کے بغیر۔
' لے لو جو تم لے سکتے ہو' کے عنوان میں اسد درانی کہتے ہیں کہ اس بارے میں
حقیقت پسند ہونا چاہئے کہ کشمیر کے حوالے سے دونوں ملکوں کا کیا دائو پر
لگا ہوا ہے،یہ متنازعہ مسئلہ ہے،ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل کرو،اس
کا حتمی حل تلاش کرو،ہمارے لئے یہ اہم ترین معاملہ ہے وغیرہ۔کشمیر کو دونوں
ملکوں کا فوکس بنانا اچھا حل ہے ،دونوں ملکوں کو کشمیر کوتنازعہ کے بجائے
تعاون بنانا چاہئے۔درانی نے کہا کہ آزادی کی طرف نہ دیکھو،370کی طرف نہ
دیکھو،ایل او سی کی طرف نہ دیکھو۔کشمیر میں تعاون کے پہلے قدم کے سنہا کے
سوال کے جواب میں اسد درانی نے کہا کہ لوگوں کو عوامی سطح پر ملنے دو ،آرام
سے آنے جانے دو ،کچھ تجارت،کشمیریوں کو بھی دہلی اور اسلام آباد کے رابطوں
میں شریک کرو۔جب لوگ آرام محسوس کریں گے تو ہو خود کہیں گے کہ ہم دونوں
ملکوں کے درمیان مرکزی اشو نہیں بننا چاہتے ،جو جنگ کی طرف جا سکتا ہے
وغیرہ،ہم جیسے ہیں ٹھیک ہیں،لیکن اپروچ ان ڈائریکٹ ہونی چاہئے،بجائے یہ
کہنے کے کہ ہم تقسیم چاہتے ہیںیا کشمیر کا مشترکہ انتظام یا کوئی اور
فارمولہ جس پر بات ہو،میری تجویز ان ڈائریکٹ یا اضافی اپروچ ہے،بس اور ٹریڈ
کی طرح کے چھوٹے اقدامات سے شروع کریں۔دولت نے کہا کہ اعتماد کی بحالی کے
اقدامات۔درانی نے کہا کہ شروع کر دیںبغیر یہ کہے کہ آخر میں تم کیا چاہتے
ہو۔تنازعہ کا حل ارتقائی عمل ہے اور ہر ایک کو ہمیشہ روائیتی دانائی یاد
رکھنی چاہئے کہ تم ہمیشہ وہ حاصل نہیں کرتے جو تم حاصل کرنا چاہتے ہو۔دولت
نے کہا کہ جب شیخ عبداللہ افضل بیگ کے ساتھ 1975میں اکارڈ میں گیا تو اس نے
ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو پاکستان بھیجا۔فاروق عبداللہ زیڈ اے بھٹو سے ملا
،بھٹو نے اس سے کہا کہ اس موقع پر ہم آپ کی مدد کے لئے کچھ نہیں کر
سکتے،چناچہ لے لو جو تم لے سکتے ہو۔اگر تمہیں کشمیر میں امن اور پاور کی
پیشکش ہو تو قبول کر لو۔یہاں ایک اور کہانی بھی ہے کہ یاسین ملک کو
امریکیوں نے مشورہ دیا کہ دہلی کے ساتھ بزنس کرو۔جب یاسین ملک نے کہا کہ
دہلی غیر معقول ہے تو اس امریکیوںنے کہا کہ تمہیں لے لینا چاہئے جو تم لے
سکتے ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ آخری انتظام نہیں ہے ،کچھ وقت کے لئے ہے ،اسے
پکڑ لو۔اسے سیمی فائنل یا کواٹر فائنل کہو اور کون جانتا ہے کہ کیا ہونے
والا ہے۔آپ کشمیر میں کچھ تبدیل نہیں کر سکتے ،جو وہاں ہے وہ وہاں ہے،جو
ہمارا ہے وہ ہمارا ہے،یہاں دکھاوے کا کوئی نقطہ نہیں ہے۔ہمیں لائین آف
کنٹرول پر طے کرنا ہو گا۔ایسا مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے،مشرف فارمولے کے
مطابق ایل او سی کو ''کاسمیٹیکلی ڈریس اپ'' کیا جائے تو دونوں طرف جیت
جائیں گے،کوئی نہیں ہارے گا،یہ وہ ہے جہاں آگے بڑہا جا سکتا ہے۔پاکستان
خوبصورتی سے بیٹھا ہے کہ کشمیر کی صورتحال اسے سوٹ کرتی ہے،دہلی سمجھتا ہے
کہ وہ ٹھیک ہیں،کشمیر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔کتاب میں آگے چل کر،ایک مقام
پر اے ایس دولت کہتے ہیں کہ میں اپنے پاکستانی دوستوں سے کہتا ہوں کہ کشمیر
یوں کے مصائب یا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کریں لیکن
اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی بات نہ کی جائے۔شملہ سمجھوتے میں کشمیر سمیت
ہر تنازعہ باہمی بات چیت سے حل کیا جائے گا،یہ بھی ایک وجہ ہے یو این میں
نہ جانے کی۔اس موقع پر سنہا نے کہا اہم بات یہ ہے کہ آپ بات نہیں کر رہے جس
سے یہ ہو رہا ہے۔ |