یا ایھاالّذین اٰمنو ا کتب علیکم الصیام کما کتب علی
الذین من قبلکم: اے ایمان والوں تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح
ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے، عجب نہیں کہ تم متقی بن
جاؤ ۔
مذکورہ بالاآیت سے پہلے پہل جہاں روزہ کی فرضیت کی آگاہی ہوتی ہیں وہیں اس
کا بھی ذکر کر دیا گیا کہ یہ کوئی نیافرمان نہیں ہے بلکہ ہم سے پیشتر مذاہب
وملل میں روزے کا تصور تھا،وہ بھی روزے کو تزکیۂ نفس کا ذریعہ مانتے تھے ،ساتھ
ہی ساتھ اس حکم کی بجاآوری کے مقاصدو فوائد بھی واضح کر دئے گئے کہ عجب
نہیں کہ تم متقی بن جاؤ ۔
ماہِ رمضان کا اسلامی مہینوں میں جو منفرد مقام اور عظمت وبرتری ہے وہ کسی
اور مہینے کو حاصل نہیں، مزید اس کی اہمیت وا فضیلت سے عوم الناس غیر آشنا
بھی نہیں، بوجہ ایں اس کی تمام خصوصیات سے قطع نظریہ مناسب معلوم پڑتا ہے
کہ ان مذاہب و ملل پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں جن میں روزے کا تصور ہے، خواہ
ان کے روزے کی حقیقت و ماہیت امت محمدیہ کے روزے سے مختلف و بر عکس ہواوراس
کا تعلق اس آیت سے بھی نہ ہو۔
ہندو،پارسی اور قدیم مصریوں میں روزہ کا تصور
دنیا کے جن قدیم ترین مذاہب و ادیان میں روزے کی حقیقت مسلم تھی یا ہے ،ان
مذاہب و ملل میں ہندوستان کے ہندو مذہب کا نام بھی انتہائی نمایا ں ہے ،جس
سے آج بھی ہندوستان کی ایک تہائی آبادی وابستہ ہے، ان کے نمائندے (T.M.MAHADEVAD)جو
مدراس یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ کے صدر بھی رہ چکے ہیں ،کے ہندو مذہب میں
روزہ کے سلسلہ کے اقوال کو مولاناعلی میاں ندویؒ نے اپنی شاہکار تصنیف
’’ارکان اربعہ‘‘ میں یو ں رقم کیاہے:
’’ان تہواروں میں جن کو سالانہ منایا جاتاہے، بعض تہوارروزے (برت)کے لئے
مخصوص ہے جو تزکیۂ نفس اور قلب کی نورانی کے لئے رکھا جاتا ہے ۔ہندو فرقہ
نے خاص دعا و مناجات اور عبادات کے لئے چند دن مقرر کر لئے ہیں جن میں وہ
روزہ رکھتے ہیں، اکل و شرب سے پرہیز و اجتناب کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں رات
رات بھر اپنی مذہبی کتابوں کی تلاوت میں شغول و مہنمک رہتے ہیں ،مراقبہ
کرتے ہیں ،ان میں سے سب سے مشہور و معروف تہوار جو ہندو تمام فرقوں میں
رائج ہے ’’ویکنتا ایکادشی‘‘ جووشنو کی جانب منسوب ہے، تاہم وشنو کے ماننے
والے نہ صرف بلکہ دوسرے بہت سے لوگ بھی اس زمانہ میں دنوں میں روزہ رکھتے
ہیں اور راتوں کو پوجا کرتے ہیں ۔‘‘
مولانا سیدسلیمان ندوی ؒ انسائیکلوپیڈیاکے حوالہ سے سیرۃ النبی حصہ پنجم
میں یوں رقمطراز ہے :
ٰٰٓٓٗٗقدیم مصریوں کے ہاں بھی روزہ دیگر مذہبی تہواروں کے شمول میں نظر آتا
ہے یونان میں صرف عورتیں’’ تھسموفریا‘‘ کی تیسری تاریخ کو روزے رکھتی تھیں
۔ پارسی مذہب میں گوعام پیروؤں پر روزہ فرض نہیں لیکن ان کی الہامی کتاب کی
ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے کا حکم ان کے یہاں موجود تھا ، خصوصاً
مذہبی پیشواؤں کے لئے تو پنج سالہ روزہ ضروری تھا ۔‘‘(سیرت النبی جلد۵،صفحہ
۲۱۲)
ہر ہندی مہینے کی گیارہ بارہ تاریخ کو برہمنوں پر اکاوشی کا روزہ ہے، اعداد
و شمار کے لحاظ سے ان پر سالانہ چوبیس روزے ہوتے ہیں، بعض برہمن کاتک کے
مہینے کے ہر دو شنبہ کو روزہ رکھتے ہیں ،ہندوستان کے تمام ہندو مذاہب میں
روزے کے سخت شرائط’’ جینی ‘‘کے یہاں ہیں کہ چالیس چالیس دنوں کا ایک روزہ
ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ گجرات و دکن کے جینی ہر سال کئی کئی ہفتوں کا روزہ
رکھتے ہیں۔ ہاں یہ واضح ہوکہ ہمارے روزوں سے ان کے روزے بالکل برعکس و
مختلف ہوتے ہیں کہ اکل و شرب کے معاملہ میں بھی وہ چند چیزوں سے اجتناب
کرتے ہیں ۔(سیرت النبی جلد نمبر ۵: صفحہ نمبر ۱۴۹)
یہود کے یہاں روزے
جہانتک یہودی مذہب میں روزہ کا تعلق ہے تو ان کے یہاں بھی یہ فریضۂ الہی ہے
،حضرت موسیٰ ؑ کوہِ طور پر چالیس روز بھوکے پیاسے رہے ، چنانچہ بالعموم ان
کی پیروی میں چالیس دن یہودی مذہب میں روزہ رکھنا نہایت عظیم الشان عمل ہے
۔جو ان کے ساتویں مہینہ ’’تشرین ‘‘کی دسویں تاریخ کو پڑتا ہے ،اسی لئے وہ
عاشوراء (دسواں)کے نام سے موسوم ہے ، یہی وہ عاشورہ ہے جس دن حضرت موسیؑ کو
تورات کے دس احکامات عنایت ہوئے ۔ اس کے علاوہ یہودی صحیفوں میں دوسرے دیگر
روزوں کے احکام بتصریح مذکورہیں۔(سیرت النبی)
بہت سے ایسے روزے ہیں جس کی فرضیت یہودی عالموں کی صواب ودید پر موقوف ہے
کہ وہ قحط سالی ،کسی خطرہ ومصیبت ،یا حکومت کے ظالمانہ وجابرانہ قوانین اور
مختلف آفات وبلیات سے تحفظ کے پیش ِ نظر حکم صادر فرماتے ہیں ۔
ان کے روزہ کے اوقات بھی عجب جداگانہ ہے کہ اشراق کے وقت سے شروع ہوکر رات
کے پہلے تارہ کے طلوع تک جاری رہتا ہے ، کچھ روزے اس وقت سے استثناء ہے جو
شام سے شام تک جاری رہتا ہے ،وہ ہیں مئی کے روزے ۔بحالت ِصوم صدقہ وخیرات
میں سبقت کو انتہائی قابل قدر عمل بتلایا گیا ہے اسی طرح غرباء کو کھلانا
بھی۔ان کے بہت سے روزے ایسے بھی ہیں جن میں صرف گوشت خوری اورشراب نوشی
مبغوض عمل ہے ۔(ارکان اربعہ:۳۸،۱۳۷)
عیسائیوں کے یہاں روزے
حضرت عیسی نے کسی جنگل میں چالیس روزے رکھے تھے ،حضرت یحیٰ ؑ جو ان کے گویا
پیشرو تھے ،وہ بھی روزہ رکھتے تھے ،ان کی امتی بھی روزہ دار تھی،جیساکہ
مذکور ہواہے کہ یہود یوں نے مختلف زمانوں میں مختلف روزے بڑھالئے تھے ،وہ
بھی ان میں سے بیشتر غم کے تھے ،وہ غم کے پیشِ نظر اپنی شکل وشباہت سے حزن
وملال اور غم واندوہ کے اثرارت نمایاں کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ نے اپنے
حواریوں سے ایسے روزوں سے منع فرمایا ۔
جب تم روزے رکھوں تو اپنی شکل وشباہت اس طرح نہ بنا لو کہ مغمول و ملول اور
حیران و پریشان نظر آؤ ۔ بلکہ روزہ جیسے اہم فریضہ میں سر گرم رہو تو سر
میں تیل لگاؤ، صاف صفائی کا خاص خیال رکھو، منہ دھوؤ اورہشاش وبشاش نظر آؤ،
یہ صرف نہ کہ یہودیوں کی طرح مرجھائے مرجھائے چہرے لئے بھرو تاکہ لوگوں کو
یہ خیال ہو کہ تم واقعی روزے سے ہو ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکے حواریوں نے ان سے خاص انداز میں سوال
کیا : ہم پلید روحوں کو کس طرح اپنے جسموں سے ختم کریں ؟ کیا وہ طریقہ ہے
کہ ہمارے قلوب وا ذہان میں ایک تازگی ہو،، انھوں نے جوب دیا کہ دعا و
مناجات اور روزہ اس کیلئے سب سے اہم ذریعہ ہے ۔
اس مذہب میں حضرت عیسیٰ کے بعد روز میں بہت سی کارستانیاں ہوتی رہیں کہ
روزے بھی مختلف النوع کے ہو گئے ،کوئی روزہ ایک دن کا ہوتا تھا تو کوئی دو
دن کا، کوئی چالیس گھنٹہ کا ہوتاتھا ۔’’ایرنیس‘‘ کا روزہ کے متعلق یہ بیان
ہے بالکل اس کے ہی مصداق ہے کہ: روزے مختلف طریقے کے ہوتے ہیں ۔کوئی ایک دن
کا توکوئی دو دن کا کوئی چالیس گھنٹے کا ،اسی طرح ’’ دکھوں اور صلیب کے
جمعہ ‘‘کا روزہ بھی ان میں بہت اہم تھا، بالکل یہی حال وہاں بھی تھا کہ
بپتسمہ کے خواہشمند کے لئے چند روزے کی ادائیگی ضروری تھی (ارکان
اربعہ:۲۴۰)
یہی وجہ ہے کہ قرآن کا فرمان یوں ہے :یایھاالذین اٰمنو ا کتب علیکم الصیام
کما کتب علی الذین من قبلکم ۔
قدیم ان مذاہب پر جن کے یہاں روزہ نام کا ذکر ہے ، طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ
حقیقت واشگاف ہوگئی کہ فی الواقع ان کے یہاں روزہ ہے پر بہت سے روزے ایسے
ہیں جو ان کے عالموں کی صواب دید پر موقوف ہے ، اسی طرح ان کے یہاں حدود و
قیود ہے اور نہ تعین وقت، روزہ داروں کو بھی یہ حق بہم پہنچتا ہے کہ وہ
یکسر اکل وشرب موقوف کر دے یا تقلیل غذا پر قناعت کرے ،بعض نے تو صرف ان
مختلف کھانوں کو روزوں کے منافی سمجھا جو آگ پر پکائے جائیں تو بعض نے گوشت
اور شراب کو منافیٔ صوم تصور کیا، یہ وہ باتیں تھیں جس سے روزے کے فوائد کا
حصول تو کجا روزے کی حقیقت ہی ختم ہو گئی ۔تا ہم شریعت محمدیہ کے یہاں جو
روزے ہیں ان میں وقت کی تعین ہے مدت کی بھی حدود و قیود بھی اور افراط و
تفریط سے دوری بھی ، گویا یہی وہ روزہ ہے جو جامع کمال ہے ۔
روزے کی ابتداء
روزے میں بہت سی دینی اور دنیاوی حکمتیں اور مصلحتیں پنہاں ہیں اس سے قطع
نظر جس ماحول اور نزاکت وقت کو ملخوظِ نظر رکھ کر روزے کی فرضیت کا حکم
بذریعہ قرآن دیا گیا وہ بھی ایک حکیمانہ حکم ہے۔ روزہ۲ھ میں امت محمدیہ
فرض ہوئے ،وہ بھی ایسے وقت میں جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ آگئے، سختیوں کے
بادل چھٹ گئے ، عسرت و تنگی کا دور ختم ہونے لگا۔ عیش و عشرت اور خوشحالی
کی زندگی بسر کرنے لگے ،ان کی رگ و پے میں عقیدۂ توحید راسخ و جامد ہوگیا ۔
شاید بلکہ اغلب ایسامعلوم پڑتا ہے کہ اگر مکہ کے افلاس و تنگدستی کی زندگی
میں روزوں کا حکم ہوتا ہے تو قدرے یہ حکم ان پر گراں بار ہوتا، ان مسلمانوں
کے دلوں میں عجیب و غریب خیالات اٹھتے اور شکوک و شبہات کی داغ و بیل پڑتی
کہ عسرت و تنگی کو روزہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
روزے کے لئے مہینہ کی تعین
شھر رمضان الذی فیہ القرآن : رمضان وہ مہینہ ہے جسمیں قرآن کا نزول ہوا ۔
ماہ رمضان کی منفرد یہ خصوصیت ہے کہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا،
جس کی وجہ سے نہایت مقدس و متبرک ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ روزے کی فرضیت
۲ھ میں ہوئی ہے اور ماہِ رمضان اس کی فرضیت سے قبل ہی عظیم الشان تھا۔
روزہ اور رمضان میں اس حد تک کوئی ہم آہنگی نہیں ہے، کیوں کہ سلسلۂ نزول
قرآن مکہ سے ہی جاری تھا ۔ مگر مشیت تکوینی اور حکمت الٰہی نے اس محترم و
مقدس مہینہ رمضان کو نزول کے علاوہ روزے بھی دئے جس سے روزے اور رمضان لازم
و ملزم ہوگئے ،اس آہنگی نے مزید رمضان کو خاص اہمیت کا حا مل بنا دیا جو
شاید کسی اور اسلامی مہینے کو حاصل نہیں ،بعض حضرات رمضان و روزہ کی وجہ
تسمیہ اس پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ در اصل’’رمضان‘‘ رمض سے مشتق ہے ۔ جس
کے’ معنی گرمی کی جلن‘ ہے۔ روزے میں شدتِ پیاس ہوتی ہے، حلق سوکھتاہے
،اسلئے یہی وجہ تسمیہ ہے ۔اس علت کو وجہ تسمیہ معنی کی صورت میں یہ مسئلہ
آڑے ہوتا ہے کہ قرآن کے نزول اور روزے کی فرضیت سے قبل مہینوں کے نام موسوم
ہوچکے تھے۔ یہی وجہ تو ہے کہ اﷲ کے رسولﷺ کی پیدائش میں گو تاریخی اختلاف
تو ہے مگر مہینے کا اختلاف نہیں ۔’روزے کی فرضیت رمضان میں ‘دراصل اس کی
وجہ رمضان کی معنویت و خصوصیت میں مزید اضافہ ہے ۔ بوجہ ایں روزے کے باعث
رمضان کی وجہ تسمیہ’’رمضان‘‘ بیان کرنا ناقابلِ التفات ہے۔ بلکہ رمضان ،
قرآن اور روزے کو یکجہ کرکے یوں کہئے کہ رمضان موسم بہار ہے ، اس موسم بہار
میں جس کھیتی کو سب سے زیادہ سر سبز و شادابی حاصل ہوتی ہے ،وہ ہے تقویٰ۔
جس سے اس کھیتی کی سینچائی ہوتی ہے وہ ہے روزہ او ر قرآن ۔ اس لئے مسلمان
اس کے لئے سزاوار ہیں کہ ماہِ رمضان کے سایہ فگن ہوتے ہی اس کے موسم بہار
سے خوب خوب لطف اندوز ہوں ۔ اس سے لطف اندوزی کے اہم ترین ذرائع ہیں روزہ
اور قرآن ۔ |