وَقُل لِّلْمُؤْمِنَـٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَـٰرِهِنَّ
وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ
مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا
يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ
ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ
أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ
أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّـٰبِعِينَ
غَيْرِ أُولِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ
لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ
لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓاإِلَى ٱللَّهِ
جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٣١﴾...سورۃ
النور
''اے نبیؐ! آپ مؤمن عورتوں سے کہیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اپنے
ستر کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے خود
بخود ظاہر ہوجائے او راپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہیں ۔ اور اپنی زینت
کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے، یا اپنے باپ کے، یا اپنے سسر کے،
یا اپنے بیٹوں کے، یا اپنے شوہر کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یااپنے
بھائیوں کے بیٹوں کے، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا
اپنے لونڈی غلام کے، یا زیردست مردوں کے جو کچھ غرض نہیں رکھتے، یا ایسے
لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے ابھی ناواقف ہوں ۔ اس کے علاوہ وہ
اپنے پاؤں زور سے نہ ماریں کہ ان کی مخفی زینت معلوم ہوجائے اور اے ایمان
والو! تم سب مل کر اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔''
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ
وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ
وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ
وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ
كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا
عَظِيمًا ( 35 ) احزاب - الآية 35
(جو لوگ خدا کے آگے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی) مسلمان مرد اور مسلمان
عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار
عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور
صبر کرنے والی عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی
عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے
رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے
والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کے لئے خدا
نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ
الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَٰلِكَ
أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا
رَّحِيمًا ( 59 ) احزاب - الآية 59
اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ
(باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا
کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ
دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
عورت حیا اور ﺫمہ داری کا مجسم ھے کائنات میں اللہ تعالی نے عورت کو وہ
پھول بنا کر پیدا فرمایا کہ ساری کائنات مہکتی ھے جس کے بغیر زندگی کا تصور
ممکن ہی نہیں عورت کو معاشرے میں شجرسایہ دار کی حیثیت حاصل ھے کیونکہ اس
کے ساۓ تلے نسلیں پروان چڑھتی ہیں
اسلام نے عورت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کے ساتھ اسکا مقام و مرتبہ ناصرف
بیان کیا بلکہ سر بلند کیا اور اسکی قدر و منزلت بھی بڑھائی ھے ۔ اسے ایک
قابل احترام شخصیت قرار دیا گیااور اسکے حقوق متعین کۓ گۓ ہیں اور اسکے
فرائیض و واجبات طے کۓ گۓ ہیں ۔ اسلام سے قبل عورت کی حیقیت و شناخت بس
ایک حقیر شے کی مانند تصور کی جاتی تھی مگر میرے آقا حضورؐ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اسے مردوں کے قدموں سے اُٹھا کر اُس کے پہلو میں بٹھایا بلکہ جنت
کو اسکے قدموں تلے رکھا دیااسلام میں عورت کو مرد کی ھم جنس ھم نسل قرار
دیا ہے کہ وہ دونوں ایک ہی اصل سے پیدا کۓ گۓ ہیں تاکہ دونوں اس دنیا میں
ایک دوسرے سے انس و محبت پائییں اور خیر و صلاح کے ساتھ سعادت و خوشی سے
سرفراز ھوں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم
کا ارشاد گرامی ہے کہ
{ عورتیں مردوں کی ھم جنس و ھم نسل ہیں)
( مسند احمد ۔ صحیح الجامع = 1983 )
سرور کائنات، فخر موجودات، محسن انسانیت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جس روز
دین کا پیغام لے کر دنیا میں تشریف لائے، اس روز ، دنیا کے اندر نئی روشنی
کا ظہور ہوا۔ اس نئی شمع کی برکت سے انسان کو وہ عقیدہ اور شعور عطا ہوا جو
سرا سر مکارم اخلاق اور فضائل و محاسن کا مجموعہ ہے اور عورت جو کہ انسانی
معاشرے میں انتہائی پستی کے مقام پر گر چکی تھی عزت و تکریم کے اعلی مراتب
سے ہمکنار کیا ۔
حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ آپؐ پردہ والی کنواری لڑکیوں سے بھی
زیادہ باحیا تھے۔جب کوئی بات ایسی دیکھتے جو آپؐ کو ناگوار گزرتی تو ہم
لوگوں کو آپؐ کے چہرے سے معلوم ہو جاتا۔‘‘ صحیح بخاری، جلد سوم، حدیث نمبر
1055۔ چونکہ اسلام دین فطرت ہے اللہ تعالیٰ اور رسول کریمؐ کے ارشادات اور
احکامات پر عمل پیرا ہونا ہی دین اسلام ہے جو مومنین اور مومنات کو حجاب
یعنی پردے کے حوالے سے سختی کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کا حکم دیتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لئے
لباس پیدا کیاجو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی
ہے(۱) اور تقویٰ کا لباس (۲) یہ اس سے بڑھ کر (۳) یہ اللہ تعالیٰ کی
نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں
۔حواکی بیٹی، گلاب کی ایک شگفتہ کلی اور شفاف پانی کا ایک چشمہ ہے ۔عورت کا
دنیا میں پہلا رُوپ ہی رحمت ہے جو بیٹی بن کر سب خاندان کے دلوں پر راج
کرتی ہے ، بہن بن کر بھائی کی سچی اور مخلص دوست اور ماں کا بازو بن جاتی
ہے ۔ بیوی ہوتی ہے تو ایک پختہ اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والی، اورجب وہ ماں
بنتی ہے تو اللہ تعالی اُسکا رتبہ اتنا بلند کر دیتا کہ جنت کو اٹھا کر اس
کے قدموں میں ڈال دیتا ہے
اسلام نے عورت کو ہر حیثیت ، چاہے وہ ماں ہو ، یا بیٹی ، بہن ہو ، یا شریک
حیات، انتہائی تکریم و اعزاز کا مستحق گردانا ہے۔ شرف انسانیت میں مرد و
عورت کی تفریق روا نہیں رکھی گئی۔
عالم انسانیت کے محسن اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ظالم مرد سے پکار
کر فرمایا کہ عورت اس لئے نہیں ہے کہ اسے حقارت سے ٹھکرا کر قعر مذلت میں
دھکیل دیا جائے۔
خواتین کو مستورات بھی کہا جاتا ہے اور مستور کا مطلب ہے چھپا ہوا، عورت کے
پردہ کے حوالہ سے ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ’’حضرت عبداللہؓ سے روایت
ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے کیوں کہ جب وہ
باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے بہکانے کے لئے موقع تلاش کرتا ہے‘‘ جامع
ترمذی،جلد نمبر اول ، حدیث نمبر 1181۔ عورت کے پر دہ کو اس قدر اہمیت دی
گئی ہے کہ اس کے لئے عبادت بھی پردہ کے بغیر اور بے پردہ جگہ پر کرنا منع
فرمایا گیا ہے۔ ’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے
فرمایا کہ عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر
ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘
سنن ابو دائود، جلد نمبر اول، حدیث نمبر 567۔ یعنی عورت جس قدر بھی پردہ
کرے گی اسی قدر بہتر ہے، صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز
پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی
ہوئی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے۔
محسن انسانیت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس کے ہاں لڑکیاں
پیدا ہوں ، وہ اچھی طرح ان کی پرورش کرے، تو یہی لڑکیاں اس کے لئے دوزخ میں
آڑ بن جائیں گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کی حیثیت کو بہتر
بنانے کے لئے مردوں کو بار بار تاکید فرمائی ، کہ وہ عورتوں سے بہتر سلوک
کریں ۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا۔ بہترین مسلمان،
بہترین صاحب اخلاق اور اپنی بیویوں کے بہترین خاوند ہوتے ہیں تم میں سے
بہتر وہ ہے ، جو اپنی بیویوں سے بہترین سلوک روا رکھے اور تم میں سے میں
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عورتوں سے بہترین سلوک روا رکھتا ہوں۔ دنیا
کی بہترین نعمتوں میں سے بہترین نعمت نیک بیوی ہے ۔
بیٹے کو فرمایا۔ تیری ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔
اسلام نے صرف فکری اور نظری اعتبار سے ہی عورت کا مقام و مرتبہ بلند نہیں
کیا بلکہ قانون کے ذریعے سے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی اور مردوں کے ظلم
کی روک تھام کا موثر انتظام کر دیا۔
جہاں شرع نے مرد کو ناگزیر حالت کی بناء پر طلاق دینے کا اختیار سونپ رکھا
ہے۔ وہاں عورتوں کو بھی کسی معقول وجہ کے باعث مرد سے طلاق لینے کا اختیار
دلایا ہے اور اس طرح فریقین کو ایک مکمل مساوات پر لاکھڑا کیا۔ اسلام نے
عورت کو تحصیل علم میں مرد کے برابر اجازت دی۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں
حصہ دار بنایا۔ اسلام سے پہلے عورت کی گواہی کبھی بھی معتبرنہ تھی۔ اسلام
نے اس کی گواہی کو معتبر کیا اور عورت کی عصمت کو حدود اللہ میں شمار کیا
اس کے خلاف جرم کو معاشرے کے خلاف سمجھا گیا۔ محض انفرادی مجرم نہیں بنایا
گیا اس اعتبار سے آج تک دنیا کی کوئی ترقی یافتہ قوم اسلام کی گرد بھی نہ
پا سکی۔ اسلام نے عورت کو اظہار خیال کی آزادی دی ۔
اسلام سے قبل عورت معاشرے کی نظر میں ایک ﺫلیل جانور سے بھی کمتر خیال کی
جاتی تھی.جہاں مال وراثت میں کوئی حصہ نہ تھا.جہالت کی انتہا کہ بیوہ عورت
پر شوہر کا کوئی بھی رشتہ دار چادر ﮈال دیتا تھاعورت خوش ھو یا نا خوش چادر
ﮈالنے والا بیوی بنا کر گھر لے جاتا تھایہاں تک کہ سوتیلے بیٹے بھی سوتیلی
ماؤں پر قابض ھو جاتے تھے اور شریف گھرانوں میں زندہ جلانا ہی شرافت سمجھا
جاتا تھاجس دور میں عیسائیوں کے نزدیک عورت روح ہی نہیں رکھتی اور رومیوں
نے جانور کا درجہ دیا ھو اور قدیم یونان میں تو عورت کو شیطان اورکی بیٹی
اور نجاست تصور کیا جاتا ھو ان حالات میں اللہ پاک نے کائنات کو اپنی رحمت
سے اس تاریکی سے نکلا اور اسلام کو بطور دین انسانوں کی راہنمائی کے لیے
پسند فرما کر
حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا محبوب بنا کر دنیا مین مبہوث
فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جینے کا حق دیا۔ عورتوں کے تحفظ
کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیمات دی اسکی مثال دنیا کی پوری تاریخ
میں نہیں ملتی۔
محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام میں عورت کو وہ درجہ دیا جو
آج کے جدید مغربی معاشرے میں بھی اسے حاصل نہیں۔
فرمان نبوی ہے کہ اگر ایک عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے،
اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے، تو اللہ تعالی اس عورت
کوحکم دے گا کہ جنت میں داخل ہو جا، جس دروازے سے بھی چاہو۔
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے پاس تھی اور آپؐ کے پاس
حضرت میمونہؓ بھی تھیں۔ سامنے سے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (جو نابینا تھے)
تشریف لائے اور یہ واقعہ پردہ کا حکم دیئے جانے سے بعد کا ہے، حضور اکرمؐ
نے فرمایا کہ ان سے تم دونوں پردہ کرو، ہم نے عرض کیا یارسول اللہؐ کیا یہ
نابینا نہیںہیں؟حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو انہیں
نہیں دیکھتی ہو‘‘ سنن ابو دائود، جلد نمبر سوم، حدیث نمبر 720۔ تو اس حدیث
سے ثابت ہے کہ خواتین کو بھی مردوں سے پردہ کرنا چاہئے اور نگاہ نہیں ڈالنی
چاہئے چاہے وہ مرد بصارت سے محروم ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام میں کسی کے گھر
بلااجازت نگاہ ڈالنے کی اجازت نہیں، اس سلسلہ میں مذکورہ حدیث شریف میں
بیان ہے ’’حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جس نے
اجازت ملنے سے پہلے پردہ اٹھا کر کسی کے گھر میں نظر ڈالی گویا کہ اس نے
گھر کی چھپی ہوئی چیز دیکھ لی اور اس نے ایسا کام کیا جو اس کے لئے حلال
نہیں تھا ۔ پھر اگر اندر جھانکتے وقت کوئی اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا تو میں
اس پر کچھ نہ کہتا ( یعنی بدلہ نہ دلاتا) اور اگر کوئی شخص کسی ایسے دروازے
کے سامنے سے گزرا جس پر پردہ نہیں تھا اور وہ بند بھی نہیں تھا پھر اس کی
گھر والوں پر نظر پڑ گئی تو اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں بلکہ گھر والوں کی
غلطی ہے‘‘ جامع تر مذی، جلد دوم، حدیث نمبر 618، حضرت جریر بن عبداللہ
الحجلی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرمؐ سے دریافت کیا کہ اگر اچانک
کسی غیر محرم عورت پر نظر پڑ جائے تو اس کا کیا حکم ہے تو نبی کریمؐ نے
فرمایا… اپنی نظر کو پھیر لو، اچانک اگر کسی نامحرم عورت پر نظر پڑ جائے تو
وہ معاف ہے لیکن اگر دوبارہ جان بوجھ کر اس کی طرف دیکھے گا تو گنہگار ہو
گا۔
بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ اور
مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا زمانہ قرار دیتے ہیں، لہٰذا
ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک
افسانہ شمار کرتے ھیں۔
آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارھی ھیں اتنا
ھی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارھی ھے۔
عصرِحاضر میں لا دینیت کے متلاطم سیلاب میں نیم برہنگی ، بے پردگی اور
عریانیت کی بڑھتی ہو ئی وباء نے ہمارے پورے سماج و کلچرکو فاسد بنا کر رکھ
دیا ہے! لہذا اگر اس مہلک بیماری کا مُعالجہ نہ کیا گیا تو آئندہ ہم ،
ہمارا پورا معاشرہ ،ہمارا گھرا ور ہمارا خاندان بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا
ہے !
پردہ (حجاب ):عورتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے عورت کے وقار میں اضافہ کرتا ہے
۔
دولت اس کی حیاء و عفت ہے ۔
حُسن اس کی عفت و پاکدامنی ہے ۔
اسلام نے حجاب کو عورت کے لئے لازم قرار دیا ہے؟!
اس لئے کہ عورت مبارک ہے کیونکہ برکتیں اس کے دم سے ہیں ۔
عورت :آسمانی نور ہے جس کی وجہ سے کائنات روشن ہے ۔
پردہ (حجاب ):نہ ہی عورتوں کی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے اور نہ ہی انہیں گھر
کی چار دیواریوں میں مقید بلکہ اس کی عصمت و پاکدامنی کی محافظت کے ساتھ
ساتھ اسے تکامل بخشتا ہے
قل للمؤ منین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکیٰ لھم ط ان اللّٰہ
خبیر م بما یصنعون ۔ وقل للمؤمنٰت یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولا
یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا ولیضربن بخمر ھن علیٰ جیوبھن ولا یبدین
زینتھن الا لبعولتھن او اٰبائھن او اٰبائبعولتھن او ابنآئھن او ابنآء
بولتھن او اخوٰانھن او بنی اخوانھن او بنی اخوٰا تھن او نسآء ھن او ما ملکت
ایمانھن او لتٰبعین غیر اولی الاربۃمن الرجال او الطفل الذین لم یظھر
واعلیٰ عورت النسا ٓء ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن ط
وتوبواالی اللّٰہ جمیعاًایہ المؤمنون لعلکم تفلحون۔‘‘
’’اے نبی مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں
کی حفاظت کریں ،یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، جو کچھ وہ کرتے ہیں اﷲ
اس سے با خبر رہتا ہے ۔ او راے نبی ﷺ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں
بچا کر رکھیں ، اور اپنی شرمگاہو ں کی حفاظت کریں او ر اپنا بناؤ سنگھار نہ
دکھا ئیں ۔ بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جا ئے اور اپنے سینوں پر اپنی
اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں اور اپنا بناؤ سنگھا ر ظاہر نہ کریں مگر ان
لوگوں کے سامنے شوہر ، باپ ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے ، شوہروں کے بیٹے ،
بھائی اور بھائیوں کے بیٹے اور بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں ،
اپنے مملوک (غلام )وہ زبر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور
وہ بچے جو عورتوں کی پو شیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ،وہ اپنے پاؤں
زمین پر مارتی ہو ئی نہ چلا کر یں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہو اس
کا لوگوں کو علم نہ ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اﷲ سے توبہ کرو توقع ہے
کہ فلاح پاؤ گے ۔
تفسیر :۔ ’’غیض وبصر‘‘یعنی نگاہوں کو بچا کر رکھنا اور نیچی رکھنے کا حکم
تو مرد اور عورت دو نوں کیلئے ہے ۔لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت
عورت کے مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں ۔حدیث میں
ہمیں یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا او ر حضرت میمونہ رضی
اﷲ عنہانبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آگئے ۔
نبی کریم ﷺ نے دونوں بیویوں کو فرمایا !’’احتجبامنہ ‘‘’’ان سے پردہ کرو
۔‘‘بیویوں نے عرض کیا یارسو ل اﷲ : ’’الیس اعمیٰ لا یبصرنا ولا یعرفنا
‘‘’’یا رسول اﷲ کیا یہ اندھے نہیں ہیں ، نہ ہمیں دیکھیں گے اور نہ پہچانیں
گے۔‘‘فرمایا!’’افعمیا وان انتما ،الستما تبصرانہ۔‘‘’’کیا تم دونوں بھی
اندھی ہو ، کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں۔‘‘حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا تصریح
کرتی ہیں کہ ذلک بعد ان امر بالحجاب ، یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پر دے کا
حکم آچکا تھا ۔(احمد ، ابو داؤد،ترمذی )
اور اس کی تائید ’’مؤطا ‘‘کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا
کے پاس ایک نابینا آدمی آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا ،کہا گیا کہ آپ اس
سے پردہ کیوں کرتی ہیں یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا جواب میں ام المؤمنین نے
فرمایا !’’الکنی انظر الیہ‘‘میں تو اسے دیکھ سکتی ہو ں ۔ ان احکام قرآنی کے
نزول اور قرآن کی روح کے مطابق نبیﷺ نے اسلامی معاشرے میں تعلیمات رائج
فرمائیں۔
(1) آپ نے محترم رشتہ داروں کی غیر موجود گی میں دوسرے لوگوں کو خواہ وہ
رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ں کسی عورت سے تنہا ملنے اور اس کے پاس تنہا بیٹھنے
سے منع فرما دیا ۔ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ آپ نے
فرمایا !’’لاتلجو ا علیٰ المغیبات فا ن الشیطان یجری من احدکم مجری الدم
‘‘یعنی جن عورتوں کے شوہر باہر گئے ہوئے ہیں ان کے پاس نہ جاؤ، کیونکہ
شیطان تم میں سے ایک شخص کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے ، (ترمذی)
انہی حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کی دوسری روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا!’’من کان
یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخرفلا یخلون بامرأۃٍ لیس معھا ذو محرم منھا فان
ثالثٰھما الشیطان‘‘’’یعنی جو شخص اﷲ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ
کبھی کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ ا سکے ساتھ اس عورت کا محرم
نہ ہو ،کیونکہ تیسرا اس وقت شیطان ہوتا ہے ‘‘(احمد )
(2) آپ نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم عورت
کے جسم کو لگے ۔چنانچہ آپ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لیکر کرتے تھے
لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ کبھی بھی اختیار نہیں فرمایا۔ (ابو
داؤد ، کتاب الجزأ)
(3) آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی
کے ساتھ منع فرمادیا ۔بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے
خطبہ میں ارشاد فرمایا !’’لا یخلون رجل بامرأۃالا ومعھا ذومحرم ولا تسافر
المرأۃالا مع ذی محرم ‘‘’’یعنی کوئی مرد کسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک
کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک اس کا
کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو ۔‘‘
حضرت علامہ اقبال نے فرمایا ، مر د کا فرض یہ ہے کہ وہ عورتوں کو صحیح
تعلیم و تربیت مہیا کرے اور عورتیں اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کریں۔ایک
ہی مقصد کے لئے دونوں فریقوں کو الگ الگ فرائض سونپے گئے ہیں۔ اس لئے ہر
فریق کو اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر اپنے فرائض انجام دینے چاہیئں ۔
معاشرے اور خانوادے کی فلاح کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان عورت اسلام کی
معاشرتی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے ۔ عورت کو اسلام کے
معاشرتی نظام کا آئینہ دار ہونا چاہیئے، کیونکہ اپنی اولاد کی تربیت کی ذمہ
دار عورت ہی ہے اور اس کی تربیت پر آئندہ نسلوں کی فلاح و اصلاح کا دار و
مدار ہے۔یاد رکھے اگر مسلمان کا بچہ اسلام بنیادی تعلیم سے ناآشنا ھے تو وہ
مکمل مسلمان نہیں ھو سکتا.
.. ’’ اللہ ہم سب کو دین فطرت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اپنی
عورتوں کی اسلامی اصولوں کے مطابق پرورش کر سکیں آمین |