آج جس موضوع پر میں اظہار خیال کرنا چاہتا ہوں وہ ایک
ایسا مسئلہ ہے جو روز بروز بگڑتا جارہا ہے اور وہ مسئلہ شہر قائد میں ٹریفک
کا ہے۔ کراچی کی تمام شاہرائیں ٹریفک کے شدید دباو کا شکار رہتی ہیں اس کی
مختلف وجوہات ہیں اور ان وجوہات میں براہ راست حکومت کے ساتھ ساتھ ہم عوام
بھی ذمہ دار ہیں ۔ صورتحال تب زیادہ ابتر ہوجاتی ہے جب دفاتر میں چھٹی کا
وقت ہوتا ہے ۔اس شہر کے باسیوں کا قیمتی وقت اور ایندھن ٹریفک جام کی نظر
ہوجاتا ہے جس سے عوام کی طبیعت میں تھکن ، کی وجہ سے چڑچڑا پن پیدا ہونے کی
شکایت ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے معمولی معمولی بات جھگڑے دیکھنے میں آتے
ہیں ۔ اس ٹریفک جام میں بہت سی ایمبولینس بھی پھنسی نظر آتی ہیں جس سے کئی
دفعہ قیمتی جانیں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا
حکومت ترقیاتی کام سڑکوں کی تعمیر کرکے اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہوسکتی
ہے۔ تو اس کا جواب خاکسار کی ادنیٰ رائے میں نفی میں ہے کیونکہ ان سب کاموں
کے ساتھ متوازی طور پر دیگر مسئلوں کو بھی ٹھیک کرنا ضروری ہے جس میں سر
فہرست ٹریفک پولیس کا نظام ہے، سڑک پر ان فٹ گاڑیاں رواں دواں ہیں ان کو
فٹنس کون دے رہا ہے ؟سڑک پر رش کے دوران آئل ٹینکر یا دوسری ہیوی ٹریفک جن
کے اوقات متعین کئے جاچکے ہیں وہ کس طرح سڑک پر آتے ہیں اور اس کو روکنے
کے لئے کیااقدامات کئے جاتے ہیں بعض مقامات پر ٹریفک پولیس کے اہلکار لین
دین میں مصروف ہوتے ہیں ۔جن کا اکثر شکار لوڈنگ گاڑیاں ہوتی ہیں جنہوں نے
ایک مخصوص رقم کے عیوض قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی قسم کھارکھی ہے اس کی
ایک مثال سریے کا ٹرک ہے میں جو خطرناک طریقے سے ٹریفک کے درمیان چل رہا
ہوتا ہے اور ایک گندہ سا کپڑا اس پر لٹکا کر تمام نام نہاد حفاظتی اقدام
کرکے ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے ۔ جو کسی بھی وقت جان لیوہ حادثہ کا سبب
بن سکتا ہے ۔پھر حادثات اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں جن میں گھڑے پڑے ہوئے ہیں یہ
بھی ٹریفک کے مسائل کے ذمہ دار ہیں ۔ ٹریفک پولیس کی ہیلمٹ سے متعلق مہم
کچھ دن چلنے کے بعد غائب ہوجاتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مہم کو مستقل
جاری رکھا جائے جب تک شہری اس قانون کے پابند نہ ہوجائیں ۔اس حوالے سے
حادثات کے ذمہ دار جہاں ٹریفک پولیس ہے وہاں ہم عوام بھی اس کی ذمہ دار ہیں
شہریوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو ہیلمٹ استعمال نہیں کرتی جبکہ یہ بات
سمجھنے کی اشد ضرورت ہے یہ ہماری اپنی حفاظت کے لئے ہے ۔ ایک رپورٹ کے
مطابق کراچی میں سب سے زیادہ حادثات موٹر سائیکل کے ہوتے ہیں اور اس میں
زیادہ تر کیسز سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوتے ہیں اور اس کی بنیادی وجوہات
یہ کہ ہیلمٹ کا استعمال نہیں کرنا ہے ۔نہ قانون مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے
فرائض انجام دے رہا ہے نہ ہم عوام اپنے آپ پر قانون لاگو کرنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ کراچی کا شمار جنوبی ایشیا کے ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں سب سے
زیادہ چوڑی سڑکیں ہیں اس کے باوجود اگر ٹریفک کے مسائل آ رہے تو اس مسئلہ
کو بڑی سنجیدگی سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ مغرب جس کی ہم اکثر مثال دیتے ہیں
وہاں عوام اور انتظامیہ آمنے سامنے نہیں ہیں۔ وہا ں کے لوگ اپنے فرائض
احسن طریقے سے ادا کرتے ہیں جس کے جواب میں انتظامیہ ان کی بنیادی ضروریات
کا خیال رکھتی ہے ۔جو انفراسٹکچر اس وقت موجود ہے وہ جیسا بھی ہے اس کے
دائرے میں رہتے ہوئے اس بڑے مسئلے کا حل تلاش کرنا نہایت ضروری امر ہے ، اس
میں سب سے زیادہ حکومت کو اپنا کام ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ
ایک باشعور اور ذمہ دار شہری کی طرح عوام کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنا
چاہیے جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کریں گے تبدیلی کی امید صرف
دیوانے کا خواب رہے گی۔ نظام کو بدلنے کے لئے پہلے ہر شخص کو انفرادیت میں
اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی ہوگی اپنے ذمہ جو فرائض حکومت وقت یا انتظامیہ
کی طرف سے لگائے گئے ان کو پورا کریں گے ۔تب کہیں جاکر ہم اس تبدیلی کی بات
کرنے کا حق رکھیں گے ۔کیونکہ حکومت اور انتظامیہ میں جو لوگ بیٹھے ہیں وہ
ہم میں سے ہی ہیں اور پھر انشاءاللہ تبدیلی آئے گی اور ہمارے تمام جملہ
مسائل جن میں ٹریفک بھی ایک مسئلہ ہے یہ سب ایک ایک کرکے حل ہوتے جائیں گے
یہ وہ موثر نسخہ ہے جو ہمارے تمام معمولات زندگی پر مطلق ہے ۔ |