تحریر: ماہ نور نعیم، بھکر
زمانہ طالب علمی میں اکثرو بیشتر ایسے ایسے راز کھلتے ہیں کہ انسانی عقل
دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ راز انسان کی اصلیت، خصوصیت اور اس کی سوچ کی وہ ماہیت
ہے کہ جسے آج تک کوئی بدل نہیں سکا۔ کیمسٹری کا کوئی ری ایکشن اس میں
تبدیلی لا سکا ہے نہ ریاضی کا کوئی فارمولا اس پر آزمایا جا سکتا ہے، اس پر
مستزاد اسے کوئی باٹنیکل نیم بھی نہیں دیا جا سکتا کہ آخر وہ کیا وجہ ہے جو
طلبہ و طالبات دل لگا کر پڑھتے ہیں وہ نہ پڑھنے والوں سے کم نمبر کیسے لیتے
ہیں۔
گزشتہ دنوں یونیورسٹی میں ہونے والے امتحانات سے طلبہ برسرپیکار تھے۔ کوئی
بنا محنت کے ہی پاس ہو گیا تو کوئی محنت کرکے بھی پوزیشن حاصل نہ کرنے کا
رونا روتا رہا۔ ستم ہائے کہ اساتذہ کرام بھی ان طلبہ و طالبات کو دلا سہ
دلا رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ انہوں نے محنت تو خوب کی مگر شاندار کامیابی
حاصل نہ کر پائے۔ جب کچھ ایسی صورتحال ہوتی ہے تو پھر یہ تاثر بھی ابھر کر
سامنے آتا ہے کہ ٹیچرز نمبر ہی نہیں دیتے۔ جب یہ رونا اپنے ٹیچر سے رویا
جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم نے نمبر اپنی جیب سے نہیں دینے اور کچھ تو
کہتے ہیں کہ نمبر لے کر کیا کرنا ہے جب آپ کے پاس نالج ہی نہیں ہے۔
اولالذکر اپنی جیب بھاری کرتے ہیں ( نمبروں سے) اور مؤخرالذکر کا تو کیا ہی
کہنا۔ نمبر دیتے ہوتے ان کی جان نکلتی ہے جیسے یہ نمبر انہوں نے اپنی جیب
سے دینے ہوں مگر مجال ہے کہ نمبر کاٹتے ہوئے ان کا قلم لرزے، یہاں تک کہ
طالب علم کا نازک دل لرز کر رہ جاتا ہے۔ انہی کے بارے میں یہ بھی سوچا جا
سکتا ہے کہ جب آپ نے نمبر دینے ہی نہیں تو کیوں نہ گھر بیٹھ کر صرف انٹرنیٹ
سے صرف نالج حاصل کر لیا جائے۔ ڈگری ایگزیکٹ دے گی۔
طالب علم کبھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھتے۔ یہ نمبروں کے حصول کے لئے
کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ بعض اساتذہ فرماتے ہیں:نمبروں کے لئے ٹیچرز کے
پاؤں میں بھی گر جایا جاتا ہے۔ یہ بیان ضیافتی طلبہ کی کیٹیگری پر پورا
اترتا ہے ، جنہیں نت نئے بہانوں سے ٹیچرز کے دل میں گھر کرنا آتا ہے۔ کبھی
مخالف کی شکایت لگا کر دو چار نمبر حاصل کر لئے جاتے ہیں تو کبھی اپنی
مسکین صورت سے ان سے بھیک بھی مانگ لی جاتی ہے۔ محنت کرنے والے طالب علم
کبھی اپنے آنسوؤں سے نمبر حاصل نہیں کرے گا، وہ اپنی پوزیشن یعنی سیلف
ریسپیکٹ کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر اس کے سامنے اس کی خواہش کے مطابق
نمبر حاصل کرنے کا آپشن بھی آجائے تو وہ اسے رشوت سمجھتے ہوئے، کبھی اس
موقع سے فائدہ حاصل نہیں کرے گا۔
بچپن میں اپنے اساتذہ سے بہت شوق سے اسٹار لیتے تھے، اس حقیقت سے نآشنا
ہوتے ہوئے کہ ایسا ہی اسٹار اگر ڈگری پر لگ جائے تو کیا ہوگا؟ یونیورسٹی
میں بھی سٹار لگوانے کے چکروں میں خو د کو ہلکان کرتے بہت سے ٹیچرز ملیں گے
، جو کہتے ہیں یا تو سمر لگوا لو یا سٹار لگوالو۔ایسے ہی طالب علم بھی ہیں
جو اپنے اعمال نامے دیکھ کر خود کو حالات کے سپرد کرتے ہوئے سمر کے آپشن کو
سرکل کرتے ہیں اور یوں چھٹیوں میں بھی یونیورسٹی میں بہار کی سی رونق ہوتی
ہے۔
سیاسی قسم کے طالب علم ، ایک پلان کے نتیجہ میں پوری کلاس کو ہی لے ڈوبتے
ہیں۔ اگلے دن کلاس نہ لینے کا ارادہ کرکے پوری کلاس کو چھٹی کے لئے راضی
کرتے ہیں اور آنے والے دن ان کی ذہانت کے چرچے پوری یونیورسٹی میں پھیل
جاتے ہیں ، جب انہیں سزا کے طور پر کوئی کری ایٹو ایکٹیویٹی کرنے کو کہا
جاتا ہے ۔ اساتذہ کو بھی ان کی ذہانت کی گواہی دینی پڑتی ہے مگر یاد رہے کہ
ایسی ذہانت کا مظاہرہ ہر ایک سیاسی شورش کے نتیجہ میں ہوتا ہے، جس میں
اساتذہ کے ساتھ ہونے والے ناکام مذاکرات کے نتیجہ میں انہیں ضرور سزا دی
جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے اساتذہ کی جانب سے مساویانہ رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔
نالائق اور لائق بچوں کا بالخصوص خیال رکھنا چاہیے۔ اگر ہونہار طلبہ و
طالبات کو ان کی محنت کے مطابق مارکس نہیں دیے جائیں گے تو اس کا نقصان یہ
ہوگا وہ دلبرداشتہ ہوکر خدانخواستہ کوئی اقدام نہ اٹھا بیٹھیں۔۔ اگر ایسا
نہیں بھی ہوگا جو کہ نہیں ہونا چاہیے تو کم از کم ان کا پڑھائی سے دل اٹھ
جائے گا۔ اس کے مقابلے میں نہ پڑھنے والے اور نالائق طلبہ کو اچھے نمبروں
سے پاس کرانا سے ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ بڑھتا ہے اور یوں وہ دیگر
بچوں کو بھی کہتے پھر رہے ہوتے ہیں کہ نہیں پڑھیں کونسا اچھے نمبر ملنے ہیں۔
پاس تو وہ بھی ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ اور انتظامیہ کی بالخصوص ذمے داری بنتی
ہے کہ وہ اس حوالے سے احسن اقدام کریں۔ کوئی میکنزم تیار کیا جائے جس کے
تحت کم از کم ایسے بچوں کا معلوم ہو کہ لائق اور نالائق کون ہیں۔۔ |