نقل مافیا ایک چیلنج

 پڑھی لکھی قوم روشن مستقبل۔تعلیم انسان کی کردار سازی کرتی ہے تعلیم کے ذریعے ہی ہر میدان میں ترقی کی جاتی ہے آج دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک نے ترقی کی ہے سب تعلیم کے بل پر کی ہے ۔پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار تو نہیں کیا جاتا لیکن ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں میں وہ ٹیلنٹ موجود ہے جو کہ مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو ملک کا نام کیا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے نوجوان اپنے ٹیلنٹ اور وقت کو ضائع کرنے میں مشغول ہیں اور اپنا مستقبل تاریک کرنے پر تل گئے ہیں۔

ہماری نوجوان نسل نے موبائل فون کا استعمال اس میدان میں کیا ہے جہاں ان کا روحانی درسگاہ کا سلسلہ چلتاہے اس کے ذریعے سے اپنا مستقبل خراب کر رہے ہیں موبائل کا غلط استعمال ان کی زندگیوں کو خراب کر رہا ہے بہت سے طلباء و طالبات اپنے امتحانات میں اچھی کارکردگی دیکھانے کی کوششوں میں ہوتے ہیں مگر ان کی کوشش ایسے ہی رہ جاتی ہے امتحانات سے پہلے ہی پیپرز موبائل پر کسی نہ طریقے سے پہنچا دیا جاتا ہے۔
انٹرمیڈیٹ امتحانات میں پیپرز آؤٹ ہونا اور واٹس ایپ کے ذریعے حل شدہ پرچہ شیئر ہونے کی خبریں روز رپورٹ ہورہی ہیں۔سندھ میں واٹس ایپ پر نویں دسویں کے پرچے آؤٹ ہونے لگ گئے ہیں۔دوسری جانب بھارتی سموں کیاستعمال پرتمام ایجنسیاں الرٹ ہوگئیں۔امتحانات میں سوشل میڈیا پر پرچے وائرل ہونا معمول بن گیا، مبینہ طور پر کوچنگ سینٹر کے اساتذہ پرچے حل کرکے واٹس ایپ کردیتے ہیں، معاملے پر وزیر تعلیم سندھ نے چیئرمین انٹر بورڈ کو گزشتہ روز طلب بھی کیا تھا، 60ویجی لینس ٹیمیں مختلف امتحانی مراکز کا دورہ کرتی ہیں۔

دوسری جانب سندھ کے مختلف شہروں میں انٹرمیڈیٹ امتحانات میں پرچے آوٹ ہونے کا سلسلہ جاری ہے، کراچی میں آج ہونے والا فزکس کا پرچہ آؤٹ ہوگیا، پرچہ واٹس ایپ کے ذریعے شیئر ہوتا رہا اور امتحانی مراکز پر نقل کی شکایت بھی برقرار ہے۔سکھر میں بھی آج ہونے والاپرچہ آؤٹ ہوا، امتحانی مراکز پر بھی نقل مافیا کا راج رہا جبکہ شکارپور میں آج بھی پرچہ آؤٹ ہوا، نقل روکنے کیلئے کیے جانے والے اقدامات ناکام ہوگئے اور طلبا موبائل فونز اورکتابوں سے نقل کرتے رہے۔

سندھ بھر میں انٹر کے امتحانات جاری ہیں،میٹرک کے پرچوں کی طرح انٹر میں بھی نقل مافیا سرگرم ہوگئی۔ کتابو ں اور بوٹیوں کے ساتھ ساتھ اب اسمارٹ فونز بھی نقل کے لئے معاون بن گئے ہیں۔

امتحانات میں کھلے عام نقل سے پرچے حل کیے جا رہے ہیں،زمانہ کیا بدلہ،نقل کرنے کے طریقے بھی تبدیل ہوگئے،میر پور خاص میں بارہویں جماعت انگریزی کے پرچے کو اسمارٹ فونز کی مدد سے کھلے عام حل کیا جاتا رہا۔گھوٹکی میں حل شدہ پیپر فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں پر150سے دو سو روپے میں فروخت ہونے لگا ہے۔جیکب آباد میں بارہویں جماعت مطالعہ پاکستان کے پرچے کے دوران نقل کرانے والے 20 افراد گرفتار کرلیاگیا ہے.

میٹرک کے امتحانات کے حوالے سے بعض پرائیوٹ اسکولز کا ایک رجحان نہایت خطرناک عمل اختیار کرگیا ہے جس میں اپنے اسکول کے اچھے رزلٹ کی تشہر کیلئے نقل مافیا کے اراکین کے ساتھ ملکر منظم انداز میں مستقبل کے معماروں کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔ اس عمل سے ذہین طلبا کی زبردست حوصلہ شکنی ہوتی ہے جوشب و روز امتحانات کی تیاری میں لگا دیتے ہیں، لیکن جب امتحانات آجاتے ہیں تو رشوت کے عوض زیادہ ترطلبا ء با آسانی پرچے حل کرکے یوں جاتے ہیں جیسے امریکہ نے افغانستان فتح کرلیا ہو۔اس ضمن میں سب سے قابل افسوس رجحان یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض والدین اپنے بچوں کو خود بھی نقل کی جانب رجحان دلانے کے لئے سفارشیں تلاش کرتے ہیں۔ شنید کے ساتھ دید بھی ہے کہ کئی احباب فون آتے ہیں، بالمشافہ ملاقات بھی کرتے ہیں کہ فلاں اسکول میں بورڈ کے امتحانات ہیں۔ کسی جاننے والے کو فون کرادیں۔ اس سلسلے میں میرا موقف دو ٹوک ہوتا ہے کہ اگر آپ کا بچہ نقل کرکے پاس ہونا چاہتا ہے تو بہتر ہے کہ اسے پڑھانا چھوڑ دیں یا پھر بچہ اگر خود پڑھ کر امتحانات میں پرچے حل نہیں کرسکتا تو اچھے گریڈ لانے سے بہتر ہے کہ وہ‘‘فیل’’ہوجائے۔

بلوچستان میں ہر دفعہ امتحانات سے پہلے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ نقل پر پورا کنٹرول کیا جائے گا لیکن ہوتا وہی ہے کہ طلبہ اپنی کتابیں اور گائیڈ سامنے رکھ کر پورے اطمینان سے پرچہ حل کرتے ہیں۔ ممتحن صاحبان جنکو نقل روکنے کے لئے رکھا جاتا ہے اس وقت بیوپاری بن جاتے ہیں اور طلبہ سے 100، 200 روپے فی کس لے کر انکو ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ پرائمری امتحانات سے لیکر یونیورسٹی لیول تک نقل کا یہ دھندہ پورے زور و شور سے جاری ہے اور تعلیمی ذمہ داران قوم کی اس اجتماعی بربادی پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نقل کا ناسور طلبہ میں تعلیم پہ عدم توجہی کا باعث بن رہا ہے۔ امتحان کے لئے جانے والوں کے ذہن میں شروع سے یہی ہوتا ہے کہ جب نقل کا سامان ہے تو محنت کیوں کی جائے۔ یہ رجحان طلبہ کو تعلیم سے دور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اب تو مقابلے کے امتحانوں میں بھی نقل کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔ ٹیچر بھرتی کے امتحانات میں نقل کا بھرپور چلن دیکھنے میں آتا ہے۔ اب ہم اندازہ لگالیں کہ جو شخص نقل کے بل بوتے پر امتحان پاس کرکے استاد تعینات ہو وہ طلبہ اور معاشرے کو کیا دے سکتا ہے؟

ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا تعلیمی ذمہ داران اور حکام اس ناسور کے خلاف میدان میں آجائیں۔ پرائمری سے لیکر یونیورسٹی لیول تک نقل کرنے اور اس میں معاونت کو قابل تعزیر بنایا جائے۔ نقل پہ مکمل پابندی سے اگر ایک سال 90 فیصد امیدوار بھی فیل ہوجائیں تو کوئی مضائقہ نہیں کم از کم اگلے سال محنت سے پاس ہونے کا رجحان چڑھے گا۔ اگر طلبہ کو نقل کا آسرا نہیں ہوگا تو وہ پورا سال اپنی تعلیم پہ توجہ مرکوز رکھے گا اس طرح ہم اپنا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنا سکیں گے۔انٹر کے امتحانات میں نقل کا معاملہ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے محکمہ انسداد دہشت گردی کے حوالے کیے جانے کے بعد تحقیقات میں اہم پیش رفت سامنے آگئی۔تحقیقات کے مطابق نقل کروانے میں کوئی ایک شخص نہیں پورا مافیا ملوث ہے۔

سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ انٹر بورڈ عملے کی مدد کے بغیر نقل ممکن ہی نہیں، بورڈ ملازمین سے متعلق اہم دستاویزات حاصل کرلی ہیں۔ نقل مافیا میں پرائیوٹ ایجنٹ اور کوچنگ سینٹرز بھی ملوث ہیں۔ حساس اداروں کی مدد سے بھارتی نمبروں کا سی ڈی آر حاصل کیا جائے گا۔ بھارتی نمبر پاکستان میں جس سے رابطے میں ہیں اسے گرفتار کیا جائے گا۔محکمہ انسداد دہشت گردی نے انٹر بورڈ افسران و ملازمین سمیت 40 سے زائد افراد کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں۔اس سے قبل محکمہ نے نقل میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا تھا۔

ہمارے معاشرے میں نقل کا رجحان روزبروز زور پکڑتا جارہا ہے۔ ابتدائی جماعتوں سے ہی بچوں کو نقل کی جانب کرکے انکی تخلیقی صلاحیتوں کو دبایا جاتا ہے جو کسی بھی قوم کے لئے المیہ ہے۔ استاد جو طالبعلموں کے روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں وہ خود نقل کرنے میں ان کے مددگار اور سہولت کار کا کردار ادا کریں تو اس قوم کی بدنصیبی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے دنوں کراچی کے 17 اساتذہ کو نقل کرانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تدریس جیسے مقدس پیشے کو بدنام کرنے والے ان ننگ ملت افراد کو ملازمت سے فارغ کر کے باقیوں کے لئے نشان عبرت بنایا جاتا لیکن اساتذہ کی تنظیم ان کی پشت پر کھڑی ہوگئی اور امتحانات کا بائیکاٹ کرکے طلبہ کو انتہائی ذہنی اذیت سے دو چار کیا گیا۔ ہر دفعہ بورڈ کے امتحانات مذاق بن کر رہ جاتے ہیں اور نقل مافیا اپنا کاروبار جم کر کرتی ہے۔

وزیر تعلیم جام مہتاب ڈہر نے امتحانی مرکز کے دورے پر اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ تعلیمی بورڈ کو تحقیقاتی اداروں سے تعاون کا کہہ دیا ہے، وزیراعلیٰ کی ہدایت پر سی ٹی ڈی کو بھی شامل کرلیا ہے،

حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں پر خصوصی توجہ دے تاکہ اپنی قوم کے مستقبل کو وقت پر ہی سمبھال لیا جائے اور مزید گمنامی کے گڑے میں جانے سے روکا جائے ۔ اگر ملک میں ہی اپنے مستقبل کے ساتھ ایسا کیا جائے گا تو ملک کس طرح ترقی کرے گا کس طرح اپنی آنے والی نسلوں کو سدھارا جائے گا ملک کے نوجوان اگر تعلیم سے روشناس ہونگے تو ہی ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکے گا۔
 

Zunaira Ikram
About the Author: Zunaira Ikram Read More Articles by Zunaira Ikram: 6 Articles with 8334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.