حضرت علی ؓ قریشی خاندان بنو ہاشم کے ایک ممتاز فرد
اوررسول اکرم ؐ کے حقیقی چچا زاد بھائی ہیں ۔آپ ؓ کا نام علیؓ ہے ا بو
الحسن اور ابو تراب آپ ؓ کی کنیت ہے اورحیدر آپ ؓ کا لقب ہے ۔آپ ؓ کے والد
کا نام جناب ابوطالب اور والدہ کانام حضرت فاطمہ ؓ ہے ۔جب حضور اکرم ؐ نے
نبوت کا اعلان کیا تو اس وقت حضرت علیؓ کی عمر صرف دس سال تھی حضرت علیؓ نے
اسی وقت بارگاہ نبوت میں حاضر ہو اسلام قبول کیا اور آپ ؓ نے حضورؐ کے ساتھ
پہلی نماز پڑھی حضرت علیؓ کو بچوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے کا
اعزاز حاصل ہے ۔حضرت علی ؓ نے حضور ؐ کی دعوت تبلیغ پھیلانے میں اہم کردار
ادا کیا ۔ہجرت کے دوسرے سال حضرت علیؓ کو حضور ؐ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا
حضور کی سب سے پیاری اور چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ آپ ؓ کی شریک حیات بنی اس
سے پہلے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓاور خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ نے
بھی حضور ؐ سے حضرت فاطمہ ؓ کا رشتہ مانگا تھا مگر حضور ؐ نے عمر کی مناسبت
کا خیال فرماتے ہوئے حضرت علیؓ کی درخواست کو منظور فرمایا اس موقع پر حضور
ؐ نے حضرت فاطمہ ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے فاطمہؓ میں نے تمہارا نکاح
اپنے اہل بیت کے سب سے بہترین شخص سے کر دیا ہے پھر حضور ؐ نے ان دونوں کو
دعائیں دیں اور ان پر پانی چھڑکا ۔ایک اور جگہ پر آتا ہے کہ حضور ؐ نے حضرت
فاطمہ ؓ سے فرمایاکیا تم راضی نہیں کہ میں نے تمہارا نکاح اس کے ساتھ کیا
ہے جو ازروئے اسلام سب سے پہلے مسلمانوں میں ہے اور علم کے اعتبار سے ان سب
میں دانا ترین ہے اور تم میری امت کی عورتوں میں سب سے بہترین ہو جس طرح
حضرت مریم ؑ اپنی قوم میں تھیں ۔
حضرت علیؓ انتہائی بہادر ،فنونِ حرب سے واقف علم و فضل سے آراستہ اور ذہین
و فطین شخص تھے آپ ؓ کا شمار ان صحابہ ؓ میں ہوتا ہے جنہوں نے رسولِ اکرم ؐ
کی زندگی میں ہی پورا قرآن پاک حفظ کر لیا تھا ۔حضرت علیؓ چونکہ رسول اکرم
ؐ کے خاندان کے ایک اہم رکن تھے اور درسِ نبوت ہی میں آپ ؓ کی تربیت ہوئی
اس لیے کمالاتِ علمی میں آپ ؓ کا پایہ بہت بلند ہے رسولِ اکرم ؐ نے آپ ؓ کے
متعلق ارشاد فرمایا کہ میں علم کا شہر اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔حضور ؐ کے
زمانے میں آپ ؓ کاتبِ وحی بھی تھے حدیبیہ کا مشہور صلح نامہ آپ ؓ ہی کے قلم
سے لکھا گیا تھا حضور ؐ نے یمن میں اشاعت اسلام کے بعد آپؓ کو وہاں کا قاضی
مقرر کیا آپؓ نے اس اہم فرض کو بڑی لیاقت اور ذہانت کے ساتھ انجام دیا عہد
خلفاء ثلاثہ میں بھی آپ ؓ کی بصیرت علمی نے بہت سے الجھے ہوئے احکام و
قضایا کو سلجھانے میں مدد دی حضور ؐ فرمایا کرتے تھے تم میں سے سب سے بہتر
مقدمات کا فیصلہ کرنے والے حضرت علیؓ ہیں ۔حضور ؐ نے جب انصا ر و مہاجرین
کا درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا تو حضرت علیؓ آپؐ کے پاس آئے اور کہا کہ
یا رسول اﷲ ؐ آپؐ نے تمام صحابہ ؓ کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کر دیا ہے
مگر میں یوں ہی رہ گیا حضور ؐ نے فرمایا کہ اے علی ؓ تم دنیا اور آخرت میں
میرے بھائی ہوایک اورجگہ حضور ؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اے علیؓ کیا تو
راضی ہے کہ جنت میں تیرا گھر میرے گھر کے سامنے ہو۔
حضرت علیؓ کا شمار عشرہ مبشرہ صحابہؓ میں ہوتاہے حضور ؐ آپ ؓ سے بہت محبت
کرتے تھے اور آپؓ کو بہت عزیز رکھتے تھے حضرت بریدہ ؓسے روایت ہے کہ حضور ؐ
نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور
مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرتا ہے صحابہؓ نے عرض
کیا کہ یا رسول اﷲ ؐ ہمیں ان کا نام بتا دیجیے حضور ؐ نے فرمایا کہ ان میں
سے ایک علی ؓ بھی ہے ۔
حضرت علیؓ کے محاسن اخلاق کے ضمن میں روایات میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت
امیر معاویہ ؓ نے ضرار اسدی سے فرمایا کہ مجھے حضرت علیؓ کے اوصاف بتاؤ
ضرار اسدی نے جواب دیا کہ حضرت علیؓ بلند حوصلہ اور نہایت قوی تھے فیصلہ کن
بات کہتے تھے نہایت عدل کے ساتھ فیصلہ کرتے تھے ان کے ہر حرف سے علم کا
چشمہ پھوٹتا تھا دنیا کی دلفریبی اور شادابی سے وحشت کرتے اور شب کی تاریکی
سے لگاؤ رکھتے تھے بہت گریہ کرنیوالے اور بہت غور و فکر کرنیوالے تھے عام
لباس اور بچا کچھا کھانا پسند کرتے تھے ہم میں بالکل ہماری طرح گھل مل کر
رہتے تھے ہم جب ان سے سوال کرتے تو وہ ہماری بات کا جواب دیتے تھے جب ہم ان
سے انتظار کرنے کی استدعاکرتے تو وہ ہمارا انتظار کرتے وہ اپنی خوش اخلاقی
سے ہمیں گرویدہ بنا لیتے تھے وہ اہل دین کی عزت کرتے تھے غرباء کو اپنی
صحبت عطاء کرتے ان کے انصاف سے کمزور کبھی ناامید نہیں ہوتا تھا ۔میں گواہی
دیتا ہوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ شب گزر چکی ہے ستارے غروب ہو چکے ہیں اور
وہ اپنی ریش مبارک کو پکڑے ہوئے بے چین اور مضطرب رہتے تھے اور وہ اسی حالت
میں گریہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے دنیا مجھے دھوکہ نہ دے تو مجھ سے
چھیڑ چھاڑ کرتی ہے یا میری مشتاق ہوئی ہے افسوس میں تجھے تین طلاق دے دی ہے
میری عمر تھوڑی اور مقصد حقیر ہے ۔آہ میرازادِ راہ تھوڑا ہے اور سفر بہت
طویل اور راستہ بہت پر خطر ہے ۔
حضرت امیر معاویہؓ نے جب حضرت علیؓ کے یہ اوصاف سنے تو آپؓ کی آنکھوں سے
آنسو جاری ہوگے اور فرمایا اﷲ ابوالحسن پر رحم فرمائے اﷲ کی قسم وہ ایسے ہی
تھے۔
حضرت علیؓ نے غزوۂ تبوک کے علاوہ باقی تمام جنگو ں میں حصہ لیا اور
ذوالفقارِ حیدری کے جوہر دکھائے دو ہجری 17 رمضان المبارک کو جب حق و باطل
کا پہلا معرکہ برپا ہوا جس میں 70 کفار مارے گے ان میں سے 36 تو صرف حضرت
علیؓ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے ۔جنگ خیبر میں حضرت علیؓ نے اپنی شجاعت اور
بہادری کے جوہر دکھائے حضور ؐ جب خیبر پہنچے تو دیکھا کہ یہودِ خیبر نے بڑے
بڑے مضبوط قلعے بنا رکھے ہیں جنہیں فتح کرنا آسان نہیں ہے ان قلعوں میں سب
سے بڑا قلعہ قموص تھا جس میں یہودیوں کا مشہور سردار مرحب رہتا تھا جب
متعدد صحابہ ؓ بھی قموص کے قلعے کو فتح کرنے میں ناکام رہے تو آپ ؓ نے
فرمایا میں کل اس شخص کو عَلم دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کا محبوب ہے
اور خدا اور اس کا رسول اس کے محبوب ہیں خدا اس کے ہاتھوں اس مہم کو سر
کرائے گا لہذا دوسرے دن حضور ؐ نے حضرت علیؓ کو طلب کیا اور آپؓ کو عَلم
عطا ء کیا آپ ؓ نے انتہائی بہادری اور شجاعت کے ساتھ مرحب اور اس کے بھائی
کو خاک خون میں تڑپایااور عَلم اسلامی قموص کے قلعے پر لہرایا ۔آٹھ ہجری
میں فتح مکہ کے موقع پر بھی حضرت علیؓ پیش پیش تھے اور فتح مکہ کے موقع پر
بھی عَلم آپؓ کے ہاتھ میں تھا ۔
حضور ؐ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے باہمی فیصلے سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ
پہلے خلیفہ بنے پھر حضرت ابو بکر ؓ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ
مسلمانوں کے خلیفہ بنے حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد خلافت حضرت عثمان غنی ؓ
کے حصے میں آئی پھر حضرت عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت کے بعد مسلمانوں نے
حضرت علیؓ کو خلیفہ منتخب کیا حضرت علی ؓ کی بیعت ایک ایسے وقت میں ہوئی
جوتاریخ کا انتہائی نازک وقت تھا ۔صحابہ کرام ؓ کی ایک بہت بڑی تعداد حضرت
علیؓ سے حضرت عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت کا قصاص مانگ رہی تھی اور اسی
تنازعے کی بنیاد پر آپؓ کی بیعت سے بھی گریزاں تھی ۔حضرت عثمان ؓ کے قصاص
کے مطالبے پر امت میں انتشار آگیا اور مسلمان تقسیم ہوگے اورتاریخ اسلام کی
دو ہولناک جنگیں (جس میں مسلمان مسلمانوں کے سامنے تھے) بھی اسی معاملے پر
برپا ہوئیں جس میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد شہید ہوئی اور اس کا براہ
راست فائدہ فسادیوں کو ہوا ۔جب حضرت علی ؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان
مفاہمت کی راہ نکلی تو خارجیوں کو یہ بات ناگوار گزری تو انہوں نے ایک ہی
دن میں حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا
لہذا 17رمضان کو عبدالرحمن ابن ملجم نے حضرت علی ؓ پر چاقو سے حملہ کیا اسی
روز دمشق میں حضرت امیر معاویہ ؓ پر بھی حملہ ہوا لیکن حضرت امیر معاویہ ؓ
حملے میں بچ گے لیکن حضرت علیؓ تین دن تک زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا
رہے اور آخر کا 20رمضان المبارک کو خالق حقیقی سے جا ملے اور آپ ؓ کو کوفہ
کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ |