کسی بھی مستند تاریخ میں حضرت عائشہ ؓ کی تاریخ
ولادت کا ذکر نہیں ملتا تاہم محمد بن سعد نے اپنے طبقات میں لکھا ہے کہ آپ
ؓ کی ولادت نبوت کے چوتھے سال کے ابتدا میں مکہ مکرمہ میں ہوئی آپ ؓ کا نام
عائشہ ؓ ہے آپ ؓ کا لقب صدیقہ اور حمیرا ہے حضور ؐ آپ ؓ کو بنت الصدیق کے
نام سے بھی پکارتے تھے آپؓ کے والد اس امت کے بہترین انسان حضرت ابو بکر ؓ
تھے جس کے متعلق حضور ؐ نے خود فرمایا تھا کہ میری امت میں انبیاء کے بعدسب
سے بہترین انسان ابوبکر ؓ ہے۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضرت محمد ﷺ
کی تیسری زوجہ محترمہ ہیں آپ ؓ کو یہ اعزا ز حاصل ہے کہ آپؓ حضور ؐ کی
کنواری بیوی تھیں ۔اس کے علاوہ آپ ؓ بہ اندازِ فخر و مباہ اپنی ان خصوصیات
کاذکر خودکرتیں ہیں جو انہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بطور سند دی گئی۔(۱) مجھے
حضور اکرم ؐ کی زوجہ بنایا گیا(۲) حضرت جبرائیل ؑ نے میری تصویر نبی اﷲ کو
دکھائی (۳) میں نے حضرت جبرائیل ؑ کا دیدار کیا وہ دحیہ کلبیؓ کی شکل میں
تھے (۴) میں نبی اکرم ؐ کی سب سے پسندیدہ اور محبوب بیوی تھی(۵) میری برات
ربِ کریم نے عرش سے نازل کی (۶) سورت نور میری شان ،عظمت اور عفت میں نازل
کی گئی (۷) آنحضرت ؐ نے میری گود میں رحلت فرمائی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ قر آن کی بہت بڑی عالمہ تھیں قرآن پاک کی تشریح و توضیح
سے مکمل آگاہ تھیں یہی وجہ تھی کہ آپ ؓ کو علماء اور ماہرین کا استاد مانا
جاتا تھا حضرت زہری ؓ سے مروی ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا اگر اس امت کی تمام
عورتوں کے علم( جن میں امہات المومنین بھی شامل ہوں ) کو جمع کر لیا جائے
تو عائشہ کا علم ان سب کے علم سے زیادہ ہے ۔آپؓ کی علمیت کا اعتراف خود
صحابہ ؓ نے کیا حضرت عطاء ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ تمام لوگوں سے
بڑھ کر فقیہہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والی اور تمام لوگوں سے بڑھ
کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں ۔صحابہ کرام ؓ حضرت عائشہ ؓ
سے مسائل دریافت کیا کرتے تھے ۔حضرت موسیؓ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحابِ
رسول کے لیے جب کبھی کوئی بھی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام المومنین حضرت
عائشہ ؓ سے اس کے بارے میں دریافت کرتے تو ہم آپؓ سے اس حدیث کا علم پالیتے
۔حضرت عائشہ ؓ فطری طور پر ذہین تھی حضرت مولانا سید سلمان ندوی ؒحضرت
عائشہ ؓ کی فطری ذہانت بیان کرتے ہیں کہ عموما ہر زمانے کے بچوں کا وہی حال
ہوتا ہے جو آجکل کے بچوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انہیں کسی بات کا مطلق
ہوش نہیں ہوتا اور نہ وہ کسی کی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں لیکن حضرت
عائشہ ؓ لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھی لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی
آیت کانوں میں پڑ جاتی تو اسے یاد رکھتی تھی ہجرت کے وقت ان کا سن عمر آٹھ
برس تھا لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال
تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں ان کو یاد تھیں ان
سے بڑھ کر کسی صحابیؓ نے ہجرت کے واقعات کو ایسی تفصیل کے ساتھ نقل نہیں
کیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ اپنے شوہر حضور ؐ کی اطاعت گزار بیوی تھی حضرت عائشہ ؓ
حضورؐکی مسرت و رضا کے حصول کے لیے شب و روز کوشاں رہتیں آپؓ جب بھی حضور ؐ
کو رنجیدہ اور پریشان دیکھتیں یا آپ ؐ کے چہرے پر حزن و ملال عیاں ہوتا تو
حضرت عائشہؓ بے قرار ہو جاتیں ۔حضرت عائشہ ؓ فقراء اور مسکینوں کا حد درجہ
خیال رکھتی تھی آپ ؓ کی سخاوت اور رحم دلی کا یہ حال تھا کہ حضرت عروہ بن
زبیر ؓ بیان کرتے ہیں عائشہ ؓ کے پاس اﷲ کے رزق میں سے جو چیز آتی وہ اس کو
اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اسی وقت کھڑے کھڑے اس کا صدقہ فرما دیتی ۔حضرت
عائشہ ؓ پردے کا خاص خیال رکھتی تھی حجاب کی آیات کے بعد تو پردہ فرض ہو
گیا تھا لہذا ٓپ ؓ پردے کا خاص اہتمام کرتی تھی ایک صحابی ؓ جس کا نام
اسحاق ؓ تھا وہ نابینا تھے وہ آپ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت عائشہ ؓ
نے ان سے پردہ کرلیا تو وہ نابینا صحابی ؓ بولے کہ میں تو نابینا ہوں تو
مجھ سے کیسا پردہ تو آپؓ نے فرمایا کہ میں تو تم کو دیکھ سکتی ہوں ۔مر’دوں
سے شریعت میں کوئی پردہ نہیں لیکن حضرت عائشہ ؓ کا کمالِ احتیاط دیکھیں کہ
آپؓ اپنے حجرے میں حضرت عمر ؓ کے دفن ہونے کے بعد بھی بے پردہ نہیں جاتی
تھیں۔
اسلام میں حضرت عائشہ ؓ کی شخصیت انتہائی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے آپؓ
کی عظمت کا اندازہ سورت نور میں نازل ہونیوالی آیات سے لگایا جاسکتا ہے جس
میں آپ ؓ کی پاکبازی اور عصمت کی گواہی خود قادرِ مطلق نے دی ۔حضرت عائشہ
صدیقہ ؓ کا انتقال 13جولائی 678ء بمطابق 17 رمضان المبارک 58ہجری کو ہوا۔ |