روزے کا مقصد اور ہماری معاشرتی بے حسی

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا ……
’’روزہ ایک ڈھال کی مانندہے پس اس میں نہ شہوات کو پور اکرنے کی اجازت ہے اور نہ جاھلانہ عادات کی اور اگر روزہ دار کو کوئی گالی دے یا اس سے لڑائی کرے تو اسکو چاہئے کہ وہ جواباًدو دفعہ یہ کہے بھائی میں تو روزہ دار ہوں ۔
اﷲ تعالیٰ خود فرماتے ہیں :
الصوم لی وانا اجزی بہ
’’روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اسکی جزا ہوں ۔‘‘

حضرت سہلؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ……
’’ بیشک جنت میں ایک دروازہ ہے جسے باب الریان کہا جاتا ہے جو روزہ داروں کیلئے مخصوص ہے قیامت کے دن وہ اس دروازے سے جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔تب یہ دروازہ بند کردیا جائے گا ۔‘‘ (صحیح البخاری :کتاب الصوم)
قرآن کریم میں اﷲ تبارک وتعالیٰ روزے کا مقصد ارشاد فرماتے ہیں ……
یاالیھاالذین امنوکتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون
’’اے ایمان والو !فرض کردیئے گئے تم پر روزے جیسے فرض کئے گئے تھے تم سے پہلوں پر تاکہ تم تقوی اختیار کرو‘‘۔

تقویٰ ہے کیا ؟۔
تقویٰ ہے اﷲ تعالیٰ کا خوف اور ڈر یعنی وہ ذات جس نے ہمیں وجود عطا کیا ،مسلمان بنایا ،زندگی کی خوبصورتی کے لئے رشتہ دار عطا کئے اور زندگی گزارنے کے لئے بے شمار نعمتوں سے نوازہ وہ پروردگا ر کہیں ہم سے ناراض نہ ہوجائے ،ہم سے روٹھ نہ جائے ، ہم سے اس ذات کی نافرمانی نہ ہوجائے ،اس کے احکامات کی حکم عدولی نہ ہوجائے اور ہر معاملہ میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اﷲ پاک دیکھ رہے ہیں یہ ہے تقویٰ اور تقویٰ ہی مقصود رمضان ہے ۔

ہم روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر مقصد روزہ بھول جاتے ہیں جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ سارا دن بھوکا اور پیاسا رہنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا اﷲ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین ۔

روزہ ایک ٹریننگ کی مانند ہے کہ جس طرح کچھ وقت کے لئے روزانہ چند حلال چیزیں بھی حرام کردی جاتی ہیں اسی طرح پوری زندگی میں ،ہمارے آپسی معاملات اور معاشرت میں ،لین دین میں ،خوشی و غمی میں جن چیزوں کا احساس اور خیال رکھنے کا حکم ہمیں دیا گیا ہے ان کا ہمیشہ احسا س و خیال رکھنا چاہئے تاکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی شامل حال رہے اور ہماری د نیا و آخرت کی فلاح و کامیابی ہمارا مقدر ٹھہرے ۔

اگر ہم تیس دنوں میں روزہ کے ذریعے اپنا محاسبہ کریں تو باقی سال کے گیارہ مہینے ہماری زندگی بہتری کی طرف گامزن ہوجائے گی مثلاً اس رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کو میں نے دیکھا کہ مسجد میں چھاؤں میں لوگ بیٹھے تھے اور چھاؤں والی جگہ مکمل ہوچکی تھی خطبہ کے دوران چند ایک لوگ آئے انہیں مجبوراً دھوپ میں بیٹھنا پڑا میں نے غور کیا تو عجیب منظر دیکھا تقریبا ً ہر شخص ہی دو بندوں کی جگہ گھیرے ہوئے بیٹھا تھا اور انہیں مسجد میں بیٹھے یہ احسا س نہیں تھا کہ میں اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے جگہ بنائیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اپنے معمولات پورے کرسکے ،اسی طرح باقی معاملات دیکھ لیں پڑوسیوں کے حقوق نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ پڑوسیوں کے متعلق اتنے احکامات نازل ہوئے کہ مجھے اندیشہ ہوا کہیں وراثت میں پڑوسیوں کا حصہ مقرر نہ ہوجائے ،مگر ہمیں بالکل بھی پروا نہیں ہوتی بلکہ ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ پڑوس میں کوئی بیمار ہے یا ان کی کوئی ایسی ضرورت ہے جو میں پوری کرسکتا ہوں،کتنا عجیب لگتا ہوگا جب ہم نئے کپڑے پہن کر اور پیٹ بھر کے کھانا کھا کر گھر سے نکلتے ہونگے اور پڑوسی کے پاس پھٹے پرانے کپڑے اور خالی پیٹ ہوگا ۔

اسی طرح اپنی دوکانوں پر بیٹھ کر ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ قیمت پوری وصول کی جائے اور سودا سلف معیار اور مقدار میں کم دیں چاہے گاہک کا جتنا بھی نقصان ہوجائے رمضان المبارک کی آمد پر سیزن کا لیبل لگا کر جو اشیاء خوردو نوش کے دام بڑھائے جاتے ہیں اور لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا جاتا ہے وہ کہاں ہمارے روزوں کی لذت اور انعامات کو برقرار رہنے دیتا ہے اور اس طرح کمائے گئے پیسوں میں کیسے برکت ہوسکتی ہے ،اسی طرح فضول گوئی ،فحش کلامی،جھوٹ اور گالی گلوچ ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے حالانکہ یہ چیزیں ہمارے اعمال کو ایسے کھاجاتی ہیں جیسے لکڑی کو دھیمک کسی انسان کی دل آزاری کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور بہت سارے نیک عملوں کو ضائع کرنے کا سبب بنتا ہے مگر ہم زیب داستاں کے لئے یا زبان کی لذت کے لئے وہ وہ قہر ڈھاتے ہیں کہ الامان والحفیظ،اسی طرح ڈاکٹر اب مریض کو مجبور اور پریشان حال نہیں سمجھتے بلکہ کلائنٹ سمجھتے ہیں ،وکیل حضرات کا بھی یہی حال ہے ،سرکاری ملازمین دفتر میں بیٹھنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں ،علماء حضرات میں بھی دنیا پرستی کا غلبہ ہوتا جارہاہے، صاحب قلم حضرات میں بھی اکثریت ان لوگوں کی محسوس ہوتی ہے جو قلم حق اور انصاف کے لئے نہیں بلکہ مجرموں ،لٹیروں ،غاصبوں اور ظالموں کی تائید و نصرت کے لئے اٹھاتے ہیں ،ہمارا محکمہ پولیس رشوت ستانی اور اقرباء پروری سے اٹا پڑا ہے رمضان المبارک انہیں بھی مصائب و پریشانیوں کے ستائے سائلین سے خوف خدا رکھتے ہوئے معاملہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ،اسی طرح انصاف کی کرسیوں پر براجمان صاحب اختیارمسلمانوں کے ٹیبل پر زیر التواء اپنے پاکستانی بھائیوں کے لاکھوں کیسز انصاف کی تلاش میں ان کے جنبش قلم کے منتظر ہیں رمضان المبارک اور عید کے قریب آتے ہی ٹرانسپورٹ مالکان کرائیوں میں من چاہا اضافہ کردیتے ہیں اور چاندرات میں تو مجبور مسافر روٹین کے کرایہ سے سو سو گنازیادہ دیکر اپنے گھروں کو پہنچتے ہیں ،ہماری سیاستدانوں کی افطار پارٹیوں کے کیا ہی کہنے چند ایک کو چھوڑ کر جو ریا کاری اور ووٹ پکے کرنے کے چکر چلاتے ہیں اﷲ کی پناہ ۔

یعنی ہمارے معاشرے کے تمام طبقے ،تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بے حس ہوچکے ہیں اور رمضان المبارک کے مبارک ماہ میں روزے رکھ کر مقصد روزہ کو بھول کر وہ وہ کارنامے سرانجام دیتے ہیں کہ روزے کی قبولیت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور سوائے سارا دن بھوکا اور پیاسا رہنے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا اﷲ پاک مجھے بھی پکی اور سچی توبہ کرنا نصیب فرمائے اور آپ سب کو بھی، آج سے عزم صمیم کریں کہ جتنا رمضان باقی اور جتنی زندگی باقی ہے روزہ کے مقصد کو سمجھ کر روزہ رکھنے کی کوشش کریں گے ۔

Sufiyan Farooqi
About the Author: Sufiyan Farooqi Read More Articles by Sufiyan Farooqi: 28 Articles with 27014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.