محرم الحرام کی حرمت

روز ازل ہی کو جب زمین کا سبزہ زار فرش اور آسمان کی نیلگوں چھت تیار ہوئی تھی اور اس میں سورج کا روشن چراغ اور چاند کی خوشنما قندیل جلائی گئی تھی یہ بات نوشتہ الٰہی میں لکھ دی گئی کہ صبح وشام کی تبدیلیوں اور شب وروز کے الٹ پھیر سے ہفتہ اور پھر جو مہینہ وجود میں آتا ہے وہ بارہ ہیں جن میں چار مہینے بڑ ے ہی مبارک ومحترم ہیں ۔ چنانچہ خلاق عالم اپنی آخری کتاب کی سورت برأت میں یوں گویا ہوتا ہے کہ إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللَّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللَّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ (التوبۃ:۳۶)
’’بیشک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک اللہ کے حکم میں بارہ ہے جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان میں چار حرمت والے مہینے ہیں ۔‘‘

کسی شاعر نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے

سورۃ توبہ میں فرماتا ہے رب

سال اندر چار ہیں ماہ ادب

وہ مہینے ہیں بہت با احترام

قتل وجنگ وظلم ان میں ہے حرام

ان میں سے محرم کا مہینہ بڑ ا ہی قابل احترام ہے اس کا احترام جاہلیت کے تاریک ترین زمانے میں بھی باقی تھا ریگزار عرب کے بدو جو علم سے دور اور عقل سے بیگانہ، وحشت سے قریب اور جنگ وجدال کے رسیا ودلدادہ تھے وہ بھی ان مہینوں کے احترام میں قتل وقتال، جنگ وجدال، کشت وخون، لوٹ مار اور غارت گری ورہزنی سے باز رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ محرم کے مہینہ کو محرم الحرام کہا جاتا ہے کہ اس میں معرکہ کارزار گرم کرنا اور انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنا حرام ہے۔

اس مبارک مہینہ کی دسویں تاریخ تو گویا خوبیوں اور فضیلتوں کا گلدستہ ہے کہ اسی دن پیغمبر جلیل موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظالمانہ وجابرانہ شکنجہ اور غلامی کی ذلت آمیز قید وسلاسل سے آزاد کرایا۔اس دن کی فضیلت کیلئے اس سے بڑ ھ کر اور کیا شہادت ہو سکتی ہے کہ رمضان کے بعد اسی دن کے روزہ کو افضلیت حاصل ہے چنانچہ ریاض محبت کی بہار جاوداں کا آخری نغمہ خواں عندلیب اور مستور ازل کے چیرہ زیر نقاب پہلا بند کشا ، پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیان فرماتے ہیں ۔

’’اَفضَلُ الصِّیَامِ بَعدَ رَمَضَانَ شَہرَ المُحَرَّمِ۔‘‘ (صحیح مسلم) ’’رمضان کے مہینہ کے بعد محرم کے مہینہ کا روزہ افضل ترین روزہ ہے ۔‘‘

لہٰذا یہ دن تو وہ دن ہے کہ اللہ کا بندہ کمال بندگی کے ساتھ اپنے رب کی محبت میں سرشار ہوکر اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہمہ تن مشغول ہوجائے انتہائی عجز ونیاز کے ساتھ اپنی عبادت اور اعمال صالحہ کا نذرانہ اس کے دربار عالی میں پیش کرے اور روزہ ونماز ذکر وتسبیح کے ذریعے اس کی خوشنودی ورضا مندی کا جویا وطلبگار ہو۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حج کے خطبہ میں فرمایا۔ زمانہ گھوم کر اپنی اصلیت پر آ گیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت وادب والے ہیں تین تو پے درپے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور چوتھا رجب المرجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے ۔ (بخاری ومسلم)

اسلام سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے خاتمہ پر عید کرتے تھے ۔ ابتدائے اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تب عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی جس کا دل چاہے رکھے جی نہ چاہے تو نہ رکھے ۔

جب آنحضرت مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو یہودیوں کو محرم کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :’’ تم اس روز کیوں روزہ رکھتے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے ۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کے حقدار ہیں ۔ اس لئے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)

لیکن یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کیلئے آپ نے فرمایا کہ ’’اگر میں زندہ رہا تو محرم کی نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا۔ ‘‘

مگر آئندہ سال آپ محرم کے آنے سے پہلے خالق حقیقی سے جاملے لیکن یہ حکم باقی رہا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا لہٰذا محرم کی نویں دسویں یا دسویں گیارہویں یعنی دو دن کا روزہ رکھنا چاہیے ۔رسول ا کرم نے فرمایا: ’’صوموا یوم عاشوراء وخالفوا فیہ الیہود صوصوا قبلہ یوما أو بعدہ یوماً ۔ (أحمد)

’’عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو دسویں کے ساتھ ایک دن اور روزہ رکھو چاہے ایک دن پہلے ہو یا ایک دن بعد کا۔‘‘

ماہ محرم کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ سن ہجری(اسلامی سال) کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد سرور کائنات کے واقعہ ہجرت پر ہے لیکن اس کا تقرر اور آغاز استعمال ۱۷ ہجری میں عہد فاروقی سے ہوا۔ یمن کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے احکامات آتے تھے جن پر تاریخ کا اندراج نہیں ہوتا تھا چنانچہ ۱۷ ہجری میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر خسر مصطفیٰ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا ۔ طے یہ پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتداء محرم سے کی جائے کیونکہ ۱۳ نبوی کے ذوالحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کر لیا گیا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔

مسلمانوں کا سن ہجری اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے منفرد حیثیت کا حامل ہے ۔ دوسرے مذاہب میں جو سن رائج ہیں وہ یا تو کسی شخصیت کے یوم ولادت کی یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعہ مسرت وشادمانی سے وابستہ ہیں ۔ نسل انسانی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ جیسا کہ سن عیسوی کی ابتداء سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہے ۔ یہودی سن حضرت سلیمان علیہ السلام کی فلسطین پر تخت نشینی کے ایک پر شکوہ واقعہ سے وابستہ ہے روی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو ظاہر کرتا ہے ۔ بکرمی سن راجہ بکر ماجیت کی پیدائش کی یاد دلاتا ہے ۔

لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوی کے ایسے عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے جس میں ایک سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان پر اعلائے کلمہ الحق کے بدلے میں مصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑ یں ۔ سب لوگ دشمن ہوجائیں ، اعزہ واقربا بھی اس کو ختم کرنے پر تل جائیں اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دئیے جائیں تمام سربر آوردہ لوگ اسے قتل کرنے کا عزم کر لیں ، اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے اس کی آواز کو بھی دبانے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے ؟اسلام یہ نہیں کہتا کہ کفر وباطل سے مصالحت کر لی جائے یا حق کی تبلیغ میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقیدے اور نظرئیے میں نرمی پیدا کر کے ان کے اندر گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور کم ہو جائے ۔ نہیں ، بلکہ اسلام ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے ہجرت کا حکم دیتا ہے ۔

اسی واقعہ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد ہے جو نہ تو کسی انسانی فوقیت وبرتری کو یاد دلاتی ہے اور نہ ہی کسی پر شکوہ واقعہ کو ... بلکہ مظلومی وبے بسی کی ایسی یادگار ہے جو ثابت قدمی ، عزم واستقلال ، صبر واستقامت اور رضائے الٰہی پر راضی ہونے کی زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے ۔

یہ واقعہ ہجرت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ مظلوم ، بے کس بے بس اور لاچار مسلمان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور کس طرح وہ خارستان میں گئے ، بیابان اور جنگل میں گئے اپنے آبلوں سے کانٹوں سے تواضع کی ، صرصر کو دیکھاؤ سموم کو دیکھا، لو اور دھوپ کو دیکھا ، تپتی ریت اور دہکتے کوئلوں کو ٹھنڈا کیا، جسم پر چرکے کھائے ، سینے پر زخم سجائے ، آخرمنزل مقصود پر پہنچ کر دم لیا ، کامرانی وشادمانی کازریں تاج اپنے سر پر رکہا اور پستی وگمنامی سے نکل کر رفعت وشہرت اور عزت وعظمت کے بام عروج پر پہنچ گئے ۔لیکن سوائے ناکامی آج ہم نے ہجرت کے حقیقی درس کو فراموش کر دیا اور خودساختہ بدعات وخرافات سے نئے سال کی ابتداء کرتے ہیں ۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اس ماہ محرم الحرام کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سانحہ تو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے پچاس برس بعد پیش آیا۔ اور دین رسول کی حیات طیبہ میں مکمل ہو گیا تھا اگر بعد میں ہونے والی شہادتوں کی شرعی حیثیت ہوتی تو خسر مصطفیٰ ، مراد مصطفیٰ اور شہید محراب سیدنا عمر فاروق کی شہادت اور سیدنا عثمان کامل الحیاء والایمان کی مظلوم شہادت اس لائق تھیں کہ مسلمان ان کی یادگار مناتے اور اگر ماتم وشیون کی اجازت ہوتی تو اسلامی تاریخ میں یہ شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام اس پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے کم ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 49114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.