رقص و سرور کی محفل گرم تھی ۔مشہور سیاست دان ملک عبید
اللہ نوعمر رقاصہ کے لچک دار بدن کی رعنائیوں میں گم تھے ۔ جام پر جام
چڑھاتے اس کا نشہ گہرا ہوتا جارہا تھا اور اس کے اندر کا حیوان بیدار ہوتا
جارہا تھا ۔اس نے نائیکہ( جو کسی زمانے میں اس کی منظور نظر تھی ) کی طرف
نوٹوں کی گڈی اچھالی اور لڑکھڑاتے لہجے میں کہا:
"اس بہاروں کی ملکہ کو میرے ساتھ روانہ کردو "۔
نائیکہ جھک کر کورنش بجا لائی اور لہک کر بولی:
"حضور جوہری ہیں اور ہیرے کو پہچان لیتے ہیں۔ اٹھارہ برس پہلے یہ ہیرا آپ
نے ہی تو مجھے دان کیا تھا ۔"
ملک عبید اللہ کو اٹھارہ سال پہلے کی وہ رنگین رات یاد آگئی جب کسی نے ہاتھ
جوڑ جوڑ کر اس سے رحم کی بھیک مانگی تھی مگر اس کی حیوانیت کے آگے اس کی آہ
و زاری بیکار گئی تھی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے کس کر اس کے منہ پر
طمانچہ مارا ہو ۔اس نے نوعمر رقاصہ کی طرف دیکھا تو اسے لگا اس کی غیرت کا
جنازہ سربازار سجا کھڑا ہے۔
|