عورت کی آزادی اور ٹھنڈے کھانوں کی تاریخ

جب تک عورت اپنے آپ کو دریافت نہیں کر سکتی تب تک وہ اپنے بارے میں کوئی مکمل رائے بھی قائم نہیں کر سکتی۔
ڈاکٹر شاکرہ نندنی

خود مختار عورت

‘عورت‘ ان زندہ موضوعات میں سے ایک ہے جس پر گفتگو اور بحث و مباحثہ کا سلسلہ شاید کبھی ختم نہ ہوگا۔ ایک طویل عرصہ تک یہ گفتگو صرف مرد حضرات ہی کرتے آئے ہیں۔ اس بات کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ عورت نے بھی اپنی آواز بلند کر لی ہے تاکہ اپنے بارے میں خود بھی کوئی رائے دے سکے۔ اپنی رائے پیش کرنا ہر باشعور کا حق ہے۔ ایک مدت تک عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب آواز بلند کرنا عورت کا فرض بن چکا ہے۔ یہ آواز توانا بھی ہونی چائیے اور نپی تلی بھی۔ اس آواز کا سامنا ان گنت سماعتوں سے ہونا ہے۔ اس آواز کو دیے جانے والے جواب بھی یوں تیار رکھے گئے ہیں جیسے کسی فوج کا بارود خانہ۔ اس آواز کو اپنی گونج کا اندازہ بھی پہلے سے کرنا ہے۔ آج کی عورت کا سب سے بڑا فرض اپنے حقوق کی بازیابی ہے اور اسے یہ فرض ادا کرنا ہے۔ اور میری رائے میں ایسا تب تک ممکن نہیں جب تک عورت اپنے آپ کو ایک بڑی تصویر میں رکھ کر نہیں دیکھے گی تاکہ اسے اندازہ ہو سکے کہ عورت ہونا کیا ہے۔ جب تک عورت اپنے آپ کو دریافت نہیں کر سکتی تب تک وہ اپنے بارے میں کوئی مکمل رائے بھی قائم نہیں کر سکتی۔

تمام معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی عورتیں شروع سے ہی موجود رہی ہیں۔ ایسا کوئی معاشرہ وجود ہی نہیں رکھ سکتا جس میں عورت موجود نہ ہو۔ ہمارے لیے یہ بات سمجھنا اولین ضرورت ہے کہ عورت کا وجود انسانی معاشرے کی لازمی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ اس پر یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اس طرح تو ایک زمانے تک غلاموں کا وجود بھی انسانی معاشرے کی لازمی ضرورت رہا ہے۔ تو کیا عورت کو غلام بنائے رکھنے کی قیمت بس یہی لفظی اقرار ہے کہ عورت معاشرے کی ضرورت ہے؟ لیکن یہاں ہمیں اپنی بات کو مزید کھنگالنا ہوگا۔

عورت صرف غلام بھی نہیں ہے۔ غلامی کا سماجی ادارہ ایک طویل عرصہ تک موجود رہا ہے لیکن اس کی بنیاد جنگی معیشت تھی۔ عورت کسی بھی معاشرے کے لیے معیشت سے بھی زیادہ بنیادی ہے اور اس کی بنیادی وجہ عورت کا حیاتیاتی وجود ہے جس کے بغیر نسل انسانی کا تسلسل قائم نہیں رہ سکتا۔ معیشت اور ثقافت اس تسلسل کے جزو سہی لیکن عورت اور مرد اس گاڑی کے پہیے ہیں۔ یہ کہنا بالکل بھی مبالغہ نہیں کہ عورت تاریخ کی لازمی شرط ہے۔ عورت کے مسئلہ کا اس حد تک بنیادی ہونا اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے جب کہ غلامی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

جب یہ سمجھ لیا جائے کہ عورت ہر معاشرے کی لازمی شرط ہے تو اس بات کی سمجھ بھی آنے لگتی ہے کہ خاموشی کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ تاریخ کا زیادہ حصہ مردوں نے لکھا ہے لیکن عورت نے ہر دور میں خاموش رہ کر بھی اپنے ہونے کی گواہی دی ہے۔ یہ خاموشی سننے کے لیے تاریخ کو بین السطور پڑھے کی سمجھ ہونی چائیے۔ مردوں کی حاکمیت کے معاشروں میں بھی عورت اپنے وجود کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتی آئی ہے۔

ہمارے کلچر میں بھی اس کی رنگا رنگ مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً ایک زمانے میں شادی کا تہوار دراصل چھوٹے چھوٹے کئی تہواروں اور رسموں کا مجموعہ ہوتا تھا۔ کئی دن پہلے سے گھروں میں ڈھولک رکھ دی جاتی۔ گھر کا کنڑول عورتوں کے حوالے ہوجاتا تھا۔ آس پاس کے گھروں سے عورتیں شام گئے ہی آ جاتیں۔ رشتہ داروں سے بھی مرد اپنی عورتوں کو چھوڑ جاتے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ عورتیں بلائی جاتیں جنہیں ان گنت ماہیے اور لوک گیت نا صرف یاد ہوتے بلکہ گائیکی کی بہترین مہارت بھی حاصل ہوتی تھی۔ رات گئے تک گیت گائے جاتے۔ ان گیتوں کی شاعری عورت کے حقیقی وجود کا مکمل اظہار ہوتی تھی۔ عورتوں کی ٹولیاں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر گاتیں اور اس دوران باہمی نوک جھونک بھی چلتی رہتی۔

ماہیوں ہی ماہیوں میں ایک دوسرے کو کھل کر سنائی جاتیں۔ ایسے موقعوں پر کئی عورتوں کی فی البدیہہ آمد بھی مشہور تھی۔ یہ تقریب عورتوں کے مشاعرہ سے بھی کہیں زیادہ زندہ محفل ہوتی تھی۔ اس زمانے کی عورت کی تمام کیفیات اور تجربات کا بہترین اظہار ان گیتوں میں ملتا ہے۔ یہ اظہار بہت سچے انداز میں کیا جاتا تھا۔ کئی ماہیے اور گیت صرف زنانے میں ہی چلتے تھے۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ اس زمانے میں عورت کو اپنے مکمل وجود کی بہتر سمجھ حاصل تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک طویل عرصہ سے مرد کے زیر سایہ رہنے کے بعد اس سایے کا طول بلد جان چکی تھی اور اس کی جدوجہد کافی واضح تھی۔ ہمارے کلچر میں کچھ عرصہ پہلے تک یہ بات موجود رہی ہے۔

پچھلی کچھ دہائیوں سے ہمارا معاشرہ ایک خاص انداز سے بدل گیا ہے۔ اس کا اثر ہمارے کلچر پر بھی پڑا ہے۔ اس سے پہلے عورت مرد کے زیر اثر تھی۔ لیکن اب عورت اور مرد دونوں ہی معیشت کے زیر سایہ آگئے ہیں۔ اس کا دو ممکنہ نتیجے نکل سکتے ہیں۔ یا تو مرد بھی غلام ہو گیا ہے یا عورت بھی آزاد ہو گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اب ماں باپ کے لیے یہ بات سمجھنا زیادہ آسان ہو گیا ہے کہ ان کی بیٹیوں کو بھی اسکول، کالج جانا چائیے۔ ہر سال ہزاروں لڑکیاں مختلف اداروں سے ڈگری لیتی ہیں۔ جاب ہولڈرز خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور کئی شعبوں میں اب عورتوں کا کیرئیر مردوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ مردوں نے ایک خاص حد تک یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ایک بہتر زندگی کے لیے عورت کو بھی اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ اس صورتحال میں عورت بھی معاشی خود مختاری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عورت کے اس بڑھتے ہوئے کردار کا مشاہدہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔

لیکن یہاں ایک بات کو بھولنا نہیں چائیے۔ کیا عورت واقعی آزاد ہو رہی ہے یا اس جدید دور میں مرد بھی اب اتنا آزاد نہیں رہا جتنا کہ وہ پہلے تھا۔ اور یوں ہمیں لگتا ہو کہ جیسے عورت اور مرد برابر ہو رہے ہیں حالانکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ شاید مرد بھی نیچے گر کر عورت کی طرح غلامی میں آ گیا ہے۔ یہاں غلامی کا سوال الگ طرح سے دیکھنا چائیے۔ کیا دو غلام برابر ہو سکتے ہیں؟

میں ایسی فیمی نسٹ عورتوں کو جانتی ہوں جو مردوں کو بالکل پسند نہیں کرتیں۔ مجھے ان سے کچھ اختلافات ہیں لیکن یہاں میں ایک لمحہ کے لیے ان کی طرح سوچنے کی کوشش کر سکتی ہوں۔ ہاں مرد واقعی ہمیں ہمارے حق نہیں دے سکتے۔ تو یہ تھوڑے بہت حقوق جو ہم نے حاصل کیے ہیں یہ بھی مردوں نے اپنی کشادہ ظرفی سے نہیں دیے۔ وہ اس سب کے لیے مجبور تھا۔ نتیجہ تو ملتا جلتا ہی نکلتا ہے۔ عورت اتنی آزاد نہیں ہوئی جتنا مرد غلام ہوا ہے۔ عورت کو ابھی اپنی آزادی کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ عورت کی ذمہ داری کا اصل وقت یہی ہے کیونکہ اب عملی میدان میں عورت کی جگہ پیدا کرنا خود سسٹم کی مجبوری بن چکی ہے-

ہم ایک نئے کلچر میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے کا کلچر جس میں عورت کی ایک آواز لوگ گیتوں اور ماہیوں کی بے باک سروں میں ملتی ہے اب تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اب جو کلچر پھیل رہا ہے وہ سطحیت پسند اور ماس کلچر ہے۔ اس بدلی ہوئی فضا میں عورت کے لیے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ اس کی آواز اس کے وجود سے پیدا ہو رہی ہے یا اس کاغذی زندگی سے جو جدید دور مرد اور عورت دونوں کے لیے خود لکھتا ہے۔ عورت کو معاشی خودمختاری کی منزل کی طرف جانا ہوگا کیونکہ یہی منزل اس کی اصل آزادی کا راستہ ہے۔ عورتوں کو اکٹھے ہو کر اس سمت میں چلنا ہوگا۔ ان کی تنظیم سازی کی اصل توجہ اسی طرف ہونی چائیے۔

تعلیم یافتہ اور معاشی خود مختار عورت معاشرے میں تبدیلی کی اصلی طاقت ہے۔ اس عورت کی اصل طاقت یہ نہیں کہ کھانا ٹھنڈا ہو جائے تو وہ بے حس رہے۔ اس عورت کا اصل کام یہ ہے کہ اسے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ عورت کا جسم اس کی مرضی ضرور ہونی چائیے لیکن عورت اور مرد دونوں کے جسم ہی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ عورت کی آواز میں یہ سر شامل رہنا چائیے ورنہ مکمل عورت سامنے نہ آئے گی۔

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 203 Articles with 212339 views I am settled in Portugal. My father was belong to Lahore, He was Migrated Muslim, formerly from Bangalore, India and my beloved (late) mother was con.. View More