آج ہم یوم پیدائش قائد اعظم اس
عزم سے منا رہے ہیں کہ اس ملک کو قا ئد کے خوابوں اور اپنے آباﺅ اجداد کے
جذبوں کی تعبیر بنا ئیں گے اس کو وہ اسلامی ریا ست بنا ئیں گے جس کے لئے
ہماری قوم کی عظیم ماﺅں ، بہنوں نے خون دیا۔ عزتیں دیں۔ جس کی سربلندی کے
لئے ہر نوجوان نظر آیا اس پاکستان کے لئے جس کے نعرے انگریزوں،ہندﺅوں کے
دلو ں پر تیر بن کر لگتے تھے اور قا ئد اعظم کے ارشادات سے بھی یہ ظا ہر ہو
تا ہے کہ وہ خودی کی بلندی سے کوسوں دور تھے ان کی ہر سوچ،ہر نعرہ، ہر مگن،
ہر فکر غرض ہر چیز صرف پاکستان کے لئے تھی جس کا خواب صدیوں سے مسلمانان
برصغیر دیکھ رہے تھے ان ارشادات میں قا ئدا عظم عوام کو پاکستان کے لئے کام
کا م کام کر نے کا کہتے ہیں۔ کئی ایک جگہوں پر قا ئد اعظم نے ہارے ہو ئے
حوصلوں کو یہ کہہ کر بلند کر دیا کہ ابھی تو امتحان شروع ہوا ہے اور تمھارا
حوصلہ ابھی مزید بلند ہو نا چا ہیئے جیسا کہ پا کستان بنا نے کے وقت تھا۔
کہیں یہ بھی فرمایا کہ ابھی تو امتحان سر پر پڑا ہوا ہے آپ یہ نہ سمجھیں یہ
پاکستان بن گیا ہے ابھی تو طویل سفر باقی ہے اسی طرح سے قائد اعظم کے اور
ارشادات یہ ہیں جن کی رو سے ہر پاکستانی اس ریا ست کا اہم ستون ہے ہر کسی
کو اپنے فرائض، اپنی ذمہ داری پوری لگن اور محنت سے پوری کر نے چا ہیئے جس
سے یہ ملک خداداد اسلامی ممالک بلکہ دنیا پر ایک عظیم ریا ست کے طور پر سا
منے آ ئے گا ۔ ان کے مزید ارشادات یہ ہیں۔
انہوں نے نوزائید ملک کے بارے میں ایک جگہ یہ فرما یا تھا کہ”تاریخ میں
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ نوجوان قوموں نے اپنے کردار کی پختگی اور پکے
ارادے کی بدولت اپنے آپ کو مضبوط بنا یا ہماری تاریخ بہادری اور عظمت کی
داستانوں سے بھری ہو ئی ہے ہمیں اپنے آپ کو مجاہدوں کی سی روح پیدا کر نی
ہے“
اسی طرح قائداعظم نے11اکتوبر 1947ءمیں سرکاری ملازمین سے خطاب کر تے ہو ئے
فرمایا ”ہمارے لئے یہ ایک چیلنج ہے اگر ہمیں ایک قوم کی حیثیت میں زندہ
رہنا ہے تو ہمیں مضبوط ہاتھوں سے ان مشکلا ت کا مقا بلہ کر نا ہو گا ۔
ہمارے عوام غیر منظم اور پریشا ن ہیں مشکلات نے انہیں الجھا دیا ہے ہمیں
انہیں مایوسی کے چکر سے باہر نکالنا ہو گا اور ان کی حوصلہ افزائی کر نا ہو
گی اس وقت انتظا میہ پر بھاری ذمہ داری عا ئد ہو تی ہے اور عوام اس کی جا
نب راہنمائی کے لئے دیکھ رہے ہیں“
اسی طرح اپنے ملک کے عوا م کی مشکلات کو دیکھ کر قائدا عظم نے
25مارچ1948ءکو سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہو ئے یہ فرمایا۔ ”آپ اپنے جملہ
فرائض قوم کے خادم بن کر ادا کیجئے آپ کا تعلق کسی سیا سی جماعت سے نہیں ہو
نا چا ہیئے اقتدار کسی بھی جماعت کو مل سکتا ہے آپ ثا بت قدمی، ایمان اور
عدل کے ساتھ اپنے فرائض بجا لا ئے اگر آپ میری نصیحت پر عمل کر یں گے تو
عوام کی نظروں میں آپ کے رتبے اور حیثیت میں اضا فہ ہو گا“
ان ارشادات کی روشنی میں قائد کے ملک کی جا نب نظر دوڑائیں تو قا ئد کے
عظیم ارشادات /اقوال کی نفی ہو تی نظر آ تی ہے ہر محکمہ ہر انسان کسی بھی
پوسٹ پر ہے ملک کو دیمک کی طرح کھا تا نظر آ تا ہے اسے نقصان در نقصا ن اور
بحران در بحران کا شکار کر رہا ہے ہر کسی نے اسے ڈسنے کا فن جانچ رکھا ہے
ہر کو ئی انسان دوسرے سے بد زن نظر آتا ہے ہر کوئی دہشت گردی کی زد میں ہے
اس ملک کو کرپشن کی دیمک نے اجاڑ کر رکھ دیا ہے اختیارات کے نا جا ئز
استعمال نے اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اسے ان دوست نما دشمنوں نے
ملکی دشمنوں کے آگے ”طوائف“ بنا دیا ہے جس کو جو آئے استعمال کر کے چلا جا
ئے اس میں ہر روز عوام کو تکلیف دینے کے لئے حکومتی ایوانوں میں بیٹھے لوگ
بحران در بحران پیدا کرتے نظر آ تے ہیں جن کے ہاتھ میں اس ملک کی بھا گ دوڑ
ہے وہ ہی اس کو عالم اسلام میں تنہا کر تے جا رہے ہیں۔ جو اس ملک کی تقدیر
ہیں جو اس ملک کی وجہ سے عزت دار کہلاتے ہیں وہ ہی اس کی عزت تار تار کر تے
نظر آ تے ہیں امریکی غلام بنا تے جا رہے ہیں اپنے مفادات کی تقویت کے لئے
ایک دوسرے کی کردار کشی کر تے رہتے ہیں اور اپنے فائدے کے لئے ایک دوسرے کے
گلے لگ رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ ایوانو ں میں
بیٹھے اس کو اپنے لئے قابل زحمت سمجھتے ہیں اس کو سنوارنے کی بجا ئے اس کو
بگاڑ نے پر تلے ہو ئے ہیں ۔ اے قائد یہ ملک آپ کے خوابوں کی تکمیل نہیں بن
سکے گا ۔ یہاں انصاف پیسوں میں بکتا ہے۔ جہاں چوروں ڈاکوﺅں کو ناجا ئز منا
فع خورو ں کو کھلی چھٹی ہے جو دل میں آ ئے کریں اس ملک کے تو ڈاکٹر مسیحا
بھی اس کو اس کی عوام کو ذلیل و رسوا کر تے ہیں ۔ان کی جا ن کی قیمت نہیں
ہر محکمہ اپنے آپ میں فرعون بنا بیٹھا ہے۔ عوام کے خادم ہی اس کو زندہ
درگور کر رہے ہیں۔
ا ے قا ئد ہم شرمندہ ہیں آپ کا خواب کبھی پورا نہیں کر سکتے کیو نکہ ہمارے
لیڈر ہی اس کو۔۔۔۔۔حالانکہ لیڈر وہ ہو تا ہے جو اپنی قوم کوایک راہ متعین
کر کے دے ۔اور اسی پر کار بند رہنے کے لئے حو صلہ اور جذبہ دے ۔ مگر وہ اس
سے کوسوں دور ہیں ۔ اس ملک کے لیڈر ہی اس کو نقصان در نقصان پہنچا رہے ہیں۔
بحران در بحران بھی انہیں لوگوں کے پیدا کئے ہو ئے ہیں۔ لیڈر تو لیڈر عوام
بھی اپنے فرائض ذمہ داریوں کو پورا کر نا اور آپ کے بتا ئے ہو ئے راستے پر
چلنا اپنے لئے کٹھن ترین کام سمجھتی ہے اے قا ئد ہم اس ملک کو وہ ریاست
نہیں بنا سکتے جس کا خواب آپ نے دیکھا تھا جس کی امنگوں اور امیدوں کو
ہمارے آ باﺅ اجداد نے دلوں میں جنم دیا تھا وہ ہم پورا نہیں کر سکتے اے قا
ئد ہم شر مندہ ہیں ۔ |